Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی و سیع تر سازشیں

Updated: March 09, 2025, 2:44 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

کہیں مسجد ومدرسہ تو کہیں اردو پرسرکاری عتاب، یہ سارے اقدامات مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کیلئے ہیں کہ وہ دوسرے درجےکے شہری ہیں !

An incident took place in Ahmedabad where a group of Muslim youth returning from Taraweeh prayers were pelted with stones by a group of extremists. Photo: INN.
احمد آباد میں ایک واقعہ پیش آیاجہاں تراویح پڑھ کر لوٹنے والےکچھ مسلم نوجوانو ں کے گروہ پرشر پسندوں کی جانب سے پتھراؤ کیاگیا۔ تصویر: آئی این این۔

تین خبریں جوگزشتہ دنوں سامنے آئیں، پریشان کن ہیں۔ ان میں ایسا کوئی حیرت انگیز پہلو تو نہیں ہے جو نئےسرے سے بحث کاتقاضا کرتا ہوبلکہ یہ وہی پہلو ہے جو آج ملک کے بیشتر حصے میں معمول بن چکا ہے۔ اس معمول میں مسلمانوں کو ہراساں کیاجارہا ہے، ہراسا ں کرنے کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں اور انہیں سیاسی طورپرحاشیہ پرکرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ یہ سب سیاسی طورپر بھی ہورہا ہے اور عوامی وانتظامی طورپر بھی۔ اسمبلی میں بھی ہورہا ہے اورسرراہ بھی۔ اتر پردیش اسمبلی میں گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ کااردو کو’ کٹھ ملوں ‘ کی زبان کہ کر توہین کرنا اسی کی مثال ہے۔ اس پرمسلمانوں اور بالخصوص اہل اردو کی جانب سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ بس خبر آئی، ایک دو افرادیا کسی تنظیم نے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہوتو کیا ہواور بس معاملہ ختم۔ اس پرافسوس ہوتا رہے گا، اقدام کچھ نہیں۔ یہ تو اس کی مثال ہے کہ ملک میں مسلمانوں اور نسبتاً مسلم شناخت رکھنے والی ایک زبان کو بے وقعت سمجھنے کا رجحان فرقہ پرستانہ سیاست کے حلقے میں کتنا مضبوط ہوچکا ہےجس کے خلاف مسلمانوں اوراہل ا ردوشدت سے آواز اٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ وہ تین خبریں جو دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں ان میں ایک اتراکھنڈ کی تھی، ایک گجرات کی اوراترپردیش کی جن سے واضح ہوتا ہےکہ مسلمان بحیثیت مجموعی کس طرح فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ 
اتراکھنڈکے دہرہ دون میں مسوری دہرہ دون ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (ایم ڈی ڈی اے)نے ۱۱؍ مدرسوں کو ان کے’ غیر قانونی ‘ ہونےکا حوالہ دیتے ہوئے سیل کردیا۔ ان مدارس سے مسجدیں بھی متصل تھیں جن میں پنجوقتہ نمازیں ہورہی تھیں۔ اس کےخلاف مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا ہے۔ احتجاج کرنے والی ایک تنظیم کے صدر نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ مدارس اور مساجد کو سیل کرنے کے قانونی جواز کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی وضاحت دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں مساجد اور مدارس کو بند کیا جا رہا ہے اور انتظامیہ ہےکہ کوئی اطلاع دے رہا ہے نہ یہ بتا رہا ہے کہ کس قانون کے تحت یہ کارروائی کی جارہی ہے۔ رمضان میں یہ کارروائی کی جارہی ہےجو واضح طورپر امتیازی سلوک کی مثال ہے۔ 
کچھ اگر غیرقانونی ہوتواس کے خلاف کارروائی کا بھی ایک پورا پروسیس ہوتا ہے۔ غیر قانونی ڈھانچہ کو نوٹس دیا جاتا ہے۔ کچھ وضاحت طلب کی جاتی ہے، موقع دیاجاتا ہے۔ خیراب تو ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ ’غیر قانونی‘کارروائیاں بھی چہرہ دیکھ کرہونے لگی ہیں اور حقیقت یہ ہے’ غیر قانونی ‘ اور’نوٹس ‘ وغیرہ کے کچھ معنی ہی نہیں رہ گئے ہیں۔ جس عمارت، جس عبادت گاہ یا جس تعمیراتی ڈھانچے کے خلاف کارروائی کے سیاسی محرکات پیدا ہوگئے، انہیں غیرقانونی قراردے دیا گیااوران کے انہدام کا نوٹس جاری کردیاگیا۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی ا ملاک کے خلاف بلڈوزر کارروائیوں کا حالیہ دور اس کاگواہ ہےکہ کس طرح کسی مسلمان پرلگنے والا الزام بلڈوزرکارروائی کا جواز بن گیا۔ یعنی ملزم اگر مسلمان ہوتو بلڈوزر لازم ہے۔ دہرہ دون میں یہ جو کارروائی کی گئی ہے، اس کا کوئی جواز ہی نہیں بتایا گیا ہے۔ کوئی جواز کیونکر ہوگا جبکہ وہاں مدرسہ ہونا ہی جواز کافی ہے۔ یہ ابتدائی کارروائی دہرہ دون میں ابھی کچھ گیارہ بارہ مدرسوں کے خلاف کی گئی ہے۔ اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ میں ۴۱۶؍ مدارس رجسٹرڈہیں اور وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی ہدایت پرکئے گئے ایک سروے میں ۲۰۰؍ مدارس کے’غیر قانونی‘ ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔ بعیدنہیں کہ یہ سبھی مدارس کارروائی کی زد میں آئیں ۔ 
اس دوران گجرات کے احمد آبادکے واتوا نامی علاقہ میں بھی ایک واقعہ پیش آیاجہاں تراویح پڑھ کر لوٹنے والےکچھ مسلم نوجوانو ں کے گروہ پرشر پسندوں کی جانب سے پتھراؤ کیاگیا۔ پتھراؤ کے علاوہ، کچھ مقامی مکینوں کا دعویٰ ہے کہ حملہ آوروں نے جن میں سے کچھ نقاب پوش تھے، گھروں پر بھی پتھراؤ کیا اور چاقو کی نوک پر مسلمانوں کو زبردستی’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کو کہا۔ ۳؍ مارچ کو پیش آئے اس واقعہ نے مسلمان بے چین ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہر رمضان میں اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں، اس کے باوجود مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ مسلمانوں نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہےلیکن ان کاکہنا ہےکہ مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، انہیں اگرحراست میں لیا بھی جاتا ہے توچھوڑ دیاجاتا ہے۔ کیا کسی فرقے کے لوگوں پر پتھراؤ کرنا کوئی فرقہ وارانہ جرم نہیں ہے؟ قانون کی نظر میں کارروائی کی بنیاد کیا ہے؟ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، اگرکسی ہندوگروہ پر پتھراؤ ہوتو کیا کارروائی میں یہ سردمہری رہتی ؟صاف سمجھ میں آتا ہےکہ اگرمتاثر مسلمان ہیں، نشانہ مسلمان ہیں تومعاملے کوجس طرح چاہے دبا دیاجائے، جس طرح چاہے اس کی سنگینی کو کم کردیاجائےاور جس طرح چاہے شکایت کنندگان کو خاموش کردیاجائے۔ 
اسی دوران یوگی کی ریاست اتر پردیش کے رام پور کی ایک مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے افطار کا اعلان کرنے پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ ٹانڈہ تھانے کے سید نگر چوکی علاقہ کے مانک پور بجریا گاؤں میں لاؤڈ اسپیکر پر افطار کا اعلان کیاگیا جس کے خلاف ایک ہندو تنظیم نے احتجاج کیا۔ جس کے بعد پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے مسجد کے امام سمیت ۹؍ افراد کو گرفتار کر لیا۔ یہاں صرف لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پرگرفتاری عمل میں لائی گئی اور وہاں پتھراؤ جیسے پُرتشدد اقدام کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پولیس نے مسجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیا ہے اور اس کا کہنا ہے یہ’ نئی روایت‘ ہے جس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ گاؤں کے تقریباً۲۰؍ مسلم خاندانوں کے لوگ اس مسجد کی گزشتہ۱۵؍ سے۲۰؍ برسوں سے خدمت کر رہے ہیں۔ 
یہ واقعات رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئے ہیں اور اندیشہ ہےکہ شمالی ہند کی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات آئندہ بھی سامنے آئیں گےکیونکہ ملک کے اس خطے میں فرقہ واریت بہت گہری ہوچکی ہے۔ منظم طریقے سے ایسا ماحول بنایاجارہا ہےجس میں مساجد و مدارس اور اردو کے خلاف مہم چلائی جا سکے، مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیاجاسکے اورانہیں احساس دلایا جاسکے کہ وہ دوسرے درجے کے شہر ی ہیں۔ اس دوران جنوبی ہند کی ریاست کیرالا سے ایک اچھی خبر بھی آئی جہاں کاسرگوڈ کےایک مندر میں مسلمانوں کیلئے افطار کا ا ہتما م کیاگیا۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جو اور جیسی بھی رمق باقی ہے وہ زیادہ ترجنوبی ہند کی ریاستوں میں ہے۔ شمالی ہندمیں شدیدفرقہ واریت کی لہر ہے اور اس لہرکا مقابلہ صرف مذمتی بیان جاری کرکے نہیں کیا جاسکتا، اس کیلئے ٹھوس مزاحمت ضروری ہے۔ یہ مزاحمت انتظامیہ اورارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے سے کی جاسکتی ہے، نا انصافی کے خلاف منظم احتجاج کے ذریعے کی جاسکتی ہے، فرقہ پرستی کے خلاف ایک مضبوط مہم کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ قانون اور دلائل کا سہارا لے کر کی جاسکتی ہے۔ ہم خیال طبقے کو ساتھ لےکر کی جاسکتی ہے۔ اگرنہیں کی گئی یا کرنے کی ترغیب ہی نہ دی گئی توحالات مزید بگڑنے سے کہاں رکیں گے ! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK