• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قوم میں معاشی بیداری لانے کیلئے کالج کے طلبہ کیا کچھ کرسکتے ہیں!

Updated: December 17, 2024, 5:01 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

طلبہ کو چاہئے کہ وہ محلہ/ بستی کے پروگرام یا نکّڑ ناٹک کے ذریعے ’بچت کریں اور بچت کرائیں ‘ کا نعرہ عام کریں اور چھوٹی چھوٹی بچت کے طریقے بھی بتائیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

تعلیم کے بعد جس محاذ پر قوم ابھی تک پسماندہ ہے وہ ہے، معاشیات۔ پتہ نہیں کیوں ہم میں سے بعض لوگ یہ کہتے ہوئے سرد مہری کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ دنیا’چار روزہ‘ ہے۔ اُنھیں یہ سمجھنا چا ہئے اور نئی نسل کو سمجھانا بھی چاہئے کہ مادہ پرستی مذموم ہے البتہ اوّل تو ایک سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ زیادہ آمدنی یعنی زیادہ زکوٰۃ کی ادائیگی۔ دوم یہ کہ اگرزندگی میں معاشی استحکام نہیں ہوگا تو کیا ملے گا سوائے محتاجی، کسمپرسی اور بے بسی کے؟ ہمارے طلبہ کو اب اس محاذ پر اپنی سکت بھر کوششیں شروع کرنی چاہئے۔ 
(ا) اس مہم کا آغاز بچت کے تصور پر عمل اور اُس کے دور رس نتائج سے متعارف کرکے کرائیں۔ طلبہ کو چاہئے کہ وہ محلہ/ بستی کے پروگرام یا نکّڑ ناٹک کے ذریعے ’بچت کریں اور بچت کرائیں ‘ کا نعرہ عام کریں۔ چھوٹی چھوٹی بچت کے طریقے بتائیں، اُنھیں روزانہ اپنے خرچ کی ڈائری رکھنا اور لکھنا سکھائیں۔ جس میں وہ دوخانوں میں لکھیں کہ آج میں نے اتنا کمایا اور میں نے آج اتنا بچایا۔ اصل میں اُن کی ذہنی تربیت یہ کرنی ہے کہ جتنا کمانا اہم ہے، اُتنا ہی اہم بچانا بھی ہے۔ ٹیکسی کے بجائے رِکشایا رِکشا کے بجائے بس/ٹرین میں سفر کرکے ۲۵۔ ۳۰؍ روپے بچانے میں بھی جو خوشی حاصل ہوتی ہے، اُس کا تجربہ اُنھیں کرانا ہے، ورنہ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ کمانے اور خرچ کرنے کے خانے بھرے رہتے ہیں، بچت کا خانہ خالی رہتا ہے۔ اگر کچھ بچایا بھی تواُس بچت کی آخری دس روپے کی نوٹ خرچ ہونے تک نیاکچھ کام نہیں کرتے، اُس کے بعد گھرمیں بچے کھُچے زیورات مہاجن کے یہاں گروی رکھتے ہیں یا ہمارے نوجوانوں کی اکثریت بینکوں کے کریڈٹ کارڈ کے دلفریب آفر میں بھٹک جاتی ہے اور ۴۔ ۵ فیصد ماہانہ سُود ادا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ 
(۲)معاشیات کے محاذ پر غفلت کی بنا پر ہمارے یہاں جھٹ پٹ لکھ پتی بننے والی اسکیمیں وارِد ہوجائیں گی۔ اچھے خاصے، پڑھے لکھے لوگ بھی ان کے جھانسوں میں آجائیں گے۔ کئی لوگ یہ جانتے ہوئے کہ کوئی بھی اسکیم سوفیصد فراڈ یا جھوٹی ہوتی ہے اُس کے باوجود اس میں پونجی لگائیں گے یہ کہتے ہوئے کہ ’چلو قسمت آزماتے ہیں ‘۔ یہاں ہمارے کامرس کے طلبہ کو متحرک ہونا ہے اور سماج دشمن افراد /اداروں سے قوم کو بچانا ہے۔ 
(۳)معاشیات کے محاذ پر ہماری غیر دور اندیشی کی بنا پر ہمارے نوجوان شارٹ کٹ یا آسان راستوں کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔ جب موبائیل فون آیا ہماری بستیوں میں کئی طلبہ نے اسکول کے بستے پھینک دیئے، کالج سے ڈراپ آئوٹ ہوگئے، اب موبائیل خریدنا/بیچنا کوئی مفید کاروبار نہیں رہا، اب وہ نوجوان موبائیل کے کوَر بیچ رہے ہیں۔ ایک موبائیل بیچ کر کبھی ایک ہزار روپے کا منافع ہوتا تھا، اب اُس کا کوَربیچ کر اُنھیں صرف دس روپے کا منافع ہوتاہے۔ کووِڈ کے دوران نوجوانوں کو کچھ لوگ یہ تک بتارہے تھے کہ ماسک بنانے کی فیکٹری کھولنے میں بہت فائدہ ہے۔ ہوا یہ کہ ۱۰۰؍روپے کا ماسک اب ۵؍روپے میں بِکنے لگا۔ والدین نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ لاک ڈائون میں ساری دکانیں بند تھیں سوائے دوا کی دکانوں کے۔ اس بنا پر ہمارے طلبہ کا ایک ہجوم فارمیسی کی طرف لپکا ہے۔ اُنھوں نے آئو دیکھا نہ تائواور’ گھر بیٹھے بیٹھے فارمسسٹ بنئے ‘کا جھانسہ دینے والے جعلساز نام نہاد فارمیسی کالجوں کے ہتھّے چڑھ گئے۔ سالانہ ایک ایک لاکھ تک کی فیس چارج کرنے والے اور گھر بیٹھے بیٹھے ڈی فارم کرانے والی ڈیمڈ یونیورسٹیوں میں والدین نے اپنے بچّوں کو اسلئے داخل کرادیاکہ وہ فارمیسی یا دوا کی دکان کھولیں گے۔ اب اگر ہر بلڈنگ کے گرائونڈ فلور پر کیمسٹ کی چار دکانیں کھل جائیں گی تو کیا ہوگا؟ ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد رعایت دینے والی اِن دوا کی دکانوں کاڈسکائونٹ، پھر مقابلہ آرائی کی بناء پر ڈسکائونٹ ۵۰۔ ۶۰؍فیصد تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب نقلی دوائیں بِکنا شروع ہوجائیں گی۔ اُس کی کوئی تفتیش بھی نہیں ہوگی کیوں کہ آج ملک کی ساری کنزیومر کورٹس میں لاکھوں مقدمے زیرِ سماعت ہیں۔ ذرا سوچئے کریئر کے بارے میں جلد بازی اور جھٹ پٹ لکھ پتی بننے کے چکّر میں ہمارے لاکھوں نوجوان سماج دشمن، ملک دشمن اور لوگوں کی جان سے کھیلنے میں ملوّث ہوجائیں گے۔ ہمارے طلبہ کو ہمارے معاشرے کو اس تباہی سے بچاناہے، ہمارے یونیورسٹی کے طلبہ پر یہ بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ والدین میں یہ بیداری پیدا کریں کہ ’موسم‘ کے لحاظ سے اپنے بچّوں کی کریئر سازی نہ کریں۔ 
 (۴)مسلم معاشرے میں آج زندگی کے سارے منصوبے، مستقبل کی ساری پلاننگ اور بجٹ وغیرہ کو مکمل طور پر تہس نہس کرنے کا سبب ہے: شادی کی تقریبات اور ولیمے کی دعوتیں، جہیز کا مطالبہ تو اب ڈھکا چھپا نہیں رہابلکہ کھُلا ایجنڈا ہے۔ بڑی ہی شائستگی سے بھیک مانگی جاتی ہے:’’ہمیں کچھ نہیں چاہئے، دو جوڑے کپڑوں میں بھیج دو، ہاں البتہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا ایک ہی کمرہ ہے، تین بھائیوں کی اس فیملی میں آپ کی بیٹی کیسے خوش رہے گی۔ اُس کیلئے فلیٹ کا انتظام کردیں تو وہ خوشحال رہے گی، ہمیں کچھ نہیں چاہئے اور فلیٹ اسٹیشن سے قریب لیں تاکہ آپ کے داماد کیلئے آپ کو موٹر بائیک نہ خریدنی پڑے۔ ‘‘
ہمارے سارے نوجوانان جہیز کی بڑی لعنت کو ختم کرنے میں پہل کریں۔ وہ خود ایسی شادی سے انکار کریں جس میں کوئی بھی لین دین ہو۔ اپنی شادی شدہ زندگی کا آغاز درست طریقے سے کریں، جہیز میں لائے ہوئے پلنگ، صندوق اوربرتن کو دیکھ دیکھ کر لڑکی روئے جائے گی کہ اُس کے ابّا نے وہ قرض لے کر خریدا ہے۔ والدین سمجھ نہیں رہے کہ اپنے ابّا کے آنسوئوں کو یادکرکے مسلسل روئے جانے والی لڑکی کے ساتھ اُن کا بیٹا کیوں کرخوش رہ پائے گا؟نوجوانو! اب اجتماعی طور پر فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے کہ ہماری قوم کے نوجوان ایسی شادی کی تقریبات میں بھی شریک نہ ہوں، جن میں اسراف ہو، بے جانمائش ہو اور جہیز کا لین دین ہو۔ 
(۵) ہمارے معاشیات کے طلبہ کو معاشرے میں معاشی بیداری پیدا کرنے کیلئے محلہ/نکّڑ اور بلڈنگ میں میٹنگوں کا انعقاد کرنا ہے۔ ہر میٹنگ میں ۸۔ ۱۰ ؍لوگ بھی شریک ہوئے تب بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ اسی طرح تحریک آگے برھتی ہے جب ہم آٹھ یا دس افراد کی میٹنگ میں سے دو تین لوگوں کو کامیاب بناکر رول ماڈل بنائیں ، معیشت و کاروبار میں پیش رفت کیلئے ہمارے یہ نوجوانان کیا کرسکتے ہیں :
(الف) مائیکرو /اسمال /میڈیم اسکیل کی انڈسٹری سے ہمارے معاشرے کو متعارف کرائیں۔ (ب) اس ضمن میں ہمارے معاشرے کی غلط فہمیوں کو دُور کریں کہ ساری حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ تعصّب برتتی ہیں اسلئے اُنھیں سرمایہ کی فراہمی نہیں ہوگی، یہ محض غلط فہمی ہے، اِن انڈسٹری کے ذمہ دار افسران صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کا پروجیکٹ کیسا ہے، وہ موجودہ دَور سے کتنا ہم آہنگ ہے اور آپ اِس تعلق سے کتنے سنجیدہ اور کمیٹیڈ ہیں۔ (ج)مایوسی ویاسیت کے حامل افراد اس ضمن میں مزید دُور کی کوڑی لے آئیں گے کہ ہم اگر کوئی انڈسٹری قائم بھی کرتے ہیں تو کسی فساد میں سب سے پہلے ہم اقلیتوں کی یونٹ کو جلایا جاتاہے یا تباہ و برباد کردیا جاتا ہے، اُن ژولیدہ فکر کے حامل افراد کو کوئی یہ بتائے کہ جہاں جہاں ہماری قوم فسادات وغیرہ میں لُٹی پُٹی ہے وہاں وہ بس سال بھر کے عرصے میں پھر اُبھرآئے ہیں۔ اسلئے مائیکرو /اسمال انڈسٹری میں اب ہماری قوم کو پیش رفت کرنی ہی ہے۔ (د) ان سارے چھوٹے موٹے اور گھریلو کاروبار میں اب خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس طرح خالص خواتین کی انڈسٹریز بھی قائم ہوتی جائیں گی۔ اُنھیں ایک وقار ملے گا، اُن کی صحت بھی اچھی رہے گی۔ (و) کامرس کے طلبہ اس ضمن میں صرف ترغیبی پروگرام مرتّب کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبے بھی قائم کریں ۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK