لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی جمہوریت کیلئے امید کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ سیاسی پارٹیوں نے نہیں بلکہ عوام نے آئینی جمہوریت کی بنیادی اقدار کے سامنے جو دیوار کھڑی ہوئی تھی، اس میں ایک کھڑکی کھول دی تھی۔
EPAPER
Updated: December 25, 2024, 3:58 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai
لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی جمہوریت کیلئے امید کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ سیاسی پارٹیوں نے نہیں بلکہ عوام نے آئینی جمہوریت کی بنیادی اقدار کے سامنے جو دیوار کھڑی ہوئی تھی، اس میں ایک کھڑکی کھول دی تھی۔
لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی جمہوریت کیلئے امید کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ سیاسی پارٹیوں نے نہیں بلکہ عوام نے آئینی جمہوریت کی بنیادی اقدار کے سامنے جو دیوار کھڑی ہوئی تھی، اس میں ایک کھڑکی کھول دی تھی۔ ایمرجنسی کے بعد ہونے والے ۱۹۷۷ء کے انتخابات کی طرح اس ملک کے عوام نے ۲۰۲۴ءمیں دیوار میں ایک کھڑکی کھول کر اپوزیشن جماعتوں کو موقع دیا تھا کہ وہ اسے دروازے میں بدل دیں اور اس راستے سے ملک کو بچانے کی جدوجہد کریں، لیکن یہ ہندوستانی جمہوریت کی بدقسمتی ہے کہ پارٹیاں اکثر بڑی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ چھ ماہ کے اندر تین اسمبلی انتخابات کے بعد یہ کھڑکی اب سکڑ کر ایک روشن دان ہو گئی ہے۔
اب ذمہ داری ایک بار پھر عوام اور عوامی تنظیموں پر آن پڑی ہے کہ وہ آئین کی روح کو بچانے کی جدوجہد کو تیز کریں۔ اس کھڑکی سے دروازہ کھولنے کیلئے ضروری تھا کہ بی جے پی کو لگنے والے اس دھچکے کو لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کیلئے پے در پے شکستوں میں تبدیل کیا جائے۔ لوک سبھا کے بعد ہوئے تین انتخابات میں یہ کام ناممکن نہیں تھا۔ مہاراشٹرا میں انڈیا اتحاد یعنی ایم وی اے نے ۴۸؍میں سے۳۰؍ سیٹیں جیتی تھیں اور اسمبلی انتخابات بھی جیتے ہوئےسمجھے جارہے تھے۔ ہریانہ میں لوک سبھا کی ۵-۵؍ سیٹیں تقسیم ہوئی تھیں البتہ اسمبلی کے تناظر میں خیال تھا کہ کانگریس ہی جیتے گی۔ جھارکھنڈ میں کچھ مشکل تھا، کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی حالت مضبو ط تھی، پھر بھی لگتا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو جے ایم ایم اور اس کے اتحادیوں کی جیت ممکن ہے، لیکن سچائی اس کے برعکس رہی، جھارکھنڈ میں جہاں جیت مشکل تھی، انڈیا اتحاد نے فتح حاصل کی۔ ہریانہ میں جہاں کانگریس کیلئے امید تھی، وہاں ہار گئی اور مہاراشٹر میں جہاں جیت کا زیادہ امکان تھا، انڈیا اتحاد کا صفایا ہو گیا۔ بے شک یہ انتخابی نتیجہ تنازع سے مبرا نہیں ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں اپوزیشن نے انتخابی نتائج پر انگلیاں اٹھائی ہیں اور حکمراں جماعت پردھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ پچھلے ۳۵؍ برسوں سے الیکشن کی جیت اور ہار کو دیکھ کر مجھے اس بار بھی ہریانہ اور مہاراشٹر کی دال میں کچھ کالانظر آ رہا ہے۔ پچھلے سال مدھیہ پردیش کے حیران کن انتخابی نتائج کو فی الحال ایک طرف رکھ کران انتخابی نتائج کےاثر کو سمجھنا ضروری ہے۔
ایک بات طے ہے کہ ان نتائج کے بعد مودی حکومت کا رویہ بدل جائے گا۔ اس کا اشارہ مہاراشٹر کی جیت کے بعد اور پارلیمنٹ کے اجلاس کے آغاز میں وزیر اعظم کے بیان سے ملتا ہے۔ اب بھی بی جے پی کیلئے آئین کو تبدیل کرنا یا `ون نیشن ون الیکشن، کے منصوبے کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا لیکن اس کے علاوہ مرکزی حکومت اپنے باقی تمام ایجنڈوں پر آگے بڑھے گی۔ وقف بورڈ کا قانون ہویایکساں سول کوڈ کی تجویز یا مردم شماری کے ذریعے حد بندی، ان تمام ایجنڈوں پر بی جے پی تیزی سے آگے بڑھے گی۔ اپوزیشن کی کسی بھی آواز کو دبانے کی کوششیں بھی تیز کی جائیں گی، خواہ وہ سوشل میڈیا اور یوٹیوب وغیرہ پر گھیرا تنگ کرنے کا معاملہ ہو یا عوامی تحریکوں اور عوامی تنظیموں کو بند کرنے کے قوانین، یا دوسری طرف سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائی، چند صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیوں اور فیصلوں میں اب سیبی کی چیئر پرسن اوراڈانی کے حوالے سے پچھلے مہینوں میں اٹھنے والے سوالات سے حکومت گھرتی ہوئی نظر آئی، لیکن اب حکومت ان کو درکنار کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھے گی۔ اگلے ایک سال تک حکمراں جماعت اپنی شکست کے فیصلے کیلئے مقبولیت کی دہائی دے گی۔ این ڈی اے میں بی جے پی کا وزن بڑھے گا اور بی جے پی میں پھر مودی جی کا۔