لوک سبھا انتخابات میں ایم وی اے اور مہا یوتی کے درمیان ووٹوں کے فیصد میں بہت معمولی فرق ہے، ایسے میں اسمبلی الیکشن میں بھی مقابلہ کانٹے کا ہونے کا پورا امکان ہے ،اس میں بھی مسلم ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، الیکشن کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن تیاری شروع ہوگئی ہے۔
مہاوکاس اگھاڑ ی کے لیڈران اگر متحد رہے تو اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی کامیابی یقینی ہے۔ تصویر : آئی این این
حال ہی میں مکمل ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لئے نتائج انتہائی غیرمتوقع تھے۔ کئی ریاستوں میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن جن ریاستوں کے نتائج نے سبھی کو چونکا دیا وہ اتر پردیش اور مہاراشٹر کے نتائج تھے۔ اتر پردیش کے تعلق سے تو بی جے پی کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ اسے اتنی بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن مہاراشٹر کے تعلق سے یہ باتیں مسلسل ہو رہی تھیں کہ اس مرتبہ بی جے پی کو بہت بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔ خود بی جے پی کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی سیٹیں کم ہونے والی ہیں لیکن جو نتائج آئے ان سے بی جے پی کے خیمے میں ہلچل مچ گئی ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی نے مہاراشٹر کی سیاست میں نیا تجربہ کیا تھا۔ اس نے شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ ڈال کر اس کے الگ گروپوں کے ساتھ ’مہایوتی‘ بنائی تھی جو شیو سینا این سی پی اور کانگریس کے اتحاد کا توڑ قرار دی جارہی تھی لیکن یہ پارٹیاں توڑنے میں اہم کردار ادا کرنے والے دیویندر فرنویس کو بھی اعتماد نہیں تھا کہ وہ الیکشن میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ پارٹیاں توڑنے کے باوجود ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار نے جس طرح سے انتخابی تشہیر کی اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کی، اس سے واضح طور پر یہی محسوس ہوا کہ ریاست کے ووٹرس نےادھو کی شیوسینا اور پوار کی این سی پی کو ہی اصلی قرار دیا ہے اور بی جے پی کے ان ہتھکنڈوں کو مسترد کردیا ہے۔ عوام نے ان کے حق میں اپنی رائے تو دی ہی ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھی سوال کھڑے کردئیے ہیں جس نے ایکناتھ شندے کو انتخابی نشان کے ساتھ شیوسینا اور اجیت پوار کو انتخابی نشان کے ساتھ این سی پی سونپ دی تھی۔
انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی کی بے چینی کو سمجھا جا سکتا تھا جنہوں نے شرد پوار کو ’بھٹکتی آتما‘ کہہ دیا اور اور ادھو ٹھاکرے کو بال ٹھاکرے کا نقلی بیٹا۔ ہمارے خیال میں مہاراشٹر کے الیکشن میں یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا کیوں کہ پارٹیاں چھین لئے جانے اور ہر طرح سے بے بس کرنے کی کوششوں کے باوجود نہ ادھو ٹھاکرے نے اور نہ شرد پوار نےکبھی معیار سے گری ہوئی بیان بازی کی اور نہ اپنے مخالفین پر ذاتی و رکیک حملے کئے لیکن بی جے پی کے لیڈروں نے جن میں مودی اور امیت شاہ شامل ہیں، ذاتی حملوں کے ذریعے ووٹ مانگنے کی کوشش جسے مہاراشٹر کے ووٹرس نے پوری طرح مسترد کردیا۔ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے لئے مودی کو ایم این ایس کے راج ٹھاکرے کا سہارا لینا پڑا۔ باوجود اس کے مہاراشٹر میں بی جے پی کی وہ درگت بنی جس کی اس کو توقع نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ’ووٹرس ٹرن آئوٹ‘ چھپاکرالیکشن کمیشن نے اپنی شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچالیا ہے
سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ بی جے پی نے جب شندے گروپ اور اجیت گروپ کو این ڈی اے میں شامل کر لیا تو مہاراشٹر میں بی جے پی مضبوط حالت میں تھی لیکن جب ادھو اور پوار نے ریلیاں کیں تو ان سے لوگ جڑنے لگے اور یہ مان کر کہ یہ دونوں کمزور ہو چکے ہیں عوام نے کھل کر ان دونوں کا ساتھ دیا۔ ان کے ساتھ ہمدردی نے اس طرح سے بھی کام کیا کہ ۸۰؍ سال کی عمر پار کر چکے شرد پوار تنہا میدان میں اترے ہوئے تھے۔ ادھو کے پاس سخت گیر ہندوتوا نہیں تھا بلکہ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ قبائلیوں اور دلتوں کو بھی بھروسہ دیا کہ وہ سبھی کے لئے کام کریں گے۔ جس ادھو کو بی جے پی کمزور مانتی تھی، وہی اب بی جے پی کو جواب دینے کے لئے سب سے بڑےچیلنج کی شکل میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ادھو اور پوار نے اپنی ریلیوں سے لوگوں کو جوڑا لیکن مودی کے ساتھ یہ حالت دکھائی نہیں دی۔ ممبئی کے گھاٹکوپر میں کیا گیا روڈ شو ان کیلئےمنفی ہی ثابت ہوتا نظر آیا کیونکہ اسی علاقے میں ہورڈنگ حادثہ میں ۱۴؍ لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور مودی نے اس پر ہمدردی بھی ظاہر نہیں کی۔ مودی نے مہاراشٹر میں جہاں بھی ریلی کی وہاں بی جے پی کو نقصان دکھائی دے رہا ہے۔ مہاراشٹر میں مودی اور این ڈی اے بغیر ایشوز کےہوگئے ہیں۔ یہاں رام مندر کا ایشو نہیں جبکہ دوسری طرف انڈیا اتحاد نے جمہوریت اور آئین بچاؤ، بدعنوانی، مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں کے موضوعات کو اچھی طرح ووٹرس کے سامنے پیش کیاجس کا انہیں پھل مل گیا۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نے ۴۵؍ سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا لیکن جو نتیجہ آیا وہ مہا وکاس اگھاڑی کے اندازوں کے عین مطابق تھا۔
لوک سبھا الیکشن میں مہا وکاس اگھاڑی کے فتح یاب رہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ این ڈی اے کو ووٹرس نے بالکل مسترد کردیا۔ اگر ووٹ شیئر کے لحاظ سے دیکھیں تو مہا وکاس اگھاڑی کو ۴۴ء۹۲؍ فیصد ووٹ ملے جبکہ این ڈی اے کو ۴۳ء۵۴؍ فیصد ووٹ ملے۔ دونوں اتحاد میں ووٹوں کی اصل تعداد کا فرق صرف ۷؍ سے ۸؍ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں دونوں اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ سیکولر اتحاد کے لئے یہ اچھی بات ہو سکتی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران مہاوکاس اگھاڑی ۲۸۸؍ اسمبلی سیٹوں میں سے ۱۵۷؍ سیٹوں پر آگے تھی یعنی وہ اکثریت کے جادوئی عدد ۱۴۵؍ سے چند زائد سیٹوں پر آگے تھی۔ اگر مہا وکاس اگھاڑی کو اپنی یہی اکثریت برقرار رکھنی ہے یا اسے مزید اضافہ کرنا ہے تو اسے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت مہاراشٹر میں ۳؍ بڑے مسائل ہیں جن کی طرف اگر اپوزیشن اتحاد دھیان دیتا ہے تو ممکنہ طور پر اسے الیکشن میں فائدہ ہو گا۔ پہلا موضوع ودربھ اور مراٹھواڑہ میں کسانوں کے مسائل ہیں، دوسرا اہم موضوع ریزرویشن پر جاری تحریکیں اور تیسرا موضوع حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بے روزگاری ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور مقامی موضوعات بھی اہم ہیں۔ ان سبھی موضوعات پر حکومت مخالف لہر بہت شدید ہے۔ ضرورت ہے کہ اپوزیشن اتحاد ان مسائل کو اٹھاتے ہوئے ووٹرس کو یہ یقین دلائے کہ اِن کا حل اُن کے پاس ہے۔ فی الحال جو ہلچل ریاست کی سیاست میں مچی ہوئی ہے وہ اسی بات کی غماز ہے کہ این ڈی اے کو اتنی بری طرح سے شکست کا گمان بھی نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ کم از کم ۳۵؍ سیٹیں تو مل جائیں گی لیکن ووٹرس نے جس طرح سےاسے مسترد کردیا وہ بی جے پی ہائی کمان کے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ پارٹی کی صفوں میں ہلچل بھی اسی وجہ سے مچی ہوئی ہے۔ امکان ہے کہ اجیت پوار کی این سی پی کو مہایوتی سے علاحدہ کردیا جائے لیکن اس کا بی جے پی کو کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ہو گا۔ حالانکہ اجیت پوار کی این سی پی کچھ سیکولر ووٹ ضرور حاصل کرلے گی لیکن بڑے پیمانے پر وہ کتنا نقصان پہنچائے گی یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی لئے بی جے پی فی الحال بہت سوچ سمجھ کر اپنی چال چل رہی ہے۔ فرنویس کی ریاستی حکومت سے ہٹنے کی پیشکش بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہےتاکہ ان علاقوں پر فوکس کیا جاسکے جہاں پر بی جے پی کو بری طرح سے شکست ہوئی ہے۔ چونکہ دونوں اتحاد کے درمیان ووٹ فیصد میں بہت معمولی فرق ہے اس لئے بی جے پی اور شندے گروپ یہی چاہیں گے کہ اسمبلی الیکشن میں یہ فرق تھوڑا بڑھ جائے اور وہ ووٹ این ڈی اے کے حق میں جائیں۔ ویسے تو کسی بھی ریاست میں فتح سیاسی پارٹی کے لئے اہم ہوتی ہے لیکن مہاراشٹر اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں حکومت کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے ترقی یافتہ وسائل اور یہاں کی معیشت سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی پارٹی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ چونکہ ممبئی ملک کی معاشی راجدھانی ہے اس لئے بھی کوئی بھی پارٹی یہی چاہے گی کہ اس ریاست اور اس شہر پر اس کی حکومت برقرار رہے۔ بی جے پی کو اپنے منصوبے پورے کرنے کے لئے ممبئی کی معاشی طاقت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں پر اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی ہتھکنڈہ اپنانے سے گریز نہیں کررہی ہے۔اب یہ اپوزیشن اتحاد اور اس کی حکمت عملی پر منحصر ہو گا کہ جو پارٹی کرسی سے چمٹ کر رہنا چاہتی ہے اسے کیسے الگ کیا جائے۔