حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ہر کسی کو چونکا دیا ہے۔ جو الیکشن ہار گئے، ان کا حیرت زدہ ہونا فطری ہے مگر کئی ایسے فاتح امیدوار بھی ہیں جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہـ’’ ہمیں اتنی بڑی جیت حاصل ہوگی، یہ ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا۔ ‘‘
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 4:46 PM IST | Abdul Karim Salar | Mumbai
حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ہر کسی کو چونکا دیا ہے۔ جو الیکشن ہار گئے، ان کا حیرت زدہ ہونا فطری ہے مگر کئی ایسے فاتح امیدوار بھی ہیں جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہـ’’ ہمیں اتنی بڑی جیت حاصل ہوگی، یہ ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا۔ ‘‘
حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ہر کسی کو چونکا دیا ہے۔ جو الیکشن ہار گئے، ان کا حیرت زدہ ہونا فطری ہے مگر کئی ایسے فاتح امیدوار بھی ہیں جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہـ’’ ہمیں اتنی بڑی جیت حاصل ہوگی، یہ ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا۔ ‘‘ اگر ہم سیاسی لیڈروں کی ریلیوں اور ان کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ مہا وکاس اگھاڑی کے لیڈران نے جس طرح کی محنت کی، وہ قابل دید ہے۔ انتخابی مہم کے معاملے میں اگھاڑی کو سبقت حاصل ہے لیکن زمینی سطح پر اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی۔ اگھاڑی کے برعکس ’مہا یوتی‘ کے لیڈروں بالخصوص وزیر اعظم اور وزیرداخلہ کی ریلیوں کی ناکامیوں کو دیکھئے، ہر جگہ کرسیاں خالی نظر آئیں ....لیکن زمینی سطح پر جو سنجیدگی اور ڈسپلن مہایوتی میں نظر آیا، وہ سب پر عیاں ہیں۔
حکومت کے خلاف مراٹھا سماج کے ساتھ ہی دلتوں، کسانوں اورمسلمانوں کی ناراضگی پوری طرح سے عیاں تھی۔ اس کے باوجود اس طرح کے نتائج آئے۔ واقعی یہ نتائج غیر متوقع اور حیران کن ہیں۔ اس کی وجہ سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور مختلف لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نہ ہوتا تو یہ نہ ہوتا... لیکن ایسا کہنا درست نہیں ہے۔ میری نظر میں ان نتائج کیلئے کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی عوامل اور مختلف وجوہات ہیں۔ جیسے:
بر سر اقتدار آنے والی پارٹیوں کی جیت کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ ان کے رضاکاروں نے نہایت خاموشی سےرائے دہندگان تک رسائی حاصل کی اور ہر بوتھ پر ایسے افرادکو تعینات کیاجنہیں اس کی تربیت تھی۔ اس کے علاوہ انہیں باقاعدہ ٹریننگ بھی دی گئی۔ اس کے برعکس مہاوکاس اگھاڑی میں اس کا فقدان نظر آیا۔ کاش! لوک سبھا کی طرح اس مرتبہ بھی سیکولر طبقے نے کرناٹک پیٹرن پر کام کیا ہوتا۔
وزیراعلیٰ نے رام گیری اور نتیش رانے جیسے دریدہ دہنوں کو تحفظ فراہم کرکے ہندوتواوادی سماج کو خوش کیا جس کا انہیں فائدہ ملا۔ اس کے برعکس مسلم سماج ناموس ِرسولؐ کو بھی بھول گیا اور انتشار کا شکاررہا۔ جہاں مسلمانوں نے سمجھداری سے کام لیا وہاں مہا وکاس کو فائدہ پہنچا۔
جہا ں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے وہا ں مہا یوتی نے اپنے خرچ پر کئیمسلم اور آزاد امیدوار کھڑے کئے اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی پوری پوری کوشش کی اورکامیاب بھی ہوئے۔ اجیت پوار کی این سی پی کے ذریعے سے بھی مسلم ووٹ حاصل کئے گئے۔
لیکشن کمیشن کو ہریانہ کے ساتھ ہی مہاراشٹر اسمبلی کیلئے بھی الیکشن کروانا چاہئے تھا لیکن مہاراشٹرمیں الیکشن کی تاریخوں کو قصداً ٹالا گیا۔ اس درمیان ریاستی حکومت کی طرف سے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے کئی پیوند کاریاں کی گئیں۔ نہایت مختصر وقت میں سرکار نے تقریباً دو ہزار فیصلے کئے جن میں لاڈلی بہن یوجنا، بے روزگار نوجوانوں کو اسکالرشپ، معمر افراد کی پنشن میں اضافہ، ٹیکنیکل اور میڈیکل کالج میں پسماندہ طبقات اور کم انکم والی لڑکیوں کو مراعات۔ یہ تمام یوجنائیں انھوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت ر ائج کیں جس سے ہر طبقے کو فائدہ پہنچا اور اس طبقے سے حکومت کو بھی فائدہ پہنچایا۔
ہم نے خود دیکھا اور اپنے بزرگوں کی زبانی بھی یہ بات سنی کہ اسمبلی انتخابات میں پیسوں کی ایسی بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ پیسوں کی یہ برسات اگھاڑی کی جانب سے ممکن نہیں تھی۔
کچھ حلقوں میں محض ذاتی مفاد، کینہ پروری، انا اور پیسوں کی خاطر بعض مسلم لیڈروں نےمالدارآزادامیدواروں کیلئے کام کیا۔ اس طرح بڑے سوراخ کو بند کرنے کے بجائے گلی کوچوں کے مسائل کو ترجیح دی۔
راٹھا سماج جہاں ریزرویشن کی وجہ سے متحد ہوا، وہیں او بی سی سماج نے متحد ہوکر مہایوتی کا ساتھ دیا۔
ودی اور یوگی سے لے کر دیگر بی جے پی لیڈران نے اعلانیہ طور پر ’’بٹیں گے تو کٹیں گے، ایک ہیں تو سیف ہیں ، ووٹ جہاد اور بیٹیاں محفوظ نہیں ‘‘ جیسے غیردستوری اور نفرتی نعروں کے ذریعہ سماج کو بانٹنے اور اکثریتی برادری میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کا کام کیا۔
س نتیجے میں کسی حد تک سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی دخل ہے۔ اس نے شیوسینا اوراین سی پی کے درمیان تنازع پرواضح فیصلہ نہیں سنایا۔
مہا وکاس اگھاڑی کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے اسے نقصان پہنچایا۔ اسے لگ رہا تھا کہ جس طرح عوام نے لوک سبھا کے الیکشن کے وقت ووٹنگ کی تھی، اسی جذبے کے ساتھ اس بار بھی ووٹنگ ہوگی۔ یہ خوش فہمی بھی اگھاڑی کیلئے نقصاندہ ثابت ہوئی۔
مولانا سجاد نعمانی اور جلگاؤں کے مفتی ہارون ندوی کی تقاریر کو میڈیا بالخصوص این ڈی ٹی وی نے توڑ مروڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اکثریتی طبقے کے دلوں میں یہ بھرم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ مولوی فتوے دے کر اگھاڑی کو کامیاب کرارہے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں تھی۔ مولانا نعمانی نےایکتا فورم کی جانب سے سیکولر پارٹیوں کو حمایت دینے کیلئے جو نکات پیش کئے تھے، اس میں صرف مسلمانوں کی بات نہیں تھی بلکہ اس میں دستور کی بقا، کسانوں کیلئے پیکیج، ذات پات پر مبنی مردم شماری، آبروریزی اور ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون، وقف ترمیمی بل کی مخالفت اور ریاست میں امن و امان جیسے مطالبے کئے گئے تھے۔
ممبئی بھارت کی معاشی راجدھانی ہے۔ یہاں ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا کہ’’ اقتدار ملتے ہی دھاراوی کا پروجیکٹ ہم اڈانی کے ہاتھ سے لے لیں گے۔ ‘‘ چونکہ مہاراشٹر کا الیکشن اڈانی اور اگھاڑی کے درمیان تھا، اسلئے اگھاڑی کو کسی بھی قیمت پر روکنے کیلئے بے انتہا خرچ کیا گیا۔
یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اگھاڑی کی ہار اور مہایوتی کی جیت کا راستہ ہموار ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ سوالات بھی ہیں۔
اگر بی جے پی کا اتناہی جادو تھا، جیسا کہ اس کے لیڈران نتیجہ ظاہر ہونے کے بعد کہہ رہے ہیں تو پھر جھارکھنڈ میں یہ جادو کیوں نہیں چلا؟
ای وی ایم پر طویل عرصے سے انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ اس الیکشن کے بعد اس کی خرابیاں زیادہ کھل کر سامنے آئی ہیں۔ ایم این ایس جو مہا یوتی کی حلیف ہے، اس نے بھی ای وی ایم پر اعتراض کیا ہے۔ دھولیہ دیہی حلقے میں مہاوکاس کے امیدوار کو ایک بوتھ پر ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔ وہاں کل ووٹر ۱۶۰۰؍ تھے جبکہ مشین میں ۲۱۰۰؍ ووٹ گنے گئے۔ اس کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں نے احتجاجاً ہائے وے جام کیا۔
کچھ بوتھوں پردن بھر استعمال ہونے کے بعد بھی ووٹوں کی گنتی کے دن ای وی ایم۹۹؍ فی صد چارج پائے گئے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
ناگپور اور کئی مقامات پر پرائیویٹ گاڑیوں میں ای وی ایم کی نقل و حرکت پر عوام نے غم و غصے کا اظہار کیا اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ بھی کی۔
سینئر صحافی ابھے دوبے نے بھی یہ کہتے ہوئے شک کااظہار کیا ہے کہ بعض حلقوں میں ایسے ای وی ایم بھی ملے ہیں جن کا کوئی بھی بٹن دباؤ تو ووٹ کمل ہی کو جارہاتھا۔ یہ دھاندلی کا ایک واضح ثبوت ہے۔
لوک مت اخبار کے مطابق ریاست میں ۹۴؍ مقام ایسے ہیں جہاں مجموعی پولنگ اور مشین کی ووٹوں کی گنتی میں تفاوت پائی گئی ہے۔
مہاراشٹر انتخابات سے قبل جس طرح سے افسران کے تبادلے کئے گئے، اس سے بھیشک پیدا ہوتا ہے۔
یہاں ایکبڑا سوالیہ نشان الیکشن کمیشن پر بھی لگا ہے۔ اس نے پولنگ کے بعد پہلے ۵۸؍ فیصد، پھر رات میں ساڑھے۱۱؍بجے کل ووٹنگ ۶۵ء۰۲؍ بتائی تھی۔ دوسرے دن صبح۱۱؍ بجے ووٹنگ کی شرح ۶۶ء۰۵؍ اور رات میں ۶۷ء۷۲؍ فیصد بتائی۔ اس فرق کو مہاراشٹر کے رائے دہندگان آج تک نہیں سمجھ سکے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟
سپریم کورٹ سے بھی ایک سوال ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ بی جے پی نے اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکٹورل بونڈ کے ذریعے اربو ں روپے غیر قانونی طریقے سے حاصل کئے تو اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟قارئین جانتے ہیں کہ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم عبد الرحمان انتولے نے شکر کارخانوں سے غریبوں کی فلاح اور بہبود کیلئے جو فنڈ لئے تھے، اس کی وجہ سے انہیں اپنی کرسی چھوڑنی پڑی تھی۔ ان پر یہ الزام عائد ہوا تھا کہ انھوں نےکرسی کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ کیا الیکٹورل بونڈ معاملے میں ویسا ہی فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔
اب ہمارے سامنے دو باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ اگھاڑی کے لیڈران اور آئین کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے افراد عدالت سے رجوع ہوں اور مہاراشٹر کے الیکشن کو کالعدم قرار د ینے کا مطالبہ کریں تاکہ نئے سرے سے الیکشن ہو۔
دوم یہ کہ عوامی سطح پر بھی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی اپنا اپنا محاسبہ کیا جائے۔ اس الیکشن میں ایک طویل تجربہ ہم نے حاصل کیا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کون عاشق رسولؐ ہے؟ کون دستور کی بقا چاہتا ہے؟ کون مظلومین کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہے؟ کون چند روپوں کی خاطر اپنا ایمان کو بیچ سکتا ہے؟ کون غریبوں کو بہکاتا ہے اور ان کی غلط رہنمائی کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی شناخت کرلی جائے اور ان سے آئندہمحتاط رہا جائے۔ انتخابات تو ہوتے رہیں گے لیکن کون آپ کا دوست ہے اور کون دشمن ہے، اس کی شناخت ضروری ہے۔
نظر نہ آئینگے چہرے نہ جانے کس کس کے
دعائیں مانگئے محفل میں روشنی کم ہو
اب الزام تراشیاں کرنے کے بجائے اتحاد و اتفاق کے ساتھ اچھا ذہن رکھنے والے، ایماندار اور سیکولرہم وطنوں کے ساتھ مل کر آنے والے وقت میں کام کریں۔ یہی ایک مناسب حل ہے۔