Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ہندوتوا کی سیاست: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی

Updated: March 30, 2025, 1:31 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ہندوتوا کی آئیڈیالوجی اتنی نازک اور کمزور ہے کہ اس کی جتنی زیادہ تشہیر ہوتی ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کی کمزوریاں واضح ہونے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہونے لگتا ہے کہ اس کی آئیڈیالوجی پر جتنا زیادہ عمل کیا جائے گا اتنا زیادہ نقصان بطور ملک اور بطور شہری ہم اپنے آپ کو پہنچائیں گے۔

A lot has changed in India since the beginning of the `Modi era` in 2014. Photo: INN.
ہندوستان میں ۲۰۱۴ء یعنی ’مودی یُگ‘ کے آغا ز کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستان میں گزشتہ ۱۰؍ برس میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہواہے اس سے عالمی برادری میں ’گوتم بدھ، گاندھی اور نہرو‘کے ہندوستان کی جو شبیہ بنی تھی اور جو آج بھی ہندوستان کی شناخت ہے، اسے گہرا دھچکا لگا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی دیگر ملکوں میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی کمیٹی نے ہندوستان کے حالات اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس پرمسلسل نگرانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جمہوریت، مذہبی اور شخصی آزادی، میڈیا کی آزادی وغیرہ میں ہندوستان کی عالمی رینکنگ نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں تک کہ ’جینوسائیڈ واچ‘ نام کی تنظیم نے ۴؍ سے ۵؍ سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا کہ دنیا میں نسل کشی کے جو ۱۰؍ مراحل ہوتے ہیں ہندوستان ان میں سے ۸؍ مراحل پار کر چکا ہےمگر ان سب سے بے فکر بی جے پی لیڈران سیاسی فائدہ کے لئے آئین ہند ہی نہیں بلکہ خود ہندو مذہب کی شاندار روایات کو پامال کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس جس مذہب کی پیروی کروا رہا ہے، وہ ہندو مذہب ہے ہی نہیں۔ اسی فرق کو راہل گاندھی بار بار ظاہر بھی کر رہے ہیں کہ سنگھ پریوار کے ہندوتوا سے اصل ہندو مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کٹر فرقہ پرست عناصر رنگوں کے تہوار ہولی پر مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھک کر بھلے ہی خوشیاں منا لیں، مساجد اور مسلمانوں کے خلاف بھلے ہی وہ طومار باندھ لیں، وقف بل کے ذریعے بھلے ہی وہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں، وہ بھلے ہی یہ سوچ کر خوش ہوں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اور ذہنی اذیت پہنچا دی، ان کو ہندوؤں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کر دیا، اپنے پیروں پر ان کی ناک رگڑوا دی لیکن دراصل انہوں نے اصل ہندو مذہب اور ہندوستان میں کثرت میں وحدت کی شاندار روایت کو سرِ بازار رسوا کیا ہے۔ تاریخ ان کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اپنی گردنوں میں ذلت کا طوق ڈال لیا ہے۔ ہندوستان میں ۲۰۱۴ء یعنی ’مودی یُگ‘ کے آغا ز کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا ہے، جس کی سب سے بڑی مار مسلمانوں پر پڑ رہی ہے۔ در اصل مودی کی شناخت ہی گجرات کے مسلم کش فسادات اور گجرات میں ان کی حکومت کی کھلی مسلم دشمنی سے ہے۔ مودی کی دیکھا دیکھی ہر سیاسی لیڈر کو لگنے لگا کہ آج ہندوستانی سیاست میں آگے بڑھنے کا سب سے کامیاب اور تیر بہ ہدف نسخہ مسلم دشمنی ہے اور پھر جیسے مقابلہ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ 
یہاں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوتوا کی آئیڈیالوجی اتنی نازک اور کمزور ہے کہ اس کی جتنی زیادہ تشہیر ہوتی ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کی کمزوریاں واضح ہونے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہونے لگتا ہے کہ اس کی آئیڈیالوجی پر جتنا زیادہ عمل کیا جائے گا اتنا زیادہ نقصان بطور ملک اور بطور شہری ہم اپنے آپ کو پہنچائیں گے۔ اس کے باوجود اب تک اس کے نقصانات کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوتوا وادیوں نےگئوو نش کی ہتیا کے نام پر پورے ملک میں ایک طرح سے بڑے جانوروں کے ذبیحے پر پابندی لگوادی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ ممکن ہے کہ ان ہندوتوا وادیوں کو نظر آتا ہو لیکن ہمیں تو سراسر نقصان ہی نظر آتا ہے۔ ذبیحے پر پابندی لگنے کی وجہ سے جانوروں کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس سے کسانوں کو جو فائدہ مل جاتا تھا وہ کم ہو گیا۔ ساتھ ہی دیہی معیشت کا ایک اہم جزو جانوروں کے بازار تھے، اب ان بازاروں میں کاروبار نہ کے برابر ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دیہی معیشت کا کتنا برا حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہاں لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئےپیسہ نہیں ہے۔ 
 کچھ یہی حال لَو جہاد جیسے قوانین کا ہے جو محض مفروضہ کی بنیاد پر لائے گئے اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی وجہ سے ہندوتوا وادی خود اپنی ہی پول کھولنے میں مصروف ہیں۔ وہ اس قانون کے ذریعے اپنی مجموعی بے بسی کا اعتراف کرلیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی حرکتوں کی وجہ سے ان جوڑوں پر بھی روشنی پڑجاتی ہے جو اس طرح کی شادیاں کرنے کے بعد بہت خوش ہیں۔ یہ مہم ہندوتوا کے لئے معکوس اثرات کا سبب بن رہی ہے۔ شاید اب تک ان کے ارباب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے لیکن جب تک سمجھ میں آئے گی یہ آئیڈیالوجی اور اس کی سیاست ختم ہو چکی ہو گی۔ کچھ یہی حال مغل بادشاہوں کے خلاف مہم، مساجد کے خلاف مہم، شعائر اسلام کے خلاف مہم کا بھی ہو گا۔ جب سے اورنگ زیب اور دیگر مغل بادشاہوں کے خلاف مہم چھیڑی گئی تب سے ان کی مخالفت میں کم اور موافقت میں زیادہ دلائل سامنے آرہے ہیں۔ کل تک جن لوگوں نے مغلوں کی تاریخ کا نہایت سرسری مطالعہ کیا تھا آج وہ بھی اس کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ مساجد کے تعلق سے جتنی مذموم مہم چلائی جارہی ہے اتنا ہی برادران وطن کی جانب سے مساجد کے تئیں محبت اور ان کی حفاظت کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی اسلام کی تعلیمات پر سوشل میڈیا پر ان دنوں جتنی زیادہ گفتگو ہو رہی ہے اتنی شاید کبھی نہیں ہوئی ہو گی۔ اسلامی پیغامات کو عام کرنے کا سلسلہ سوشل میڈیا کی وجہ سے جتنا منظم ہو گیا ہے وہ اگر ہندوتوا وادی دیکھ لیں یا سمجھ جائیں تو ان کے تلوئوں سے لگے اور سر پہ جاکر بجھے۔ ہمارے خیال میں شر میں خیر پوشیدہ ہے کا قول غالباً اسی موقع کے لئے کہا گیا ہو گا کیوں کہ ہندوتوا وادی جتنی منفی تشہیر کررہے ہیں اتنا ہی زیادہ عام ہندوئوں کا تجسس بڑھ رہاہے اور وہ شعائر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوتوا بہت کمزور اور اندر سے انتہائی کھوکھلا نظریہ ہے جس کی بنیاد صرف نفرت ہے اور جن نظریات کی بنیاد نفرت پر رکھی جاتی ہے وہ جلد ہی فنا ہو جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK