آج اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہمارے نوجوانوں کی زندگی اور زمانے کے لگ بھگ سارے علوم میں پیش رفت جاری ہے۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 4:07 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
آج اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہمارے نوجوانوں کی زندگی اور زمانے کے لگ بھگ سارے علوم میں پیش رفت جاری ہے۔
آج اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہمارے نوجوانوں کی زندگی اور زمانے کے لگ بھگ سارے علوم میں پیش رفت جاری ہے۔ اِن میں سارے علوم اب سائنسی و منطقی نہج سے سمجھے جارہے ہیں۔ اِن میں ایک معاملہ ہے: قیادت یا لیڈرشِپ پروگرام۔ ہمارے یہاں ایک عرصے تک لیڈر شِپ کا مطلب صرف سیاسی قیادت سمجھا جاتا رہا ہے البتہ اب ہمارے نوجوانوں پر یہ واضح ہوتے جارہا ہے کہ قیادت کی ضرورت ہر فیلڈ میں ہوتی ہے۔ یہ قیادت منظم طریقے سے ہوتی ہے، معاشرتی تقاضوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے، انسانی نفسیات اور فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے یہ نوجوان جانتے ہیں کہ قیادت کے درجنوں پہلو ہوتے ہیں۔ ہر ایک اہمیت کا حامل ہے اور کسی سے پہلو تہی ممکن نہیں ہے۔ اپنے کیمپس کے لیڈر شِپ پروگرام کو یہ نوجوان جب معاشرے اور اپنی قوم کی قیادت کی صورتِ حال سے موازنہ کرتے ہیں تو بس غش کھا جاتے ہیں کہ قوم کی لیڈر شِپ کے منشور میں کوئی قاعدہ ہے نہ ضابطہ۔
آئیے آج اسی موضوع پر ہم سر جوڑ کر بیٹھیں۔ عزیز طلبہ! ہم نے اِن کالموں میں بیشتر اوقات حالاتِ حاضرہ پر جو معلومات فراہم کی ہے اُس کے تین اسباب ہیں (۱)تا کہ زندگی اور معاشرے سے آپ کا حقیقی تعارف ہوجائے (۲) مقابلہ جاتی امتحانات میں مضمون نویسی ایک علاحدہ اوراہم موضوع ہے، نیز(۳) اِن امتحانات کے سب سے اہم حصے یعنی انٹرویومیں صرف اپنی معلومات کا مظاہرہ نہیں کرنا ہے بلکہ کسی موضوع پر اپنی رائے اور اپنے نظریے کو منفرد انداز میں پیش کرناہے۔ اُس مرحلے میں اپنے ذہن بلکہ شخصیت کے ہر پہلو کو عیاں کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں ملّی قیادت کے تعلق سے مبسوط، کشادہ یا بے تکلف سوالات یقیناً پوچھے جائیں گے، اسلئے آپ کی اپنی ذہن سازی کیلئے یہ معلومات ضروری ہے تاکہ ملّت کیلئے آپ احسن طریقے سے منصوبہ بندی بھی کرسکیں :
(۱) دوستو! اگر یہ کہیں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ آزادی کے بعد اس ملک میں مولانا آزاد کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قیادت کا خاتمہ ہوگیا۔ اُن کے بعدمسلم کوٹے سے درجنوں افراد وزیر تو بنے مگر اُن میں سے بیشتر ایسے تھے جن کی وفاداری قوم کے بجائے پارٹی سےزیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے کبھی کوئی مِلّی ایجنڈا مرتّب نہیں کیاکیونکہ اُنھیں علم تھا کہ اُس صورت میں اُن کی چھُٹّی ہوجائے گی۔ انہیں پتہ تھا کہ اُنہی کی قوم کے درجن بھردوسرے لیڈران پارٹی کے طرز فکرپر وزیر بننے کیلئے تیارہیں۔
ہم یہاں مولانا آزاد کے حوالے سے قیادت کا تذکرہ کرنا چاہیں گے۔ دراصل کسی فرد میں لڑکپن (اور کچھ میں تو بچپن ہی سے) ذہانت، بُردباری، سنجیدگی، دُوراندیشی، قابلیت، حوصلہ وقوّتِ فیصلہ اور یکسوئی وغیرہ کچھ اس قدر موجود رہتی ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب ان کا شمار ’عظیم شخصیات‘ میں ہونے لگتا ہے۔ اُن افراد کو اگرمثبت خاندانی ماحول مل جاتا ہے تو سونے پہ سہاگہ۔ سبھی جانتے ہیں کہ مولانا آزاد الہلال و البلاغ کے مبلّغ تھے۔ ۱۲؍سال کی عمر میں اُنھوں نے ایک لائبریری قائم کی تھی اور ایک علاحدہ کمرہ مقرر کیا تھا جسے دارُلمطالعہ نام دیا تھا اور ۱۶؍برس کی عمرمیں ’لسان الصدق‘ نامی جریدہ جاری کیا تھا۔ مولانا آزاد کی اہمیت سے بیشتر واقف ہیں لیکن بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے کہ اُن کے والد مولوی خیرالدین بھی۱۲؍کتابوں کے مصنّف تھے۔
(۲)ہمارےیہاں کی نام نہاد قیادت نے اپنے بچّوں کیلئے اور قوم کے بچّوں کیلئے الگ ایجنڈہ رکھا۔ اپنے پڑھاکو بچّوں کیلئے وہ بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجتے رہے اوراپنے نکمّے بچّوں کو اپنا سیاسی وارث بنادیا۔ اور اس وراثت میں کیا دیا؟ اخلاقیات، اُصول، ضوابط، خوف خدا وغیرہ نہیں بلکہ زمین جائداد اور بینک بیلنس۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان میں سے بیشتر ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی وغیرہ کے نرغےمیں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب ایسےلوگ حق کیلئے آواز بلندکرنے کے بارے میں بھلا کیوں کر سوچ سکتے ہیں۔
(۳)اِس نام نہاد قیادت نے قوم کیلئے تعلیم کا کوئی ایجنڈا مرتّب نہیں کیا کیوں کہ اُنھیں پتہ تھا کہ اس موضوع پر اُنھیں ووٹ نہیں ملیں گے۔
(۴) ’’تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائوں میں : خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریائوں میں ‘‘کہہ کر قوم کو جوشیلا و جذباتی بنانے کا فن وہ بخوبی جانتے تھے۔ لگ بھگ آٹھ دہائیوں تک اُس فن کا بھرپور استعمال کیا۔
(۵) دوستو! لگ بھگ تین دہائی قبل عدالت عظمیٰ نے رات کو دس بجے کے بعد عوامی جلسوں پر پابندی عائد کردی۔ اُس سے پہلے پوری پوری رات سیاسی جلسے منعقد ہوا کرتے تھے۔ اُن دِنوں مقرر خاص رات کے دو بجے مائک سنبھالتا اورتالیاں، نعرے بازی وغیرہ فجر تک جاری رہتے۔ اس طرح اس قسم کے جوشیلے و جذباتی اجلاس میں ہمارے نام نہاد قائدین کا سیاسی کریئر بنتا گیا اور قوم کا معیار گرتا گیا۔ بدبختی سے یہ معاشرتی کرپشن اور بدعنوانی آج بھی جاری ہے۔
نوجوانو! آپ نے دیکھا کہ آپ جس لیڈر شِپ کا تصوّر اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔ اُس کا دُور دُور تک تعلق ہماری قوم کی قیادت سے نہیں ہے۔ آپ اگر اس لیڈر شِپ کی رپورٹ تیار کریں گے تو آخر میں اپنے ریمارکس کیلئےیہی الفاظ استعمال کریں گے:’’ پراگندہ، بے ترتیب، منتشر اور غیر مربوط ‘‘۔ اس ضمن میں آئیے مثال کے طور پرہم مُلک کے چند علاقوں میں حجاب کے ضمن میں برپا ہنگامہ اور ہماری ’قیادت‘ کا جائزہ لیں :
(۱)اِن سیاسی قائدین نے کبھی بھی تعلیمی ایجنڈا مرتّب ہی نہیں کیا، اسلئے بدبختی سے مسلمانوں کی مجموعی تعلیمی ترقی دسویں /بارہویں سے آگے بہت کم رہی۔
(۲) دسویں /بارہویں تک کی ساری کامیابیاں بڑی اہم بھی رہیں البتہ اپنی قوم کا ایک بڑا طبقہ اس کو ایک منزل ہی سمجھتارہا، اس کی وجہ سے اگلی پیش رفت پر تعطل طاری رہا۔
(۳) بارہویں کے بعد کے تعلیمی محاذ پر ہر فیلڈکیلئے مقابلہ جاتی امتحانات دستک دیتے ہیں۔ ہماری قوم کے طلبہ تو بیدار ہوگئے اور بے چین بھی مگر قیادت اس تعلق سے بھی غافل رہی۔ اس ضمن میں اِکا دُکا کو چھوڑ کر مجموعی طورپرمسلم قیادت نے پارلیمنٹ میں آواز تک بلند کرنے کی زحمت نہیں کی۔
(۴) میڈیکل اور انجینئرنگ وغیرہ کے داخلہ امتحانات کیلئے ۳۔ ۴؍ ادارے قائم ہوئے مگر بہت معیاری ثابت نہیں ہوئے، اسلئے ہمارے طلبہ کو دوسرے اداروں کا رُخ کرنا پڑا۔
(۵) ہمارے یہاں سول سروسیز کیلئے ایک مہم چلی تو اس کے خوشگوار نتائج بھی سامنے آئے۔ اس میں مدرسے کےفارغین بھی بیوروکریٹ بن گئے البتہ ان کو بھی آخری مرحلے یعنی انٹرویو کی تیاری کیلئے دوسرے اداروں سے رجوع ہونا پڑاکیونکہ اس مرحلے تک کی تیاری کیلئے ہمارے یہاں جتنی ضرورت ہے، اتنا نظم نہیں ہے۔
(۶) ہمارے لیڈروں نے اپنے کرداراور اپنے کلچر کے تعلیمی ادارے قائم کرنا ضروری نہیں سمجھا، اسلئے فرقہ پرستوں نے جب سرکاری اداروں میں سرسوتی وندنا کااور سوریہ نمسکار لازمی قراردینے کی بات کہی تب یہ’ قیادت‘ میدان میں کود پڑی یہ کہتے ہوئے کہ اگر یہ لازمی قرار دیا گیا تو ہم اسکولوں میں اپنے بچّوں کو بھیجنا بند کریں گے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس صورت میں ہم اپنے کردار اور کلچر کے ادارے قائم کریں گے۔
نوجوانو!قوم کی اصل کوتاہی یہ رہی کہ ہم سیاست ہی کو قیادت سمجھتے رہے اور اس میں اخلاص، دور اندیشی اور بصیرت کے فقدان کی بناء پر سیاسی و سماجی بے وزنی کا شکار ہوچلے البتہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس تعطل کو ختم کر نئی قیادت کو ترتیب دیں۔