ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اے آئی کا اگلا مرحلہ ہے ایسا اے آئی جو اے آئی کو ڈیزائن کرے گا۔ اے آئی ۲۰۲۷ء رپورٹ نے بڑے ٹیک حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، حالانکہ اسے ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں پیش گوئی کے طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اگلا چیٹ جی پی ٹی (ایم) ورژن میموری کے ساتھ ہوگا۔
آئندہ برسوں میں اے آئی کا استعمال جس طرح سے ہو گا، وہ ہمارے تصور سے بھی باہر ہے۔ تصویر: آئی این این۔
ایک زمانہ تھا جب زبان نہیں تھی۔ کسی نے گنگنانا شروع کیا اور زبان نے جنم لیا۔ ایک زمانہ تھا جب آگ نہیں تھی۔ کچھ انسانوں نے پتھروں کو آپس میں رگڑا تو آگ پیدا ہوئی۔ ایک زمانے میں کوئی کسی جائیداد کا مالک نہیں تھا۔ پھر ایک انسان نے زمین پر لکیر کھینچی اور کہا کہ لکیر کے اس طرف کی زمین اس کی ہے۔ اس طرح پراپرٹی کا ظہور ہوا۔ ذہانت کسی چیز سے پیدا نہیں ہوتی۔ زبان، آگ، جائیداد وہ تمام خیالات تھے جو انسانی ذہن میں بغیر کسی معلومات یا اصول یا اوزار کے پیدا ہوئے تھے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت بہت بڑے ڈیٹا سیٹس، سائنسدانوں کے مقرر کردہ اصولوں اور بڑی زبان کے ماڈلز سے جنم لیتی ہے۔ امریکیوں نے چیٹ جی پی ٹی بنایا۔ چینیوں نے ڈیپ سیک بنایا اور بہت سے ایشیائی ممالک میں بڑی زبان کے ماڈلز کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ آج سچائی بن گیا ہے لیکن یہ سچ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا۔
گوگل نے ’’آٹوایم ایل زیرو‘‘ بنایا ہے، جو چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے مختلف ہے۔ اسے بڑی زبان کے ماڈلز (ایل ایل ایمز) کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض خیالات کے ساتھ تجربہ کر کے اپنے اصول بنا سکتا ہے۔ یہ ایل ایل ایمز کے برعکس ہے جو ریاضی کے اُن اصولوں پر بنتے ہیں جو ہمیں معلوم ہیں، آٹو ایم ایل زیرو کو ریاضی کی پیشگی معلومات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انسانی مداخلت کے بغیر، آزمائش اور غلطی کے ذریعے شروع سے الگورتھم بناتا ہے۔ فی الحال اس کی کچھ حدود ہیں۔ یہ عظیم ریاضی داں رامانوجن کی طرح اصلی تھیورمز لکھنے کے قابل نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک نئی قسم کی ذہانت کا آغاز ہے جو تاریخ یا فطرت میں موجود نہیں ہے۔ آپ ایک ایسے بچے کا تصور کریں جسے ریاضی نہیں سکھایا جاتا۔ آپ اسے کچھ بلاکس دے دیں، ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں یہاں وہاں کرکے کچھ جمع یا تفریق کرلے۔ آپ کمرے سے نکل جایئے۔ جب واپس آئیں گے، دیکھیں گے کہ بچے نے ریاضی کو کچھ حد سمجھ لیا ہے۔ یہی آٹو ایم ایل زیرو ہے، سوائے اس کے کہ اس کی ذہانت کی سطح ایک بچے سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔ جو باتیں انسان چند گھنٹوں میں سیکھتا ہے، یہ محض چند سیکنڈز میں سیکھ لیتا ہے۔
کچھ مہینے قبل راقم کی جیفری ہنٹن اور نوبیل فاؤنڈیشن کے بورڈ ممبر کے درمیان بات چیت ہوئی۔ پروفیسر ہنٹن خواہشمند تھے کہ نوبیل فاؤنڈیشن کو چھٹا نوبیل انعام تخلیق کرنا چاہئے جو اے آئی کیلئے وقف ہو۔ انہیں اس میں ذاتی طور پر دلچسپی نہیں ہے کیونکہ گزشتہ دسمبر میں وہ نوبیل جیت چکے ہیں لیکن وہ جانتے تھے کہ ’’مصنوعی عصبی نیٹ ورک‘‘ جس پر انہوں نے کام کیا ہے، صرف آغاز ہے۔ حقیقی اے آئی کی دوڑ نئے ریاضیاتی تھیورمز اور مالیکیولز کو تخلیق کرنا ہے جو فطرت میں موجود نہیں ہیں۔ آج زیادہ تر اے آئی انسانی ڈیزائنرز کی مقرر کردہ حدود میں کام کرتے ہیں۔ آٹو ایم ایل زیرواس حد کو چیلنج کرتا ہے، ممکنہ طور پر سیکھنے کے ایسے نئے طریقے تخلیق کرتا ہے جن کا انسانوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ایک دوسرا اے آئی ’’ڈیوین‘‘ (Devin)ہے، جو کوگنیشن لیبارٹریز کمپنی نے بنایا ہے۔ یہ پیچیدہ کاموں کو سنبھال سکتا ہے۔ یہ بہت مشکل سافٹ ویئر کوڈ لکھ سکتا ہے۔ اس کا شمار ابھی ٹاپ کوڈرز میں نہیں ہوتا لیکن یہ پیچیدہ کاموں کیلئے چند منٹوں میں اینڈ ٹو اینڈ کوڈنگ لکھ سکتا ہے جس کیلئے ماہر کوڈرز کو مہینوں درکار ہوتے ہیں۔ اس نے دکھایا ہے کہ یہ چیٹ جی پی ٹی اور اسی طرح کے ٹولز کو بہتر یا خودکار کر سکتا ہے۔ یہ ایل ایل ایمز کو درکار تربیتی ڈیٹا کے بغیر خفیہ پیغامات کے ساتھ تصاویر بنا سکتا ہے۔
اے آئی اب نئی سائنسی دریافتوں کی سمت سفر طے کر رہا ہے، مثلاً ’’اِن سیلیکو میڈیسن‘‘ اور ’’بینے وولنٹ اے آئی۔ ‘‘ یہ کمپنیاں اے آئی کا استعمال دواؤں کے نئے مالیکیولز کو ڈیزائن کرنے کیلئے کرتی ہیں۔ ۲۰۲۰ ءمیں اِن سیلیکو نے ۴۶؍ سے کم دنوں میں فائبروسس کا ممکنہ علاج وضع کیا۔ اس طرح کے کام میں روایتی طور پر برسوں لگتے ہیں۔ یہ نظام نقل کرتے ہیں کہ کس طرح دوائیں انسانی حیاتیات کے ساتھ تعامل کرتی ہیں، جس سے لیب ٹیسٹنگ تیز اور مزید سستی ہوتی ہے۔ ٹویوٹا ریسرچ اور اسٹینفورڈ کے تیار کردہ اے آئی ماڈلز نے طویل عرصے تک چلنے والی برقی گاڑیوں کیلئے درکار لیتھیم بیٹریوں کیلئے نئے ’’سالڈ اسٹیٹ الیکٹرولائٹ‘‘ مواد دریافت کئے ہیں۔ لیبز میں ہزاروں مرکبات کی جانچ کرنے کے بجائے اے آئی نے اسے محدود کرنے میں مدد کی۔
سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اگلی بڑی دریافت فیوژن توانائی میں ہوگی۔ اس ضمن میں امریکی لیباریٹریز میں تجربات جاری ہیں۔ متعدد ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اے آئی کا اگلا مرحلہ ہے ایسا اے آئی جو اے آئی کو ڈیزائن کرے گا۔ اے آئی ۲۰۲۷ء رپورٹ نے بڑے ٹیک حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، حالانکہ اسے ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں پیش گوئی کے طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اگلا چیٹ جی پی ٹی (ایم) ورژن میموری کے ساتھ ہوگا۔ یہ چند مہینوں میں دستیاب ہوگا۔ یہ پیچیدہ مسائل کو بھی حل کرنے کے قابل ہوگا۔ مثال کے طور پر، ملک کی وزارت آب چیٹ جی پی ٹی (ایم) کو ۱۰۰؍ اضلاع میں پچھلے تین سال کے ڈیٹا کا موازنہ کرنے اور پانی کے دباؤ کو ایک خاص فیصد تک کم کرنے کیلئے حکمت عملی تجویز کرنے کیلئے کہہ سکتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی (ایم) اسے کرنے کے قابل ہو جائے گا حتیٰ کہ وزارت کے اہلکار ۳؍ سال کی مدت میں تبدیل ہوئے ہوں۔
واضح رہے کہ راقم نے صرف ابتدائی علامات کی نشاندہی کی ہے کہ مصنوعی ذہانت کس طرح تیار ہو رہی ہے۔ ہم نے کوانٹم کمپیوٹنگ اور نیورومورفک کمپیوٹنگ کے اثرات پر ابھی غور نہیں کیا ہے۔ اگلے ۳؍ سے ۴؍ برسوں میں جب ان ٹیکنالوجیز کو اے آئی میں استعمال کیا جائے گا، تو ذہانت کا مستقبل ہمارے تصور سے باہر ہو گا۔
ہمیں فوری طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اسمارٹ اے آئی نظام انسانیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ بیماری، توانائی کی کمی، موسمی بحران اور دیگر مسائل کے حل ایجاد کر کے دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کا اس کے تخلیق کاروں کے ذریعے غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، یا وہ نسل انسانی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اپنے تخلیق کاروں سے آگے بڑھ سکتا ہے، جیسا کہ اس کی خواہش ہے۔ اے آئی کے انسانوں کو دھوکہ دینے کی کچھ مثالیں موجود ہیں، جن کیلئے سائنسی ثبوت اچھی طرح محفوظ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایل ایل ایمز سے آگے اے آئی میں ہونے والی نئی پیش رفتوں پر توجہ دیں، اس سے پہلے کہ کچھ ایسا ہوجائے جس کے بارے میں ہم نے سوچا نہیں ہے۔
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ )