سپریم کورٹ نے انتخابی بونڈس کو غیر آئینی قرار دے کر مودی حکومت پر اخلاقی اور قانونی دبائو بڑھادیا ہے۔ اب امید ہے کہ اس اسکیم کے سائے میں جو بدعنوانیاں ہوئیں اور جو فائدے پہنچائے گئے وہ بھی سامنے آئیں گے۔
EPAPER
Updated: February 18, 2024, 1:34 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
سپریم کورٹ نے انتخابی بونڈس کو غیر آئینی قرار دے کر مودی حکومت پر اخلاقی اور قانونی دبائو بڑھادیا ہے۔ اب امید ہے کہ اس اسکیم کے سائے میں جو بدعنوانیاں ہوئیں اور جو فائدے پہنچائے گئے وہ بھی سامنے آئیں گے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے سیاسی طول و عرض پر اتنے اہم واقعات ہوئے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا، اس کا تجزیہ کرنا اور دیگر کو نظر انداز کر نا مشکل محسوس ہورہا ہے کیوں کہ جہاں ایک طرف کسانوں کی تحریک جاری ہے وہیں دوسری طرف پارلیمنٹ کا سیشن شروع تھا جس میں سرکار نے قرطاسِ ابیض پیش کرکے اپنی کارکردگی نہیں بلکہ سابقہ یو پی اے حکومت کی کارکردگی کا کچا چٹھا پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران ہندوستانی سیاست میں قلابازی کے ماہر نتیش کمار نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا جبکہ اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا بل اسمبلی سے منظور کروالیا گیامگر ان سب میں سب سے اہم جو واقعہ ہے و ہ چند روز قبل ہی پیش آیا ہے۔ سپریم کورٹ نےوزیر اعظم مودی کے ذریعے لائی گئی الیکٹورل بونڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دے کر اسے رَد کردیا۔ اس خبر نے نہ صرف ہمارا بلکہ پورے ملک کا یہاں تک کہ پوری دنیا کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا کیوں کہ سپریم کورٹ نے سرکار کے کسی چھوٹے موٹے قدم کو غیر آئینی قرار نہیں دیا بلکہ الیکٹورل بونڈ کورد کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ یہ وہی بونڈس ہیں جنہیں مودی حکومت نے الیکشن کے پورے عمل میں شفافیت لانے کے لئےناگزیر قرار دیا تھا اور یہ دلیل دی تھی کہ اس کی مددسے انتخابات میں کالے دھن کے استعمال پر روک لگائی جاسکے گی۔ ساتھ ہی اس نے سپریم کورٹ میں اتنے زور دار طریقے سے اس کا دفاع کیا جیسے اس کے بغیر منصفانہ الیکشن ہو ہی نہیں سکیں گے مگر سپریم کورٹ نے ایک بھی دلیل کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور اس اسکیم کو ہی رَد کردیا۔ ویسے ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ مودی حکومت کی اخلاقی شکست ہے اور اسے اس ہار کو قبول کرنا چاہئے۔ ویسے اخلاقی شکست پربیرونی ممالک کی حکومتیں گر جاتی ہیں یا ان کے سربراہ مستعفی ہوجاتے ہیں لیکن ہم اپنے یہاں کے لئے ایسی کوئی حسرت نہیں پال رہے ہیں۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ۲۰۱۸ء میں لائی گئی اس اسکیم نے ہندوستانی سیاست اور جمہوریت کو بنیادی طور پر بدل دیا ہے۔ اس سے نہ صرف الیکشن کمیشن کے اختیارات اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی اس کی صلاحیت کو نقصان پہنچا بلکہ اس نے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی نگرانی کے اس کے اختیارات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے کے طریقوں کے برعکس کمیشن مکمل طور پر اندھیرے میں تھا کہ کون کس سیاسی جماعت کو کتنی رقم دے رہا ہے؟ چونکہ پیسے کے آنے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی ا ور ان کی ویب سائٹ پر ایسی معلومات بھی نہیں تھی کہ کتنا پیسہ جا رہا ہے؟ اس اسکیم کے ذریعے کیسے فائدہ اٹھایا گیا؟ اس کی ایک مثال ہم پیش کرتے ہیں کہ نومبر۲۰۲۲ءمیں گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات سے پہلے مرکزی حکومت نے یکطرفہ طور پر بونڈس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو الیکشن کمیشن نے اس پر اعتراض کیا تھاکہ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے باوجود کمیشن کی اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا گیا جبکہ اس دوران الیکشن کمیشن ہی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ اس ایک مثال سے واضح ہوتا ہے کہ الیکٹورل بونڈس مودی سرکار کے لئے کتنے ضروری تھے بلکہ وہ اس کی شہ رگ تھے جسے سپریم کورٹ نے کاٹ دیا ہے۔
۲۰۱۸ء سے قبل بھی سیاسی پارٹیوں کی کارپوریٹ فنڈنگ ہر سال سیکڑوں کروڑ یا اس سے زیادہ ہوتی تھی۔ کووڈ وبا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سال تک بونڈس کی فروخت میں زبردست کمی کے باوجود گزشتہ پانچ سال میں کمپنیوں نے سیاسی جماعتوں کے تقریباً۱۲؍ ہزار کروڑ روپےکے انتخابی بونڈس خریدے اور مالی اعانت کی لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا ۹۰؍ فیصد حصہ صرف بی جے پی کے کھاتے میں گیا۔ ایسے میں سوال اٹھنا فطری ہےکہ صرف بی جے پی ہی اتنے بڑے پیمانے پر بونڈ کیسے حاصل کررہی تھی۔ اس اسکیم کو نافذ کرنے کیلئے آر بی آئی ایکٹ، انکم ٹیکس ایکٹ، کمپنیز ایکٹ نیز عوامی نمائندگی ایکٹ اور فارین کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ(ایف سی آر اے) میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ ایف سی آر اےمیں ترمیم کی وجہ سےغیر ملکی کمپنیوں کے لئے حکومتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سےچھپ کر یا گمنام رہتے ہوئے ملک کی سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کی اجازت مل گئی تھی جو کسی بھی ملک کے سیاسی استحکام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے اس نکتے پر سب سے زیادہ غور کیا کیوں کہ اگر کوئی بیرونی طاقت ہندوستان کی جمہوریت کو کمزور کرنا چاہے تووہ بہت آسانی سے الیکٹورل بونڈ میں پیسے لگاکرکسی ایک پارٹی کو مضبوط بناسکتی ہے اور اپنی مرضی کی حکومت بھی بنواسکتی ہے۔ بی جے پی جو دیش بھکتی اور ملک کو سب سے پہلے ترجیح دینے کے دعوے کرتے نہیں تھکتی کیا اسے یہ نکتہ، نظر نہیں آیا۔ ہر چند کہ یہ دور کی کوڑی ہے لیکن یہ ممکنات میں شامل ہے بلکہ اسے قریب ترین ممکنات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نتیش کمار نے اپنی بے اعتباری کا اعتبار اس بار بھی قائم رکھا
کمپنیز ایکٹ میں ترامیم نے اس پابندی کو ہٹا دیا تھا کہ سیاسی عطیات پچھلے تین مالی سال میں کمپنی کے اوسط خالص منافع کے ۷ء۵؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نئی کمپنیاں بھی بونڈخرید نے لگیں اور خسارے میں چلنے والی کمپنیاں بھی سیاسی عطیات دینے کی اہل ہو گئیں۔ اس میں سب سے زیادہ فائدہ شیل کمپنیوں کو ہونے کا دعویٰ کیا گیا جو ٹیکس چوری کرنے کے بعد اپنے کالے دھن کو سفید بنانے کیلئے ایسا ہی کوئی راستہ تلاش کر رہی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ایسے میں کتنی شیل کمپنیوں نے سیاسی پارٹیوں کو پیسے دیئے لیکن یہ بات بالکل مضحکہ خیز ہے کہ ۲؍ ہزار روپے سے زیادہ کے گمنام نقد عطیات تو ممنوع ہیں لیکن ایک کروڑ روپے کے بے نامی عطیات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی !
اس اسکیم کے خلاف مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کرنے والی تنظیم اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے ایک ویب نار میں سی پی ایم لیڈر ڈاکٹر فواد حلیم نے بالکل درست کہا تھا کہ انتخابی بونڈس نے کمپنیوں کیلئے سیاسی جماعتوں سے براہ راست اور زیادہ ڈھٹائی سے رابطہ کرنا آسان بنا دیا ہے۔
قانون نے ان کی گمنامی اور استثنیٰ کی ضمانت دی ہے اور انہیں اپوزیشن کو پیسے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ اسکیم حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائی گئی ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد فی الحال مودی حکومت خاموش ہے۔ بی جے پی کی جانب سے کچھ بیانات آئے ہیں لیکن اس میں غلطی تسلیم کرنے کے بجائے تاویلیں پیش کی گئیں کہ یہ اسکیم شفاف و منصفانہ الیکشن کے لئے بہت ضروری تھی۔ اب الیکشن میں کالے دھن کا استعمال بڑھ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں ہمیں اس کیس کو لڑنے والے مشہور وکیل کپل سبل کا بیان کافی معنی خیز معلوم ہوا کہ یہ اسکیم بھارت سرکار کی جانب سے اب تک کا سب سےبڑا گھوٹالا ہے جس کی پرتیں اب دھیرے دھیرے کھلیں گی اور بہت کچھ سامنے آئے گا۔
الیکٹورل بونڈس سے متعلق کچھ اہم باتیں
تنازع کیا ہے؟
الیکٹورل بونڈس کو۲۰۱۷ء ہی میں چیلنج کیا گیا تھا، لیکن اس پر سماعت دو سال بعد جاکر شروع ہوئی۔ ۱۲؍ اپریل۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ انتخابی بانڈز سے متعلق تمام معلومات۳۰؍ مئی۲۰۱۹ء تک ایک لفافے میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائیں۔ یہ اور بات ہے کہ عدالت نے اس اسکیم کو روکا نہیں، اسلئے بونڈس کی فروخت جاری رہی۔
دسمبر۲۰۱۹ء میں درخواست گزار اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے اسکیم کو روکنے کیلئے ایک درخواست دائر کی۔ اس میں میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کس طرح انتخابی بونڈس اسکیم پر الیکشن کمیشن اور ریزرو بینک کے خدشات کو مرکزی حکومت نے نظر اندازکیا ہے۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی سربراہی والی ۵؍ ججوں کی بنچ نے تین دن کی سماعت کے بعد۲؍ نومبر۲۰۲۳ء کو اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ جسٹس چندر چڈ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ میں سماعت ہوئی۔ اس حوالے سے چار درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواست گزاروں میں اے ڈی آر، کانگریس لیڈر جیا ٹھاکر اور سی پی ایم شامل ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل پیش ہوئے تھے۔
فیصلہ محفوظ رکھنے کے صرف چار دن بعد، ۶؍ نومبر کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اپنی۲۹؍ شاخوں کے ذریعے انتخابی بانڈ جاری کیا۔ اس طرح ۶؍ نومبر سے۲۰؍ نومبر تک محض ۱۵؍ دنوں میں ایک ہزارکروڑ روپے کے انتخابی عطیات دیئے گئے۔
غیر آئینی قرار دینے کے اہم نکات
یہ لوگوں کے حق معلومات کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بونڈ کے ذریعہ کسی سیاسی جماعت کی مدد کی جا رہی ہے یا پھر اس کے بدلے کچھ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔
کالے دھن پر کریک ڈاؤن کرنے کیلئے سیاسی عطیات کو خفیہ رکھنے کی منطق کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔