Inquilab Logo Happiest Places to Work

آرایس ایس کی سوچ اور ابن صفی کے’ زیرولینڈ ‘ کے خاکے میں حیرت انگیز مماثلت

Updated: April 13, 2025, 3:15 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

آر ایس ایس اور زیرو لینڈ ، ایک زمینی تحریک اور دوسری ایک خیالی دنیا.... بظاہر الگ الگ سمتوں میں موجود ہیں لیکن اگر ہم ذرا گہرائی میں جائیں اور ان دونوں کے درمیان آپس میں موازنہ کریں تو نہایت دلچسپ مماثلتیں نظر آئیں گی۔

There is no place for minorities or those with different views in either RSS or Zero Land, both are governed by the whims of the majority. Photo: INN.
آر ایس ایس یا زیرو لینڈ دونوں جگہ اقلیتوں یا الگ سوچ رکھنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ، ان دونوں ہی جگہوں پر اکثریت کی من مانی چلتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ابن صفی کا ’زیرو لینڈ‘ ایک ایسا خیالی ملک یا خطہ ہے جو کسی بھی نقشے پر موجود نہیں مگر جاسوسی ادب میں اس کی موجودگی نہایت اہم اور منفرد ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ایک حقیقی نیم سیاسی وسماجی تنظیم ہے جو ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ دونوں ، ایک خیالی دنیا اور دوسرا ایک زمینی تحریک، بظاہر الگ الگ سمتوں میں موجود ہیں لیکن اگر ہم ذرا گہرائی میں جائیں اور ان کا موازنہ کریں تو ان دونوں کے درمیان نہایت دلچسپ مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ ابن صفی کی تخلیقات اردو جاسوسی ادب میں نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ تہذیبی، فکری اور سیاسی استعاروں سے لبریز شاہکار بھی ہیں۔ ان کے تخلیق کردہ ’زیرو لینڈ ‘کا کردار ایک خیالی آمریت، فسطائیت اور خفیہ سیاست کی نمائندگی کرتا ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس ایک زندہ، فعال اور منظم نظریاتی تنظیم ہے جو ہندو قوم پرستی کے بیانیے کو ہندوستان میں فروغ دیتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان موازنہ کسی طور پر بھی سطحی یا اتفاقی نہیں بلکہ یہ انفرادیت، فکری آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور اجتماعی ذہن سازی جیسے گہرے موضوعات سے جڑا ہوا ہے۔ 
ادب میں آمریت کی علامت ’زیرو لینڈ‘ ابن صفی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک ایسا خیالی ملک یا خطہ ہے جہاں قانون، ضمیر اور فکر سب کچھ ریاستی طاقت یا اقتدار کے تابع ہے۔ یہاں کا ہر شہری مشین کی طرح ایک نظام کے تحت چلتا ہے۔ حکمراں طبقہ خفیہ تنظیموں کے ذریعے عوام کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہاں سیاسی و مذہبی آزادی کا تصور ہی ناپید ہے۔ زیرو لینڈ میں سب کچھ ترقی اور قومی مفاد کے نام پر کیا جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ تخیلاتی دنیا حقیقت سے ٹکراتی ہے۔ ابن صفی دراصل ہمیں یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ اگر ہم نے فکری، اخلاقی ، سیاسی اوراظہار رائے کی آزادی کی حفاظت نہ کی تو ایک دن ہمارا معاشرہ بھی’ زیرو لینڈ‘ جیسا ہو جائے گا۔ 
یاد رہے کہ آر ایس ایس کی بنیاد۱۹۲۵ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا بنیادی مقصد ’ہندو راشٹر‘ کا قیام ہے۔ یہ تنظیم تعلیم، ثقافت، تاریخ، سیاست اور میڈیا میں اپنی فکر کے ذریعے پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا کام بظاہر تو فلاحی اور سماجی نظر آتا ہے لیکن یہ نظریاتی اور سیاسی تسلط چاہتی ہے۔ اس تنظیم کا خاص طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی شاخوں کے ذریعے چھوٹی عمر سے ہی بچوں میں مخصوص خیالات کی تربیت دیتی ہے۔ ان خیالات میں ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا وطن سمجھا جاتا ہے۔ اقلیتوں کو یا تو مظلوم یا غدار کے قالب میں پیش کیا جاتا ہے۔ ابن صفی نے زیرو لینڈ میں دکھایا کہ وہاں ہر شہری کی سوچ، لباس، گفتگو اور حتیٰ کہ محبت بھی ریاستی اجازت سے مشروط ہے۔ وہ ذہنوں کو اس طرح قابو کرتے ہیں جیسے روبوٹس کو پروگرام کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس بھی ایک ایسا ہی معاشرہ چاہتی ہے جہاں ہر شہری اکھنڈ بھارت اور ہندو افتخار کے نظریے پر یقین رکھے۔ جو اس سے انحراف کرے اسے قوم دشمن، لبرل، مغرب زدہ یا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ یہی فکری غلامی ابن صفی کی زیرو لینڈ میں بھی دکھائی دیتی ہے، جہاں سوال کرنا بغاوت ہے اور بغاوت کی سزا موت ہے۔ 
آر ایس ایس یا زیرو لینڈ دونوں جگہ اقلیتوں یا الگ سوچ رکھنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ وہاں سب کچھ اکثریت کے نظریے کے تابع ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ بھی ہندو اکثریتی بالادستی پر مبنی ہے جہاں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کو صرف برداشت کرنے کی حد تک جگہ دی جاتی ہے ، انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا اور حقوق ادا کرنے کی بات تو بہت دور ہے۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں ، پرسنل لاء، تعلیمی اداروں اور مذہبی آزادی جیسے آئینی حقوق کو بھی ریاستی قانون کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وہ روش ہے جو زیرو لینڈ کے مکمل کنٹرول والے نظام کی یاد دلاتی ہے۔ ’ زہریلا آدمی‘ اور’ خوفناک جنگل‘ جیسے ناولوں میں ابن صفی نے زیرو لینڈ کی ریاست، اس کے ایجنٹس، اس کے قوانین اور اس کی خفیہ سیاست کا واضح نقشہ کھینچا ہے۔ ابن صفی زیرو لینڈ کو ایک ایسی جگہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جہاں فرد کی آزادی اقتدار کے تابع ہے اور جہاں جذبات، خیالات اور محبت تک پر قابو پالیا جاتا ہے۔ اسی طرح زیرو لینڈ میں میڈیا صرف ریاستی بیانیہ نشر کرتا ہے۔ وہاں صحافت کا کام اطلاعات دینا نہیں بلکہ ذہن سازی ہے۔ آج کے ہندوستان میں بھی آر ایس ایس اور اس کی ہم نوا تنظیموں نے میڈیا پر اسی طرز کی گرفت قائم کر رکھی ہے۔ گودی میڈیا، ٹرول بریگیڈاور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی مہمات اسی ذہن سازی کا حصہ ہیں۔ 
حقیقتاً ابن صفی نے زیرو لینڈ کو محض سنسنی خیز جاسوسی کہانیوں کے لئےتخلیق نہیں کیا تھا۔ وہ دراصل ایک بڑے فکری اور سیاسی خطرے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ زیرو لینڈ آر ایس ایس کے ہندو راشٹر جیسے نظریات کی علامتی پیش گوئی ہے۔ وہ ہمیں خبردار کر رہے تھے کہ اگر ہم نے اظہار رائے کی آزادی، تنقید کا حق اور اقلیتوں کے وقار کی حفاظت نہ کی تو ہم سب ایک دن زیرو لینڈ کے شہری بن جائیں گے۔ بے آواز، بے چہرہ، اور بے اختیار۔ 
واضح رہے کہ ادب، خاص طور پر تخیلاتی ادب، صرف خواب دکھانے کا ذریعہ نہیں ہوتا وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں ہم اپنی حقیقت کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ زیرو لینڈ اور آر ایس ایس کے درمیان موازنہ ہمیں یہ بتاتاہے کہ جبر چاہے فکشن میں ہو یا حقیقت میں اس کی جڑیں ہمیشہ نظریاتی شدت پسندی، فکری تسلط اور اختلافِ رائے کی مخالفت میں پیوست ہوتی ہیں۔ اسی لئے اس کی عمران اور کرنل فریدی کی طرح ہر مو ڑ اور ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہئے۔ اس کے سامنے سرجھکانا زیرو لینڈکا شہری بننے کے مترادف ہو گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK