• Thu, 13 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت

Updated: February 13, 2025, 5:41 PM IST | Jamal Rizvi | Mumabi

ایک رپورٹ کے مطابق اِس وقت ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں۵؍کروڑ ۱۸؍لاکھ ۲۳؍ ہزار۴۶۰؍معاملات زیر التوا ہیں

According to the law, bail is a right and jail is an exception, but despite this, Umar Khalid`s bail plea has not been heard for the past four years. Photo: INN
قانون کی رو سے ضمانت حق اور جیل استثنا ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ چار برسوں سے عمر خالد کی ضمانت کی عرضی پر شنوائی نہیں ہوسکی ہے۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ دنوں غیر سرکاری تنظیم ’فورم فار فاسٹ جسٹس‘ نے دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ’عدالتی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت‘ کے عنوان سے ایک سمینار منعقد کیا تھا۔اس سمینار میں سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کے علاوہ عدلیہ سے وابستہ معاملات کے ماہرین نے اظہار خیال کیا۔ مشہور دستاویزی فلم ’بلیک جسٹس‘ کے فلم ساز کپل کاکر نے سمینار میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی تھی۔ کپل کاکر اور دیگر مقررین نے ہندوستان کے عدالتی نظام کی ان خامیوں پر اظہار خیال کیا جن کے سبب فوری انصاف کا عمل ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔’فورم فار فاسٹ جسٹس‘ کو سرگرم اور متحرک رکھنے والے سماجی کارکن بھگوان جی رایانی نے بتایا کہ اس وقت ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں۵؍کروڑ ۱۸؍لاکھ ۲۳؍ ہزار ۴۶۰؍ معاملات زیر التوا ہیں۔ان معاملات کے تصفیہ کیلئے ۳؍ سوسال درکار ہوں گے، وہ بھی اس صورت میں جبکہ ان کی شنوائی تسلسل کے ساتھ ہوتی رہے۔ایسی کثیر تعداد میں معاملات کا زیر التوا رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدلیہ سے وابستہ افراد انصاف کے عمل کو یقینی بنانے کے تئیں اس قدر حساس نہیں ہیں، جتنا کہ ہونا چا ہئے۔
عدالتوں میں مقدمات کی شنوائی کے عمل سے وابستہ افراد کی غیر حساسیت کے علاوہ انصاف کی فراہمی کے عمل کو متاثر کرنے والا دوسرا بڑا سبب عدالتوں میں ججوں کی کمی ہے۔ اس کمی کے سبب متعدد اہم اور حساس قسم کے مقدمات عدالتی فہرست میں شامل تو ہو جاتے ہیں لیکن ان پر شنوائی نہیں ہو پاتی اور پھر وہ اگلی تاریخ تک کیلئے ٹل جاتے ہیں۔ عدالتی کارروائی میں ایسے مقدمات کا سفر فہرست در فہرست جاری رہتا ہے اور انصاف کے متمنی افراد ہر تاریخ پر عدالت میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوتے رہتے ہیں کہ ممکن ہے ان کی امید بر آئے۔ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایسے مقدمات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ انصاف کے حصول کی آس لگائے افراد عدالتوں کا چکرکاٹتے کاٹتے اکثر اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور ان کے مقدمات عدالت میں زیر غور ہی رہے۔عدالتوں میں ججوں کی خالی جگہوں کو پر کرنے کیلئے سنجیدہ اور فوری اقدام وقت کا اہم تقاضا ہے لیکن اس ضمن میں ارباب حل وعقد کا رویہ بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ججوں کی تقرری کا عمل بھی مقدمات کو فیصل کرنے کے عمل میں برتی جانے والی سست رفتاری کی مانند ہے۔جنوری ۲۰۲۴ء کے ڈیٹا کے مطابق ملک کے ہائی کورٹس میں ججوں کی مقررہ تعداد ۱۱۱۴؍ ہے جس میں ۷۸۳؍ جج ہی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ۳۳۱؍ ججوں کی تقرری کے عمل میں اب تک کوئی ایسی پیش رفت نہیں ہوئی ہے جس سے صورتحال میں کسی خوشگوا ر تبدیلی کے آثار نمایاں ہو سکیں۔

 

ججوں کی تقرری کے تئیں یہ غیر سنجیدگی ظاہر کرتی ہے کہ ارباب اقتدار صرف زبانی طور پر انصاف کی فراہمی کے دعوے کرتے ہیں۔ ان دعوؤں کو عملی شکل دینے کیلئے جو اقدام لازمی ہیں،انھیں بروئے کار لانے کی مطلق پروا نہیں کرتے۔ اقتدار کے علاوہ نوکر شاہی بھی اس عمل کو متاثر کرتی ہے۔ججوں کی تقرری کی فائلیں کئی کئی مہینوں تک ان افسروں کی میز پر پڑی رہتی ہیں جن کے دستخط کے بغیر یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔مختلف سطحوں پر عدلیہ سے وابستہ افراد کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں وہ غیر جانب داری اور دیانت داری کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ انصاف کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔اگر اس اصول کا تجزیہ معاصر عدالتی نظام کے تناظر میں لیا جائے تو بعض دفع حالات اس سے برعکس نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران فسطائیت نے جس طرح مختلف عوامی شعبوں پر اپنے اثرات ظاہر کئے ہیںاس سےعدالتی نظام بھی مبرا نہیں رہا ہے۔حالیہ برسوں  میں کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں ججوں کے ذریعہ کسی خاص مذہب یا طبقہ کی حمایت کی گئی۔ ججوں کا یہ رویہ انصاف کے عمل کو متاثر کرتا ہے اور اس کے سبب جائز فریق انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: بھیونڈی کے اُردو اسکول میں مراٹھی تقریری مقابلے کی ۵۱؍ سالہ منفرد روایت

 عدالتوں میں ججوں کی کمی کے علاوہ بعض ریاستوں میں ضلع اور ہائی کورٹ سطح پر موزوں انفراسٹرکچر کی کمی بھی معاملات کے زیر التوا رہنے کی ایک وجہ ہے۔یہ کمی اکثر مقدمات سے وابستہ فائلوں اور دیگر اہم دستاویزات کومحفوظ رکھنے اور عدالتوں میں بروقت انھیں پیش کرنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ عدالتی ریکارڈ سے جج کی میز تک کسی مقدمے کی فائل کے پہنچنے کے عمل میں مختلف سطحوں پر جو ملازمین شامل ہوتے ہیں وہ بھی اکثر اپنے فرائض کی تکمیل میں اس ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مقدمات کے بر وقت فیصل ہونے کیلئے ناگزیر ہے۔ عدالتی حکام اور بابوؤں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ معاملات کی نوعیت کیا ہے اور کسی معاملے کو تادیر زیر التوا رکھنے سے انصاف کا عمل کس حدتک متاثر ہوگا۔جو اصولی تصورات عدلیہ سے وابستہ ہیں اگر انھیں پوری دیانت داری کے ساتھ روبہ عمل لایا جائے تو انصاف کی فراہمی کے عمل کو بڑی حد تک بروقت نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی رسوخ یا مالی توانگر ی اس عمل کو پیچیدہ بنادیتی ہے۔اس کے سبب ان حساس معاملات میں بھی فوری انصاف کی راہ طویل ہو جاتی ہے جو کسی فرد، تنظیم یا جماعت کے کریئر اور مستقبل سے وابستہ ہوتے ہیں۔
 ہندوستان کے عدالتی نظام میں جو اصلاحات فوری درکارہیں ان میں سب سے ضروری یہ ہے کہ مقدمات کی نوعیت کے لحاظ سے ان کی شنوائی کی فہرست ترتیب دی جائے۔ عدالت عظمیٰ اور بعض ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی اس پہلو پر زور دیا ہے لیکن اس کے باوجود اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اغراض یا مالی منفعت کا دباؤ صورتحال کو اس قدر پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے اہم اور غیر اہم معاملات کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں عمر خالد کی ضمانت اورسنبھل کی جامع مسجدکے سروے والے معاملات کی مثال ہی یہ ظاہر کر دیتی ہے کہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں دیانتداری اورشفافیت کو یقینی بنانے کے تئیں عدلیہ سے وابستہ افراد کس حد تک سنجیدہ ہیں۔قانون کی رو سے ضمانت حق اور جیل استثنا ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ چار برسوں سے عمر خالد کی ضمانت کی عرضی پر شنوائی نہیں ہوسکی ہے۔اس کے برعکس سنبھل کی مسجد کے سروے کے معاملے میں عدالت نے مثالی تیزرفتاری کا مظاہرہ کیا۔
 ان دومثالوں کے علاوہ ایسی کئی دیگر مثالیںبہ آسانی دریافت کی جا سکتی ہیں جو انصاف کے عمل میں دیانت داری اور شفافیت کو متاثر کرتی ہیں۔اس ضمن میں تازہ مثال سابق چیف جسٹس چندر چڈ کے اس بیان سے بھی ملتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایودھیا تنازع میں فیصلہ کرنے کی قوت انھیں بھگوان نے عطا کی تھی۔ اس معاملے میں آستھا کے نام پر جس طرح قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا وہ صریح طور پر انصاف کے عمل کو کمزور بناتا ہے۔ اس فیصلے میں آستھا کو انصاف پر ترجیح دینے والے ججوں کو اقتدار نے جس انداز میں نوازا وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں اب اس حد تک خودمختار نہیں رہیں جن پر بلا چوں و چرا اعتماد کر لیا جائے۔ 
 ججوں کی کمی ، انفراسٹرکچر کا فقدان، سیاسی دباؤ اور مذہبی بنیاد پر جانبداری والا رویہ انصاف کے عمل کو متاثر کرنے والے ایسے عوامل ہیںجو ہندوستانی عدلیہ کی مایوس کن سچائی بیان کرتے ہیں۔ ان عوامل میں اصلاح کے بغیر نہ تو انصاف کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، نہ ہی مقدمات کے تصفیہ کی رفتار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔عدالتوں میں زیر التوا معاملات ’انصاف میں تاخیر ،  ناانصافی کے مترادف‘ کی مثال ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’دامنی‘ میں سنی دیول کا مشہور ڈائیلاگ عدالتی نظام کی بہترین عکاسی کرتا ہے جس میں وہ بطور وکیل جج سے کہتا ہے ’می لارڈ، تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ تو ملتی رہی لیکن انصاف نہیں ملا۔اس وقت عدالتوں میں زیر التوا معاملات سے متعلق افراد بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ صورتحال یقینا انصاف کی فراہمی پر سوالیہ نشان لگاتی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK