حکومت نےمسلمانوں اور اپوزیشن کے تمام اعتراضات کوکنارے رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا اور نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان کی مدد سے پاس بھی کروا لیا۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 12:49 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
حکومت نےمسلمانوں اور اپوزیشن کے تمام اعتراضات کوکنارے رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا اور نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان کی مدد سے پاس بھی کروا لیا۔
مودی سرکار نے مسلمانوں کی شدید ناراضگی کے باوجود پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کو منظور کروالیا۔ بابری مسجد، طلاق ثلاثہ اور آرٹیکل ۳۷۰؍ کے بعد وقف ترمیمی بل بی جے پی سرکار کی ہٹ دھرمی کا ایک اور ثبوت ہے۔ حکومت نےمسلمانوں اور اپوزیشن کے تمام اعتراضات کوکنارے رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا اور نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان کی مدد سے پاس بھی کروا لیا۔ سیکولرازام کا دم بھرنے والی پارٹیوں نے اپنے فائدے کیلئے مسلمانوں کے مفاد کو قربان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ وقف ترمیمی بل منظور ہوجانے پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
بالآخر امیت شاہ نے خرید و فروخت کا ذکر کر ہی دیا
مراٹھی اخبار’سامنا‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا۔ بل کے حق میں ۲۸۸؍ اور مخالفت میں ۲۳۲؍ ووٹ پڑے۔ اکثریت کا ہندسہ۲۷۳؍ ہے۔ اسلئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حکومت نے بھاری فرق کے ساتھ جیت حاصل کی ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت۳۰۰؍ کا ہندسہ پار نہیں کرسکی۔ نتیش کمار پوری طرح سے سٹھیا گئے ہیں اور چندرا بابو نائیڈو مرکز سے زیادہ فنڈ ملنے کی وجہ سے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے فائدے کیلئے لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے سماج میں تفرقہ پیدا کررہی ہے۔ جن لوگوں نے پارلیمنٹ میں امیت شاہ کی تقریر سنی ہوگی، وہ اچھی طرح سے جان گئے ہوں گے کہ مسلمانوں کی جی حضوری کون کررہا ہے۔ امیت شاہ کی پوری تقریر کا ماحصل تھاکہ اب وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مسیحا بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار محض ایک بہانہ ہے دراصل مودی اورشاہ کی نظر وقف بورڈ کی ڈھائی لاکھ کروڑ روپے کی ملکیت پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم وقف بورڈ کی ملکیت کی حفاظت کریں گے اور خالی پڑی زمینوں کو فروخت کرکے غریب مسلمانوں اور خواتین کی فلاح وبہبود کا کام کریں گے۔ بالآخر امیت شاہ نے خرید و فروخت کا ذکر کر ہی دیا۔ اب وہ کس کو زمین فروخت کریں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ملک میں خریدنے اور فروخت کرنے والے دو چار ہی لوگ ہیں۔ وقف بورڈ کا سارا کھیل ہندوتوا، غریب مسلمانوں کے انصاف کا نہیں ہے بلکہ وقف بورڈ کی خالی پڑی زمینوں کو ہڑپنے کا چل رہا ہے۔ ہوائی اڈوں سے لے کر دھاراوی تک سب کچھ فروخت کرنے کے بعد اب وہ وقف بورڈ کی زمینوں کا کاروبار کرنے جا رہے ہیں۔ ‘‘
مذہبی معاملات میں مداخلت کاخدشہ
ہندی اخبار’نوبھارت ٹائمز‘ نے ۳؍ اپریل کے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’وقف ترمیمی بل پر حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کی توقع کسی کو نہیں لیکن تعطل کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی جانی چاہئے تھی۔ اس بل کا اثر ایک بڑی آبادی کو متاثر کرے گا۔ اگر اس کے شبہات کو دور نہیں کیا گیا تو بل کا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ سرکار نے پچھلے سال اگست میں پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ اس وقت اپوزیشن کی مخالفت کے سبب اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا۔ اس سال فروری میں کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جسے مرکزی حکومت نے منظوری دے دی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اپوزیشن کی بات بھی سنی جبکہ حزب اختلاف کا الزام ہے کہ اس کے مشوروں کو خاطر میں نہیں لایا گیا ہے۔ وقف کا تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ اس کے کام کاج کے طریقے میں تبدیلی ہونی بھی چاہئے۔ سرکاری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت وقف کے پاس ملک بھر میں ۸ء۷؍ لاکھ جائیدادیں ہیں۔ ریلوے اور ہندوستانی فوج کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف کے پاس ہے۔ سینٹرل وقف کاونسل میں غیر مسلم ممبران رکھنے پر اعتراض ہوسکتا ہےلیکن خواتین ممبران کے حوالے سے ہنگامہ آرائی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس سے مسلم خواتین کو اپنی بات رکھنے کا موقع ملے گا۔ اپوزیشن کے ساتھ ہی ایک طبقے کو خدشہ ہے کہ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد حکومت اس کے ذریعہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرےگی۔ تاہم وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے مرکزی اقلیتی وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ وقف بورڈ کسی بھی مذہبی ادارے کے انتظام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود اگر تعطل جاری ہے تو اس کی وجہ رابطے اور اعتماد کی کمی ہے۔ ‘‘
حکومت مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے
مراٹھی اخبار’لوک مت‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ متنازع وقف ترمیمی بل بالآخر پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا۔ لوک سبھا میں حکمراں جماعت اور حزب اختلاف میں زور دار بحث ہوئی۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ یہ بل غیر آئینی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے لایا گیا ہےتاہم وزیر داخلہ امیت شاہ نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی ہےبلکہ اس کے پیچھے وقف املاک کے انتظام کو شفاف بنانا ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وقف ترمیمی بل غریب مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے بنایا گیا ہے۔ اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ مجوزہ قانون پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ حکومت اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ مرکزی وزیر للن سنگھ نے کہا کی بل میں مجوزہ ترمیم پسماندہ مسلمانوں اور خواتین کے مفاد میں ہے۔ تیلگو دیشم نے اس بل میں ایک اہم ترمیم کا مشورہ دیا اور اس شرط پر بل کی حمایت کی ہے۔
یہ مطالبہ ہے کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کا فیصلہ ریاستوں پر چھوڑ دیا جائے۔ ہندوستان کے پاس دنیا میں وقف اثاثوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ہندوستانی فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف بورڈ کے پاس ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کے حقوق کو کمزور کرتا ہے۔ اس قانون میں ترمیم کے بعد وقف املاک کا انتظام مسلمانوں کے پاس نہیں رہ جائے گا بلکہ اس پر حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا۔ ‘‘
حکومت کی نیت پرشک ہونا لازمی ہے
انگریزی اخبار ’دی فری پریس جرنل‘ ` اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’صدر کی دستخط کے بعد وقف ترمیمی بل قانون بن جائے گاتاہم اس کی منظوری نے آئینی اور سیاسی اثرات کے بارے پیدا شدہ خدشات کو ختم نہیں کیا ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے متنازع زرعی قوانین کی طرح، جو بالآخر عوامی مزاحمت کی وجہ سے واپس لئے گئے تھے، اس قانون کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔ اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے لوک سبھا میں بل کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہوگالیکن اس طرح کا دعویٰ اس وقت کھوکھلا ثابت ہوتا ہے جب اسی سرکار نے مسلم طلبہ کی اسکالرشپ کم کردی اور عوامی سطح پر مسلمانوں پر الزام عائد کیا کہ یہ ہندو خواتین کے منگل سوتر تک چھین لیں گے۔ ایسی کابینہ جس میں ایک بھی مسلم رکن نہ ہو، ایسے میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کی باتیں کرنا سرکار کے بھرم اور نیت پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ ‘‘