پارلیمنٹ کا بنیادی کام مجوزہ قوانین پر غوروخوض کرنا، اراکین کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دینا، ان کے مشوروں کو سنجیدگی سے لینا، قابل عمل مشوروں کی بنیاد پر مسودہ قانون میں ترمیم کرنا اور پھر اکثریتی رائے سے اسے منظور کرنا ہے مگرحالیہ برسوں میں یہ روایت ختم ہوچکی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والے مباحثے اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ وقف بل کی منظوری نے بھی یہ ثابت کردیا۔
پارلیمنٹ میں دنیا کو دکھانے کیلئے بحث و مباحثے تو ہوتے ہیں لیکن اپوزیشن کی کسی تجویز اور کسی مشورے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، پھر ایسی بحث کا کیا مطلب؟تصویر: آئی این این۔
وقف ترمیمی بل بھی پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا۔ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بنتے ہی حکومت نےاس کے نفاذ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ اسے منظور ہونا ہی تھا۔ اس لئے نہیں کہ بی جےپی کے پاس واضح اکثریت تھی بلکہ اس لئے کہ وہ پارٹیاں جوسیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کے ووٹوں کی دعویدار ہیں اور جن کی ذمہ داری ان کے مفادات کے تحفظ کی تھی، انہوں نے آئینی اصولوں ، مساوات کے بنیادی حق، ملک کے سیکولر ڈھانچے اور اقلیتوں کے اعتمادکو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کو ترجیح دی۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلم دوستی کا دم بھرنے اور مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار پانے والی نتیش کمار کی جنتادل متحدہ اور چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی چاہ لیتیں تو یہ بل لوک سبھا میں پاس نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم ان کا طرز عمل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت کی دھاندلیوں کی خاموش تائید سے ہی واضح ہوگیاتھا۔ شاید اس لئے کہ وہ جانتی ہیں کہ الیکشن کے موسم میں مسلم ووٹروں کو بے وقوف بنانا کوئی ایسا مشکل کام نہیں جو کیا نہ جاسکے۔ چونکہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف جدوجہد کی قیادت علماء کررہے ہیں ، اس لئے جے ڈی یو نے عوام کو علماء سے متنفر کرتے ہوئے ابھی سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس کا تعلق مسلمانوں سے براہ راست ہے اور اسے مسلم ووٹوں کیلئے علماء کی ضرورت نہیں۔ اس پس منظر میں بہار کا اسمبلی الیکشن اہمیت کا حامل ہوگا۔ آندھرا میں تیلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو بھی خود کو مسلمانوں کے مسیحا سے کم بنا کر پیش نہیں کرتے۔ وقف بل کے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے سے قبل افطار پارٹی میں ان کی شرکت کےوقت ان کا لباس اور ان کےہاؤ بھاؤ اس بات کا مظہر تھے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ان جیسے لباس میں پہنچ جانا اور چکنی چپڑی باتیں کر لینا کافی ہے۔ مسلم ووٹ لے کر ان کے مفادا ت کا سمجھوتہ کرلینےوالی سیاسی پارٹیوں کی فہرست میں اجیت پوار کی این سی پی، ’’چو َنّی نہیں ہوں جو پلٹ جاؤں ‘‘ کا دعویٰ کرنے والے جینت چودھری کی آر ایل ڈی، جگن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس، چراغ پاسوان کی جن شکتی پارٹی اور کماراسوامی کی جنتادل سیکولر کو بھی شامل کیا جاسکتاہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھیونڈی سے لوک سبھا کے رکن بالیا ماما کی ووٹنگ کے وقت غیر حاضری شرد پوار کی این سی پی کے تعلق سے بھی بدگمانی پیدا کرتی ہے کہ پارٹی نے اتنے اہم بل پر ووٹنگ کے وقت کیا وہپ جاری نہیں کی تھی؟
البتہ اس معاملے جہاں اپوزیشن کا رول قابل تعریف ہے وہیں دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف کے اراکین کے ذریعہ کی جانے والی تقاریر بھی ایسی ہیں کہ ان کی پزیرائی کی جانی چاہئے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان تقایر کا جو مقصد ہوتا ہے کیا وہ حاصل ہو پاتا ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ ہو، طلاق ثلاثہ مخالف قانون ہو، زرعی قوانین ہوں ، آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی ہویا پھر تازہ وقف ترمیمی بل کی منظوری ہو، ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ میں گھنٹوں مباحثے توہوئے، اپوزیشن کےا راکین نے مدلل تقاریر بھی کیں ، زیر بحث قوانین میں ترامیم کی ضرورت کی نشاندہی بھی کی مگر حکومت نے اپنے پیش کردہ مسودہ قانون کو حرف آخر سمجھا اور اکثریت کے بل پر کسی ترمیم کے بغیر انہیں منظور کرا لیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے قانون کا جو مسودہ تیار کیا ہے وہی حرف آخر ہے، اس پر اسے کسی کی ایک نہیں سننی تو پھر گھنٹوں کی بحث اور لمبی لمبی تقریروں کے کیامعنی؟ جمہوریت میں عاملہ، مقننہ اور عدلیہ کی اہمیت کو اوران کی الگ الگ شناخت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن حالیہ دنوں میں یہ علاحدہ شناخت تیزی سے مٹ رہی ہے۔ خاص طور سے مقننہ یعنی پارلیمنٹ اوراسمبلیوں کی حیثیت عاملہ (حکومت) کے ذیلی اداروں جیسی ہوگئی ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا اسمبلی، ان کا مقصد صلا ح و مشورہ کرکے ایسے فیصلے کرنا جو ملک کے عوام کے وسیع ترمفاد میں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ملک کی سب سے بڑی پنچایت بھی کہا جاتاہے۔
اگر حکومت کے فرمائے ہوئے کو ہی حرف آخر ہونا تھا تو پھر جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا اسمبلیاں ، ان کا بنیادی مقصد مجوزہ قوانین پر غورو خوض کرنا، اراکین سے ان کی رائے لینا، اُن آراء پر سنجیدگی سے غور کرنا، جو قابل قبول ہیں ، انہیں تسلیم کرکے مسودہ میں ضروری ترمیم کرنا اور جو قابل قبول نہیں ہیں ، ان پر تشفی بخش جواب دیکر رائے دینے والے رکن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنا اورپھر ترمیم شدہ مسودہ کو ایوان میں پیش کرکے اکثریتی رائے سے اسے منظور کرلینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی سیاسی قدریں اب ایسی نہیں رہ گئیں کہ یہ ممکن ہولیکن صلاح ومشورہ کے ساتھ قانون سازی کی بجائے قوانین کو تھوپنے کی جو روایت حالیہ دنوں میں قائم ہوئی ہے وہ نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ پارلیمنٹ میں ہونےوالے مباحثوں کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان لگادیتی ہے اور اس طرح یہ ایوان کے تقدس کی پامالی کا سبب بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونےوالے مباحثوں کو اہمیت نہ دینا، اس پارلیمنٹ کی توہین ہے جسے ہم ’جمہوریت کا مندر‘کہتے نہیں تھکتے۔ افسوس کہ حکمراں محاذ جس کے پاس اکثریت کی طاقت ہے، اس کا موقف یہ نظر آتاہے کہ تم کو جو کہنا ہےکہہ لو، سننا پڑ رہا ہے کیوں کہ بحث کے بغیر اگر قانون پاس کروائیں گے تو بدنامی ہوگی، البتہ سننے کےبعد عمل کرنا کوئی لازمی تو نہیں ، ہمارے پاس اکثریت موجود ہے ، قانون تو وہی پاس ہوگا جو ہم نے تیار کیا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ اب اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتاہے کہ ایوان میں دروغ گوئی سے کام نہ لیا جائے۔ وقف ترمیمی بل پر مباحثہ کے دوران انوراگ ٹھاکر اور سمبت پاتراسمیت کئی اپوزیشن کے اراکین نے وقف بورڈ کے املاک پر دعویٰ پیش کرنے سے متعلق وہ باتیں کہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ مودی حکومت میں ’جھوٹ ‘ کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتاکیوں اسے غیر پارلیمانی لفظ قرار دے دیا گیاہے، اس لئے اگر کوئی دروغ گوئی کا مظاہرہ کرے تو ایوان میں ’ جھوٹ‘ کہہ کر اس کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ کہنا ہوگا کہ وہ سچ نہیں بول رہے، کیا واقعی ملک کے جمہوری نظام کا مذاق نہیں بنایا جارہا ہے؟