• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر ابھی جشن منانے کی ضرورت نہیں

Updated: December 25, 2024, 4:06 PM IST | Shashi Tharoor | Mumbai

اگر ایسی کوئی بات سامنے آئے تواس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ہندوستان کی تاجر برادری نےمبینہ طور پر چین کے ساتھ اس سمجھوتے کیلئے حکومت پردباؤ ڈالا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

جون۲۰۲۰ء میں، لداخ کے علاقے میں سرحد پر چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے دستوں کی دراندازی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس میں ۲۰؍ ہندوستانی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان اور چین کے تعلقات کئی دہائیوں میں اپنی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے۔ اس کی وجہ سےطویل عرصے تک دونوں ملک فوجی تعطل کا بھی شکار رہے۔ اب جبکہ دونوں ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں، ہندوستان میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو اس کا جشن منانے کی جلد بازی نہیں کریں گے۔ 
 ۲۰۲۰ء کی دراندازی کے بعد اپنا عزم ظاہر کرنے کیلئے ہندوستان نے چینی سرمایہ کاری کی منظوری کو سست کر دیا تھا، چینی شہریوں کیلئے ویزا کی منظوری میں سختی کردی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں بھی منسوخ کر دی تھیں۔ مزید برآں، ہندوستان نے بحرالکاہل میں چینی علاقائی دعوؤں پر اپنا موقف سخت کیا اور اس طرح کے واضح سیاسی اشارے دیئے جو چین کو ناراض کر سکتے ہیں، جیسے کہ مودی کی تیسری مدت کے بعد تائیوان کے صدر کے مبارکبادی پیغام کا نہایت گرم جوشی سے جواب دینا جبکہ چین ان ممالک کے تائیوانی حکام کے ساتھ تمام سرکاری مذاکرات کی مخالفت کرتا ہے جن کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں۔ 
 حالیہ معاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ چین کو ہندوستان جوپیغام پہنچانا چاہتا تھا، وہ اسے مل گیا ہے.... لیکن یہاں ایک اور سوال بھی منہ کھولے کھڑا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اس معاہدے کیلئے چین کے مقابلے زیادہ بے چین تھا؟ دراصل، ہندوستان کی اقتصادی پالیسی بڑی حد تک اس بات پر قائل نظر آتی ہے کہ چین کے ساتھ علیحدگی کی حکمت عملی پر عمل کرنا تودور، ہندوستان کو اپنی سرمایہ کاری کے فرق کو پُر کرنے کیلئے چینی سرمائے کو استعمال کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ ایسے میں اس بات پر کوئی حیرت نہیں کی جانی چاہئے کہ ہندوستان کی تاجر برادری مبینہ طور پر حکومت پر معاہدے کیلئے دباؤ ڈال رہی تھی۔ 
 جولائی میں، مودی حکومت کے چیف اکنامک ایڈوائزر نے کھل کر ایک ایسی حکمت عملی کی وکالت کی تھی جس سے ہندوستان میں چینی سرمایہ کاری بڑھے اور چینی ’سپلائی چین‘ میں ہندوستان کی شرکت کو مزید گہرا کیا جاسکے۔ اس کے بعد ہی سے گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران، اس طرح کے کئی اشارے ملتے رہے کہ لداخ تعطل کو ختم کرنے کیلئے ایک معاہدہ ہو رہا ہے۔ 
 ۱۲؍ ستمبر کو، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک تبصرہ کیا تھا کہ مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر چین کے ساتھ ’تعطل‘ سے متعلق تقریباً ۷۵؍ مسائل حل کئے جا چکے ہیں۔ اُسی دن، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے سینٹ پیٹرزبرگ میں چین کے خارجہ امور کے کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بھی سمجھوتے کے اشارے دیئے گئے تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں چین کے سفیر بھی اس دوران مثبت اشارے دے رہے تھے.... اور آخر کار سمجھوتہ ہوہی گیا۔ 
 لیکن خدشات ہنوز برقرار ہیں۔ معاہدے کے اعلان کے چند دن بعد جب مودی اور جن پنگ برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر ملے تو ان کی متعلقہ وزارتوں نے کئی متضاد بیانات دیئے۔ ہندوستان نے معاہدے کو ’کثیر قطبی ایشیا اور کثیر قطبی دنیا‘ کی جانب ایک قدم قرار دیا جبکہ چین نے صرف’کثیر قطبی دنیا‘ کا حوالہ دیا۔ اس کامطلب واضح تھا، چین خود کو ایشیا میں سب سے اوپر سمجھتا ہے۔ 
 چین کے طرز عمل میں ایک واضح پیٹرن دیکھا جا سکتا ہے: وہ نئے حقائق پیش کرتا ہے اور ان جگہوں پر فوج تعینات کرتا ہے جہاں سے وہ ہندوستان کو ڈرا سکے۔ اسی طرح طویل سفارت کاری کے ذریعے بھی وہ ہندوستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کےساتھ ہی، وہ ہندوستان کو چینی درآمدات پر انحصار بڑھانے کی ترغیب بھی دیتا ہے اور ہندوستانی کاروباری لیڈروں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرتا ہے۔ 
 اس کے باوجود دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ میل جول سے متوقع اقتصادی فوائد حاصل ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ چین نے ہندوستان کے بڑے دو طرفہ تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جو کہ۲۰۲۱ء میں ۷۰؍ارب سے بڑھ کر۲۰۲۲ء میں ۱۰۱؍ ارب ہو گیا۔ اسی طرح اس نے چینی مارکیٹ تک رسائی میں درپیش رکاوٹوں کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ چین یہاں کم قیمت والی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے، ٹیکنالوجی کی منتقلی کےشعبوں میں نہیں، جبکہ چینی کمپنیاں ہندوستان میں حساس شعبوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کا ایک اور نقصان ہے۔ چین کے ساتھ میل جول کی وجہ سے عالمی کمپنیوں کیلئے ہندوستان میں کشش کم ہو جائے گی۔ دوسرے ممالک کی معاشی کمزوریوں کو ہتھیار بنانے کے چین کے طویل ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چین کے معاملے میں ہندوستان کو بہت احتیاط سے آگے بڑھنا چاہئے۔ جب تک چین نیک نیتی نہیں دکھائے، معاہدے پر جشن منانا کسی بھی طور پر سے درست نہیں ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK