Inquilab Logo Happiest Places to Work

سلامتی والے عدم سلامتی کے شکار کیوں ہیں ؟

Updated: April 06, 2025, 2:27 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

گزشتہ کچھ دنوں سے مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، تہوار مسلمانوں کے ہوں یا برادران وطن کے، نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بہت ساری مخالفتوں کے باوجودتمام تر متنازع شقوں کے ساتھ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوگیا۔ اس طرح ۹ء۴؍ لاکھ ایکڑ پر مشتمل کم و بیش ۸ء۸؍ لاکھ مسلمانوں کی ملکیت والی جائیدادوں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ 
عین عیدالفطرکے دن اتراکھنڈ کی حکومت نے اپنی ریاست کے ان ۱۷؍ مقامات کا نام تبدیل کردیا جن کی شناخت مسلم یا مسلمانوں سے تھی۔ اس طرح اورنگ زیب پور کا نام شیواجی نگر، غازی ولی کا نام آریہ نگر اور خان پور کا نام شری کرشنا پور کردیا گیا۔ 
اس سے قبل عید کے موقع پرملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع میرٹھ کے پولیس سربراہ نے سڑک پر نماز پڑھنے کے ’جرم‘ میں مسلمانوں کا پاسپورٹ ضبط کرنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ الگ سوال ہے کہ پولیس کو یہ دھمکی دینے کا حق کس نے دیا؟ یہ کہتے ہوئے وہ شاید بھول گئے کہ سزا دینے کا کام، اُن کا نہیں عدالت کا ہے۔ اسی طرح پاسپورٹ منسوخ کرنا بھی پولیس کے دائرۂ اختیار میں نہیں۔ اس کے باوجود یہ غیرقانونی انتباہ جاری کیا گیا۔ 
اس سے چند روز قبل مہاراشٹر میں اورنگ زیب اور مغل حکمرانوں کے حوالے سےمسلمانوں کو احساس جرم میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے نتیجے میں ناگپور کے اُس خطےمیں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا، جہاں اس سے قبل تک فساد کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ مال و اسباب کی بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ہی ۵۰؍ سے زائد مسلمان سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیئے گئے۔ 
کچھ دن اور پہلے ہولی کے موقع پر اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی کئی ریاستوں میں مسجدوں کو ترپال سے ڈھانک کر مسلم شناخت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ 
یہ سارے بڑے واقعات محض ایک ماہ کے اندر پیش آئےہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں چھوٹے موٹے واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جن میں سے کچھ رپورٹ ہوئے اور کچھ نہیں ہوئے۔ 
ان سارے واقعات کا ایک ہی مطلب ہے، مسلمانوں کو احساس کمتری کا شکار بنانا، احساس جرم میں مبتلا کرنا اور عدم سلامتی کے خوف کا احساس دلانا ہے۔ یہ سارے حربے اُس قوم کے خلاف استعمال کئے گئے یا کئے جارہے ہیں جس کا پیغام ہی سلامتی ہے اور جس نے اس ملک پر ۸۰۰؍ سال تک حکمرانی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ سنگھ پریوارکی منشا اور اس کا خواب ہے۔ وہ اس ملک میں مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری دیکھنا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے اِس وقت ملک کا زمامِ اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہے، اسلئے اسے کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن ہم یہاں اس صورتحال کے دوسرے پہلو پرگفتگو کرنا چاہیں گے۔ ہم کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنا جائزہ لینا چاہیں گے۔ 
وطن عزیز میں ہم نے۸۰۰؍ سال تک حکومت کی۔ اس دوران ہم نے عوامی فلاح کے کتنے کام کئے؟ قطب مینار، تاج محل اور لال قلعہ جیسی کئی عالیشان اور شاہکار عمارتیں بنائیں اورفن تعمیرات میں دنیا بھر سے داد بھی وصول کی لیکن اس سے عوام کو کتنا فائدہ پہنچایا؟
آزادی کے بعد سے ہمارے قبضے میں قانونی طور پر ۹ء۴؍ لاکھ ایکڑ زمین پر مشتمل جو ۸ء۸؍ لاکھ جائیدادیں رہیں، اس پراپرٹی کا ہم نے کتنا استعمال کیا؟کتنے کالج، کتنے اسپتال، کتنے شبستان، کتنی لائبریریاں، کتنے اسٹڈی سینٹرس، کتنے کھیل کے میدان اور کتنے کمیونی سینٹرس بنائے؟جو مساجد، مدارس اور درگاہیں فی الحال ہمارے پاس ہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ہم ان کا کس حد تک استعمال کررہے ہیں ؟
 اس طرح کے سوالات کی فہرست طویل ہوسکتی ہے لیکن ہم اسے یہیں روک کر انفرادی ذمہ داریوں پر بات کرنا چاہیں گے کیونکہ انفرادی کوششوں ہی سے اجتماعی نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم سلامتی والے ہیں، اسلئے ہمارے کسی قدم اور کسی عمل سے کسی کو پریشانی نہیں ہونی چاہئے.... لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ ہمارا سوال ایک ایک فرد سے ہے۔ کیا ہم اپنے عمل کا جائزہ لیتے ہیں ؟ کیا ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے فلاں قدم سے، ہماری فلاں بات سے اور ہمارے فلاں عمل سے دوسروں پر کیا اور کس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہئے، اُن جگہوں پر بھی جہاں ہم اقلیت میں ہیں اور ان علاقوں اور محلوں میں بھی جہاں ہم اکثریت میں ہیں۔ اُس وقت بھی جب ہم بازار میں ہوتےہیں اور لین دین کرتے ہیں اور اُس وقت بھی جب ہم عبادت گاہوں میں ہوتے ہیں اور اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔ اُس وقت بھی جب ہم کسی سے گفتگو کرتے ہیں اور اس وقت بھی جب ہم کسی کو سنتے ہیں۔ اس وقت بھی جب ہم کسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس وقت بھی جب ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ 
کیا ان تمام حالتوں میں ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں ؟ حکومت جو کررہی ہے، وہ کرے گی اورممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں کچھ مزید شدت سے بھی کرے لیکن ہم تو سلامتی والے ہیں، ہم اپنی ذمہ داریاں کیوں فراموش کریں ؟ برسراقتدار طبقے کا ایک مشن ہے، وہ اس پر کام کررہی ہے، لیکن ہمارا اپنا بھی تو کوئی مشن ہونا چاہئے۔ یقین جانئے ! جس دن ہم نے اپنے مشن کو سمجھ لیا، اُس دن ان کا مشن فیل ہوجائے گا۔ ہم برادران وطن کے اُس بڑے طبقے کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے جو ہماری حرکتوں سے ہم سے متنفر ہے، اسلئے ہمارے خلاف حکومتِ وقت کی جارحیت کے سامنے وہ خاموش ہے۔ 
یقینی طورپر آج ہم ایک برے دور سے گزر رہے ہیں لیکن اس دور میں بھی ہم نے راجستھان کے جے پور میں عید کے دن برادران وطن کو عید گاہ سے واپس ہونے والے مسلمانوں پر پھول برساتے ہوئے اور انہیں پانی پلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس طرح کے خوشگوار واقعات دوسرے علاقوں اورخطوں میں بھی پیش آئےہیں۔ اپنے حسن اخلاق سے اس تعداد کو ہم بڑھا سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کیااور صرف الزام تراشی ہی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا تو مورخ ہماری ترجمانی کچھ اس طرح کرے گا کہ:
کس سلیقے سے متاع ہوش ہم کھوتے رہے 
گرد چہرے پر جمی تھی، آئینہ دھوتے رہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK