بنارس ہندو یونیورسٹی میں آئی آئی ٹی کی طالبہ کی آبروریزی نے پھر ثابت کردیا کہ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بھی ’جملہ‘ ہی ہے۔
EPAPER
Updated: January 07, 2024, 5:04 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
بنارس ہندو یونیورسٹی میں آئی آئی ٹی کی طالبہ کی آبروریزی نے پھر ثابت کردیا کہ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بھی ’جملہ‘ ہی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد وقتاً فوقتاً عوام کو خوشنما نعروں کی جو سوغاتیں دی ہیں ان میں’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بھی شامل ہےمگر دیگر نعروں کی طرح اس نعرے کے بھی محض ’نعرہ‘ یا پھر بی جےپی کی ہی زبان میں کہیں تو محض ’جملہ‘ہونے کی حقیقت ایک سے زائد بار سامنے آچکی ہے۔ وزیراعظم کے اس نعرے سے شاید خود اُن کی پارٹی کے کارکن اور لیڈر بھی متفق نہیں ہیں۔ یوپی سے بی جےپی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر اور مرکز کے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ چنمیانند کے معاملات کے منظر عام پر آنے کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں یوپی میں ہی بی جےپی کے ایم ایل اے رام دُلار گوڑ کو عدالت نے کم سن بچی کی آبروریزی کے کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے ۲۵؍ سال قید اور ۱۰؍ لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ سینگر اور چنمیانند کے معاملے میں حکومتوں کا رویہ کیسا تھا، سب جانتے ہیں ۔ہاتھرس میں ایک دلت دوشیزہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس مسئلے کو جس طرح ’’حل‘‘ کیاگیا وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکاہے۔ رُکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ جنسی ہراسانی کے خاتون پہلوانوں کے سنسنی خیز الزامات کے بعد بھی کشی فیڈریشن کے نہ صرف صدر بنے رہے بلکہ مودی سرکار کے طرز عمل نے یہ واضح پیغام دیا کہ انہیں پشت پناہی حاصل ہے۔
گزشتہ ۱۰؍ سال میں بی جےپی سے وابستہ افراد پر عائد ہونے والے جنسی ہراسانی اور آبروریزی کے الزامات کی طویل فہرست ہے جس میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں آئی آئی ٹی کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کے معاملے کا اضافہ ہوگیاہے۔ افسوس کہ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دینے والے وزیراعظم نریندر مودی کا اس ضمن میں کوئی بیان آیا، نہ وزیر برائے بہبود خواتین اسمرتی ایرانی نے لب کشائی کی۔ یہ معاملہ وزیراعظم کی توجہ کا متقاضی اس لئے بھی تھا کہ ان کے اپنے پارلیمانی حلقے کا ہے او ر ملزمین کا تعلق بی جے پی کے آئی ٹی سیل سے تھا۔ اسمرتی ایرانی سے توقع اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف وزیر برائے بہبود خواتین ہیں بلکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے خواتین کے معاملے میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو چوڑیاں بھیجیں اور بطور وزیر پارلیمنٹ میں راہل گاندھی کی ’فلائنگ کس‘ کو خواتین کے وقار کا معاملہ بنا کر پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا کر چکی ہیں ۔ اس معاملے میں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کٹہرے میں ہیں جن کے اقتدار میں یوپی کے ’’جرائم سے پاک‘‘ہونے کے دعوے تو خوب کئے جاتے ہیں مگر ہاتھرس سے لے کر بنارس ہندو یونیورسٹی(بی ایچ یو) کی اس واردات تک لیپاپوتی کی کوششیں تو نظر آتی ہیں مگر خواتین محفوظ کہیں نظر نہیں آتیں۔
بی ایچ یو کے معاملے میں جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ نہ صرف ریاستی حکومت پربلکہ بی جےپی اوراس کی قیادت پر بھی سوال کھڑے کرتی ہیں ۔ گرفتار شدگان کی شناخت کنال پانڈے، آنند عرف ابھیشیک چوہان اور سکشم پٹیل کے طور پر ہوئی ہے۔ کنال پانڈے بنارس میں بی جےپی آئی ٹی سیل کا کنوینر تھا، ابھیشیک چوہان ورکنگ کمیٹی کا رکن اور سکشم پٹیل معاون کنوینر کے عہدہ پر فائز تھا۔ اول تو تعلیمی ادارہ میں بھی طالبات کے محفوظ نہ ہونے کا معاملہ ہی اتنا بڑا ہے کہ اسے قو می مباحثے کا حصہ بن جانا چاہئے تھا اور جوابدہی طے ہونی چاہئے تھی پھر اگر ملزمین کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے تو معاملہ اور بھی اہم ہوجاتاہے مگر اس ضمن میں یونیورسٹی کے طالبات نے اگر غیر معمولی احتجاج نہ کیا ہوتا تو شاید ۲؍ ماہ بعد بھی گرفتاری عمل میں نہ آتی۔ یہ سوال اپنے آپ میں اہم ہے کہ ملزمین کی شناخت جب واردات کے ۵؍ یا ۸؍دن بعد ہی ہوگئی تھی تو ان کی گرفتاری میں۲؍ ماہ کیوں لگ گئے؟ شناخت ہوجانے کے بعد بھی انہیں مدھیہ پردیش جانے اور بی جےپی کی انتخابی مہم میں شرکت کا موقع کیوں کردیاگیا؟ کیا یہ بی جےپی کی اعلیٰ قیادت کی مرضی سے ہوا؟ کیاانہیں اُس وقت اس لئے گرفتار نہیں کیا گیا کہ ۴؍ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کی مہم چل رہی تھی اور بی جےپی کے اہم عہدوں پر فائز افراد کی آبروریزی کے کیس میں گرفتاری انتخابات کو متاثر کرسکتی تھی؟
جو کچھ ہورہاہے اس کیلئے جتنا برسراقتدار طبقہ ذمہ دار ہے اتنے ہی عوام بھی ذمہ دار ہیں۔ جرائم کو جب سیاست سے جوڑ دیا جاتا ہے اور عوام اسے قبولیت بخش دیتے ہیں تو حکمراں یوں ہی جری ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ گجرات فساد کے دوران بلقیس بانو آبروریزی کیس کے مجرمین کو عام معافی اور ان کی رہائی کو قبولیت بخشنے ، سینگر اور چنمیانند جیسے معاملات میں خاموش رہنے نیز برج بھوشن شرن سنگھ کے ’’دبدبہ‘‘کو کلین چٹ دینے والے سماج میں ایسے عناصر میں قانون کا خوف نہیں بلکہ اقتدار میں ہونے کا زعم پیدا ہوتا ہے جو ایسی وارداتوں کا باعث بنتا ہے۔