ایسے وقت میں جبکہ چین عالمی منظر نامہ میں امریکہ کی جگہ لینے کی کوشش کررہاہے ٹرمپ کی پالیسیاں اسے مواقع فراہم کررہی ہیں۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 2:54 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
ایسے وقت میں جبکہ چین عالمی منظر نامہ میں امریکہ کی جگہ لینے کی کوشش کررہاہے ٹرمپ کی پالیسیاں اسے مواقع فراہم کررہی ہیں۔
’’امریکہ مقدم‘‘ (America First) کا نعرہ بلند کرکے دوبارہ الیکشن جیتنے والے ڈونالڈٹرمپ عالمی لیڈروں کے اُسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو عوام کو’’عظمت رفتہ‘‘ کا اسیر بنا کر خمار میں مبتلا کرتے ہیں اور پھر اسی ’’عظمت‘‘کی بحالی کا خواب دکھا کرآسانی سے اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ایسے لیڈر عوام کےایک طبقہ کے دلوں میں موجود محرومی کے احساس یا دوسرے طبقے کے تعلق سے احساس کمتری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اسے نفرت میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لیڈر قیادت ملتے ہی آمرانہ طرز اختیار کرنے لگتے ہیں اور اپنی سرکاری مشنری کو استعمال کرکے اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ عوام ’’عظمت رفتہ کی اسیری‘‘سے باہر نہ آنے پائیں کیونکہ یہی ان کے اقتدار میں بنے رہنے کی ضمانت ہوتی ہے۔ یہ بھی بہت واضح ہے کہ ایسے لیڈر ذاتی طور پر بھلے ہی کامیاب ہوں، اپنے چند حواریوں کیلئے فائدہ مند بھی ثابت ہوجائیں مگر قوم کیلئے ان کی افادیت اکثر صفر ہوتی ہے البتہ قوم کو جب تک اس کا احساس ہوپاتا ہے اور جب تک وہ خمار سے باہر نکلتی ہے تب تک بہت کچھ کھو چکی ہوتی ہے۔ ’’عظمت رفتہ‘‘ کی بحالی کا خواب دکھا کر اقتدار پر قابض ہونے والے یہ خود پسند قائدین اکثر وبیشتر اُس عظمت کو بحال تو نہیں کرپاتے بچی کھچی ’’عظمت‘‘ کو بھی کچھ اس قدر نقصان پہنچا دیتے ہیں کہ معیشت اور سماج دونوں محاذ پر اصلاح کیلئے دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔
ٹرمپ کو دوبارہ عہدۂ صدارت سنبھالے ابھی ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا مگر انہوں نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے۔ یکےبعد دیگرے وہ جس طرح کے فیصلے کررہے ہیں ان سے امریکہ کی عظمت رفتہ بحال ہوگی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا مگر یہ تاثر ضرور مل رہاہے کہ وہ امریکہ جسے پوری دنیا کا ٹھیکیدار ہونے کا زعم ہے اور جو خود کو’’عالمی قائد‘‘ کے طور پر باورکراتا رہاہے، ٹرمپ کی صدرت میں عالمی قیادت سے دستبردار ہونا چاہتا ہے۔ امریکہ اگر ڈبلیو ایچ او کی کل فنڈنگ کا اگر ۱۸؍ فیصد دے رہاتھا تو یہ اس کے قائدانہ رول کا مظہر تھا۔ اگر واشنگٹن ’ یو ایس ایڈ ‘ کے ذریعہ دنیا کے غریب اور ضرورت مند ممالک کو مجموعی طور پر۴۰؍ بلین ڈالرکی خطیررقم بطور تعاون وامداد فراہم کرتا ہے تو اس اس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ بطور عالمی قائد وہ پوری دنیا کیلئے فکرمند ہے اور سب کی ترقی میں یقین رکھتا ہے۔ اگر وہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے منسلک تھا تو اس پیغام کے ساتھ کہ وہ ایک ذمہ ملک ہے جو ماحولیات کو پہنچنےوالے نقصان کیلئے فکرمند ہے اور آنےوالی نسلوں کیلئے زمین کو قابل رہائش حالت میں چھوڑنے کیلئے نہ صرف خود ذمہ داری نبھانا چاہتا ہے بلکہ پوری دنیا کو ساتھ لے کر اس محاذ پر آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہے۔
’’امریکہ مقدم‘‘کے نام پر ٹرمپ نے نہ صرف ان تینوں اہم اداروں سے علاحدگی اختیار کرلی ہے بلکہ امریکہ کے محروم شہریوں کی انا کی تسکین کیلئے ملک میں موجود ’’غیر ملکی تارکین ‘‘ کے ساتھ جو غیر انسانی رویہ اختیار کیا ہے وہ قائدانہ صلاحیت کے حامل کسی بھی شخص کا نہیں ہو سکتا۔ میکسیکو کی سرحد پر ایمرجنسی نافذ کرکے اور غیر ملکی تارکین وطن کو زنجیروں میں جکڑ کر ملک سے نکال باہر کرنے کا امریکی معیشت کو فائدہ پہنچے گایا نقصان یہ بھی بحث کا موضوع ہے۔ تارکین وطن سے نفرت ایک نفسیاتی معاملہ ہے جسے ٹرمپ ’’بھُنا‘‘ رہے ہیں۔ ملک میں جولوگ بے روزگار ہیں انہیں لگتا ہے کہ غیر ملکی ان کی نوکریوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ اس کیلئے ان کی گاج غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونےوالوں پر گرتی ہے کیوں کہ قانونی طور پر داخل ہونے والےاہم عہدوں پر فائز افراد کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہےکہ غیر قانونی طور پر ملک داخل ہونےوالے افراد چھوٹے موٹے کام اور مزدوری کرتے ہیں جنہیں ’’بلیو کالر جاب‘‘کہاجاتا ہے۔ یہ وہ ملازمتیں ہیں جو امریکی شہری نہیں کرنا چاہتے۔ اس کی تصدیق خود امریکہ کے لیبر محکمہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ سے ہوتی ہے جس کے مطابق ۲۰۲۴ء میں ملک میں ۷؍ ملین سے زیادہ شہری بے روزگار تھے مگر ان میں سے زیادہ ترسفیدکالر ملازمتوں کے متلاشی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اندیشہ ہے کہ اس پالیسی سے رواں سال امریکہ کی جی ڈی پی میں ۴؍ کی کمی ہوسکتی ہے ساتھ ہی افراط زر بھی بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح یورپ کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا حالیہ موقف کہ یورپ کی سیکوریٹی امریکہ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، پھر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ ذمہ دارانہ قیادت سے بھاگ رہا ہے، ہاں غزہ، گرین لینڈ اورپناما نہر پر قبضہ کی دھمکیاں یہ ضرور ظاہر کرتی ہیں کہ وہ عالمی غنڈہ گردی پر آمادہ ہے۔
ایسے وقت میں جبکہ چین معاشی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کےبعد عالمی قیادت کے معاملہ میں بھی تیزی سے اس کی جگہ لینے کی کوشش کررہاہے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں بیجنگ کیلئے جگہ پیدا کر رہی ہیں۔
عالمی قیادت سے دستبرداری کے ۳؍ اہم نکات
یو ایس ایڈکو منجمد کرنا: امریکہ اگر یو ایس ایڈ ‘ کے ذریعہ دنیا کے غریب اور ضرورت مند ممالک کو مجموعی طور پر۴۰؍ بلین ڈالرکی خطیررقم بطور تعاون فراہم کرتا ہے تو اس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ بطور عالمی قائد وہ پوری دنیا کیلئے فکرمند ہے۔ ٹرمپ کا اس سے علاحدہ ہونا اس ذمہ داری سے فرار اختیار کرنا ہے۔
ڈبلیو ایچ او سے علاحدگی :عالمی لیڈر کے طور پر ڈبلیو ایچ او کی ۱۸؍ فیصد فنڈنگ اکیلے امریکہ کرتا رہاہے۔ ’’امریکہ مقدم‘‘کی پالیسی کے تحت اس سے علاحدگی اختیار کرلینا، چین کواس خلا کو پُر کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے جو معاشی محاذ پرامریکہ کو بڑی حدتک پیچھے چھوڑ دینے کے بعد عالمی قیادت میں کے محاذ پر بھی اپنی بالادستی کا متمنی ہے۔
ماحولیاتی معاہدہ : پیرس معاہدہ جو ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تھا، سے علاحدگی بھی اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ ذمہ داری بھاگنے اور مستقبل کی پروا نہ کرنے کا والا ملک بن رہاہے۔