• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جمود ٹوٹا،۱۰؍ سال بعد راہل گاندھی کی شکل میں ملک کو ۱۲؍واں اپوزیشن لیڈر ملا

Updated: June 30, 2024, 5:37 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

جمود ٹوٹا، ۱۰؍ سال بعد راہل گاندھی کی شکل میں ملک کو ۱۲؍واں اپوزیشن لیڈر ملا، لوک سبھا میں عوام کو اپنی آواز سنائی دینے کی توقع۔

Rahul Gandhi. Photo: INN
راہل گاندھی ۔ تصویر : آئی این این

۱۸؍ویں لوک سبھاکا آغاز ہوچکا ہے۔ نومنتخب اراکین پارلیمان کی حلف برداری، اسپیکر کاانتخاب اور صدر جمہوریہ کے خطاب کے ساتھ ہی وزیراعظم مودی اراکین پارلیمان سے اپنی کابینہ کا تعارف کراچکے ہیں۔ اب یکم سے تین جولائی تک صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک چلے گی۔ اسی دوران ایک اور اہم کام ہوا ہے۔ وہ ہے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی صورت میں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کا انتخاب۔ یہ کام ۱۰؍ سال بعد ہوا ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں کسی بھی اپوزیشن پارٹی کے اراکین کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ اسے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مل سکے۔ ضابطے کے مطابق کسی بھی پارٹی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پانے کیلئے اراکین پارلیمان کی مجموعی تعداد کا دسواں حصہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ملک میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کو ۲۰۱۴ء میں ۴۴؍ اور ۲۰۱۹ء میں ۵۲؍ نشستیں ہی مل سکی تھیں لیکن اس بار اسے ۹۹؍ سیٹیں ملی ہیں جس کی وجہ سے اسے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ اس طرح راہل گاندھی ملک کے ۱۲؍ویں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اس مرتبہ لوک سبھا میں اپوزیشن تعداد کے ساتھ ہی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی مالا مال ہے

جہاں تک حزب اختلاف کے لیڈر کی تاریخ ہے، پہلی مرتبہ اس عہدے کا تعارف ۱۹۶۹ء میں ہوا۔ اس کے بعد درمیان میں کئی ایسے مواقع آئے جب ملک میں کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں رہا۔ ملک میں پہلا جنرل الیکشن ۱۹۵۲ء میں ہوا تھا جس میں انڈین نیشنل کانگریس نے۳۶۴؍ سیٹیں حاصل کر کے پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں حکومت بنائی تھی۔ تب تک ملک میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ 
۱۔ رام سبھاگ سنگھ 


  ملک کے پہلے اپوزیشن لیڈر رام سبھاگ سنگھ تھے جو اندرا گاندھی کی حکومت کے دوران ۱۹۶۹ء میں منتخب ہوئے تھے۔ بہار کے بکسر لوک سبھا سے کامیاب ہونے والے رام سبھاگ سنگھ کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس (او) سے تھا۔ ۱۷؍ دسمبر۱۹۶۹ء سے۲۷؍ دسمبر۱۹۷۰ء تک یعنی ایک سال ۱۰؍ دن تک انہوں نے لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد کا کردار ادا کیا تھا۔ 
۲۔ یشونت راؤ چوان


 اس کے بعد مہاراشٹر کے ستارہ لوک سبھا سے منتخب ہونے والے انڈین نیشنل کانگریس کے یشونت راؤ چوان نے یکم جولائی۱۹۷۷ء سے۱۱؍ اپریل۱۹۷۸ء تک اور۱۰؍ جولائی۱۹۷۹ء سے۲۸؍ جولائی۱۹۷۹ء تک اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کیا تھا۔ اُس وقت مرارجی دیسائی وزیراعظم تھے جن کا تعلق جنتا پارٹی سے تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات میں کانگریس کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ 
۳۔ سی ایم اسٹیفن


 اسی دوران کچھ مدت کیلئے سی ایم اسٹیفن بھی لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھی انڈین نیشنل کانگریس سے تھا جو کیرالا کے ’ایڈوکی‘ لوک سبھا حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔ یشونت راؤ چوان کی دونوں میقات کے درمیان۱۲؍ اپریل۱۹۷۸ء سے۹؍ جولائی ۱۹۷۹ء تک سی ایم اسٹیفن حزب اختلاف کے لیڈر رہے۔ 
۴۔ جگجیون رام


 بہار کے سہسرام لوک سبھا حلقے سے کامیاب ہونے والے جگجیون رام نے۲۹؍ جولائی۱۹۷۹ء سے۲۲؍ اگست ۱۹۷۹ء تک اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنتا پارٹی ۲؍ حصوں میں منقسم ہوگئی تھی اور ملک میں جنتاپارٹی (سیکولر) کے لیڈر چودھری چرن سنگھ کی قیادت میں حکومت تشکیل پائی تھی اور جنتاپارٹی کے جگجیون رام اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ 
۵۔ راجیو گاندھی


 امیٹھی سے منتخب ہونے والے انڈین نیشنل کانگریس کے راجیو گاندھی نے ۱۸؍ دسمبر۱۹۸۹ء سے۲۳؍ دسمبر ۱۹۹۰ء تک یعنی ایک سال۵؍ دن تک اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ اُس وقت کانگریس سے بغاوت کرکے جنتادل کے ٹکٹ پر کامیاب ہونےوالے وی پی سنگھ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ اپوزیشن لیڈر بننے سے قبل راجیو گاندھی ملک کے وزیراعظم تھے۔ اس طرح وہ ملک کے ایسے پہلے اپوزیشن لیڈر بنے جو وزیراعظم رہ چکےتھے۔ 
۶۔ لال کرشن اڈوانی


 بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی ملک کے واحد ایسے لیڈر ہیں جو تین مرتبہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۰ء سے۱۳؍ مارچ ۱۹۹۱ء تک حزب اختلاف کے لیڈر رہے۔ اُس وقت وہ نئی دہلی سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد ۲۱؍جون ۱۹۹۱ء سے ۲۶؍ جولائی ۱۹۹۳ء تک وہ اپوزیشن لیڈر رہے۔ پہلی مرتبہ چندرشیکھر اور دوسری مرتبہ پی وی نرسمہا راؤ وزیراعظم تھے۔ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ایل کے اڈوانی تیسری بار ۲۱؍ مئی۲۰۰۴ء سے۲۰؍دسمبر۲۰۰۹ء تک ۵؍ سال ۲۱۳؍ دن اپوزیشن لیڈر رہے۔ 
۷۔ اٹل بہاری واجپئی


  بی جے پی کے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے۲۱؍ جولائی۱۹۹۳ء سے۱۰؍ مئی۱۹۹۶ء تک اپوزیشن لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ دوسری مرتبہ وہ یکم جون۱۹۹۶ء سے ۴؍ دسمبر ۱۹۹۷ء تک اپوزیشن لیڈر رہے۔ دونوں ہی مرتبہ وہ لکھنؤ لوک سبھا حلقے کے نمائندہ رہے۔ پہلی بار نرسمہا راؤ اور دوسری بار دیوے گوڑا وزیراعظم تھے۔ 
۸۔ نرسمہا راؤ


 اٹل بہاری واجپئی کے دونوں میقات کے درمیان اُدیشہ کے برہم پور لوک سبھا حلقے سے کامیاب انڈین نیشنل کانگریس کے رکن پارلیمان نرسمہا راؤ حزب اختلاف کے لیڈر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے۱۶؍ مئی۱۹۹۶ء سے۳۱؍ مئی۱۹۹۶ء تک یعنی محض ۱۵؍ دنوں تک کیلئے اپوزیشن لیڈر کاکردار ادا کیا تھا۔ یہ کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی اپنے عہدے پر رہنے کی سب سے کم مدت ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اٹل بہاری واجپئی کی وزیراعظم کے طور پر حلف برداری ہوئی تھی لیکن وہ ایوان میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس طرح محض ۱۵؍ دنوں میں ان کی حکومت گر گئی تھی اور دیوے گوڑا وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ 
۹۔ شرد پوار 


 اس کے بعد مہاراشٹر کےبارامتی لوک سبھا حلقے سے منتخب ہونے والے انڈین نیشنل کانگریس کے شرد پوار۱۹؍ مارچ۱۹۹۸ء سے۲۶؍ اپریل ۱۹۹۹ء تک۱۲؍ویں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران اٹل بہاری واجپئی وزیراعظم تھے۔ 
۱۰۔ سونیا گاندھی


 ملک کے دسویں اپوزیشن لیڈر کے طور پر کانگریس لیڈر سونیا گاندھی کاانتخاب عمل میں آیا تھا۔ اُس وقت وہ امیٹھی کی رکن پارلیمان تھیں۔ انہوں نے۳۱؍ اکتوبر۱۹۹۹ءسے۶؍ فروری۲۰۰۴ء تک اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ اُس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی اور اٹل بہاری واجپئی وزیراعظم تھے۔ 
۱۱۔ سشما سوراج


 مدھیہ پردیش کے وِدیشا لوک سبھا حلقے سے کامیاب ہونے والی بی جے پی کی رکن پارلیمان سشما سوراج نے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ۲۱؍ دسمبر۲۰۰۹ء سے۱۹؍ مئی۲۰۱۴ء تک۱۵؍ویں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ ان کے عہدے کی میعاد ۴؍ سال ۱۴۹؍ دن کی تھی۔ 
۱۲۔ راہل گاندھی


 راہل گاندھی ملک کے ۱۲؍ویں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ رائے بریلی لوک سبھاحلقے سے رکن پارلیمان کانگریس لیڈرراہل گاندھی کے عہدے کی مدت ۹؍ جون۲۰۲۴ء سے شروع ہوئی ہے۔ 
جب کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں رہا
خیال رہے کہ اس درمیان ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک، ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۹ء تک اور۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۴ء تک لوک سبھا میں کوئی بھی اپوزیشن لیڈر نہیں رہا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK