Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نوجوانو! آپ کے ذریعے ایک نئی، مثبت، سنجیدہ، باشعور و باخبر قیادت ممکن ہے

Updated: March 30, 2025, 1:05 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

نوجوانو! گزشتہ آٹھ دہائیوں کی قیادت کے نتائج کا ہم آپ کو بھرپور مشاہدہ ہے اور تجربہ بھی۔ اب آپ کو نئی قیادت کرنی ہے۔ موجودہ حالات میں اب بھی یہ ممکن ہے؟

Young people! Prepare a list of questions and reasoned answers regarding the misconceptions of non-Muslims about Islam. Photo: INN.
نوجوانو! اسلام کے تعلق سے غیر مسلموں کی غلط فہمیوں کے تعلق سے سوالات اور اُن کے مدلل جوابات کی ایک فہرست تیار کیجئے۔ تصویر: آئی این این۔

آج ہمارے ملک میں ہر فکر مند اور انصاف پسند شہری یقینی طور پریہاں کے مستقبل کے ضمن میں متفکر ہے کیونکہ معیشت ڈوب رہی ہے، ترقی کا پہیہ اُلٹا گھوم رہا ہے اور اہلِ اقتدار صرف اس نشے میں چُور ہیں کہ ہر الیکشن کے وقت مذہبی منافرت کا ماحول تیار کیا جائے تو الیکشن جیتا جاسکتا ہے، اس شدید مایوس کن ماحول میں اب ہمارے نوجوان کیا کریں ؟ 
ہمارے مِلّی اکابرین سے رہنمائی لیں ؟
اس ملک میں حکمت عملی کیلئے کیا نوجوانوں کو یہ مشورہ دیں کہ وہ ہمارے ملی اکابرین سے رہنمائی حاصل کریں ؟ لگ بھگ آٹھ دہائیوں کے ریکارڈ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم نئی نسل کو ہرگز مشورہ نہیں دیں گے کہ اب وہ کسی نام نہاد روایتی قیادت کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ ہمارا خواب ہے کہ ہمارے نوجوان قوم کی قیادت کو سنبھالیں۔ 
ہماری یہ نئی قیادت کیسی ہو، ملاحظہ فرمائیں۔ 
(۱) نوجوانو! اس حقیقت کو سمجھئے کہ جغرافیائی لکیروں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ یہ تاریخ مرتّب کرتی ہیں۔ غالباً ہمارے بڑوں کو علم نہیں تھا، شاید اسی لئے یہ قوم منقسم ہوتی چلی گئی۔ 
(۲) نوجوانو! ہمیں اس کا بھرپور احساس ہونا چاہئے کہ جمہوریت میں صرف انسان (جمہوریت میں انسان کا مطلب ہے :ووٹ) گِنے جاتے ہیں اس لئے ہمیں اپنی حکمت عملی میں ایک دانشمندانہ تبدیلی لانی ہے۔ پوری طرح سے فرقہ پرستی کے زہریلے ماحول میں بھی یاد رکھئے کہ ابھی بھی کئی افراد ایسے ہیں جو حق کا ساتھ دینے خاموشی سے ہمارے ساتھ آئیں گے اور پھر حق و انصاف کیلئے ہمارے ساتھ آوازبھی بلند کریں گے۔ موجودہ لنچنگ اور لوجہاد وغیرہ کے ماحول میں بھی یقیناً اکثریتی فرقے کے اچھے خاصے لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے۔ 
(۳) ملّت کے قائد بننے کا سلسلہ مولانا آزاد کے ساتھ ہی ختم ہوگیا، اُن کے بعد ہماری قوم ہمارے سیاسی لیڈران کو قائد سمجھتی رہی البتہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن میں خلوص اور بے غرضی کا مکمل فقدان تھا اس لیے اُن میں سے ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی پارٹی کا وفادار تھا اور اپنی سیاسی پارٹی کے ہائی کمان کا غلام۔ ان میں سے اکثر صرف اپنا سیاسی کریئر اور اس سے زمین جائیداد اور دھن دولت بناتے رہے۔ اسی بناء پر وہ لیڈران ای ڈی /انکم ٹیکس اور ساری سرکاری تفتیشی ایجنسیوں سے خائف رہتے ہیں اور برسرِاقتدار کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے اُن کے پاس قوم کا کوئی ایجنڈا نہیں رہتا، اُن کاواحد ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اپنی دھن دولت کو کیسے محفوظ رکھیں اور اُس میں مزید کیسے اضافہ کریں۔ ان لیڈران کو اپنا رول ماڈل بنانے کا مشورہ ہم ہماری نئی نسل کو نہیں دے سکتے۔ 
(۴) ہم بڑی ذمہ داری سے یہ لکھ رہے ہیں کہ ہماری ملّت کے قائدین کو ہماری ترجیحات کا علم نہیں۔ حصولِ علم ہماری تمام تر ترجیحات میں سرِ فہرست ہونا چاہئے۔ اس کا اعتراف تو وہ ہر محفل میں کرتے ہیں مگر عملی اقدامات ندارد ہیں۔ جب جب فرقہ پرستوں کی جانب سے کبھی حجاب کے خلاف، کبھی سرسوتی وندنا کے حق میں شر انگیزی ہوتی ہے تب تب ہمارے اکابرین کی جانب سے عجیب وغریب اعلانات ہوتے ہیں کہ اگر یہ فتنے بند نہیں ہوئے تو ہم بچّوں کو اسکول بھیجنا بند کریں گے۔ نئی نسل اُن سے اس اعلان کی اُمید کرتی ہے: ’’اگر حجاب پر پابندی ہوئی اور نصاب میں فرقہ پرستی عام ہوتی گئی تو ہم اپنے تعلیمی اِدارے خودقائم کریں گے جس کی اجازت ہمیں آئین ہند نے دی ہے۔ ‘‘ بچّوں کو تعلیم سے محروم کرنے کا اعلان کیا معنی رکھتا ہے؟ فرقہ پرست یہی تو چاہتے ہیں۔ 
نئی قیادت کی تشکیل ممکن ہے
نوجوانو! گزشتہ آٹھ دہائیوں کی قیادت کے نتائج کا ہم آپ کو بھرپور مشاہدہ ہے اور تجربہ بھی۔ اب آپ کو نئی قیادت کرنی ہے۔ موجودہ حالات میں اب بھی یہ ممکن ہے؟ بے شک ہے، راستے اب بھی مسدود نہیں، اس سے بُرے حالات ہمارے پیغمبرؐ کے دَور کے تھے۔ آج ہم اقلیت ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ تصوّر کیجئے اُ س اقلیت کا جب مٹھی بھر صحابہ ایک ریگستان میں مکمل کفر والحاد کے ماحول میں انتہائی بے سروسامانی میں توحید کا پرچم لہراتے کھڑے رہتے تھے۔ آپ کو کیا کرنا ہے:
(۱) سب سے پہلے یہ جان لیجئے اور مان لیجئے کہ کوئی ہمارا دشمن نہیں ہے۔ انتہائی فرقہ پرست افراد بھی نہیں ، وہ صرف مدعوہیں ، ہمیں انہیں حق کی دعوت دینی ہے۔ اس لنچنگ اور بلڈوزر کے دَور میں بھی؟ جی ہاں اور اس دَور کا ایک ہی نام ہوسکتا ہے اور وہ ہے: آزمائشی دَور۔ 
(۲) نوجوانو! آج شرپسندوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کو بہکانے اور بھڑکانے کا آسان نسخہ ہاتھ آیا ہے۔ اُس کے ذریعے ہمارے پیغمبرؐ اور صحابہ وغیرہ کی تضحیک کی جاتی ہے، کبھی کارٹون بنائے جاتے ہیں اور پھر آپ لوگ جوش میں آجاتے ہیں یا آپ کو احتجاج کیلئے اُکسایا جاتا ہے۔ پھرپولیس اور حکومت کا ظلم و ستم شروع ہوجاتا ہے، ایک طرفہ گرفتاریاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ اب ہمارے اکابرین میں سے کسی کو موقع مل جاتا ہے ریلیف کمیٹیاں قائم کرنے کا اورکسی کو قوم کا لیڈر بننے کا۔ آ پ کو دو اہم باتیں یاد رکھنی ہیں : 
(الف) سورہ الحجر کے مطابق اللہ نے قرآن اُتارا ہے اور اسی نے اسکی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، (ب) سورہ یٰسین کے مطابق ہر دَور میں پیغمبروں کا مذاق اُڑایا گیا ہے لہٰذا تمام تر شرانگیزی کے باوجود قرآن پر کوئی آنچ نہیں آئیگی۔ 
(۳) نوجوانو! آپ کو اُن سارے افراد سے باخبر رہنا ہے جو آپ کو اشتعال دِلاتے ہیں، صر ف مسائل کی بات کرتے ہیں، حل کی نہیں۔ ملاحظہ کیجئے اس قسم کی باتوں کو، تحریروں کو، ویڈیو پوسٹ کو:’’اس ملک میں مسلمانوں کو امن و چین سے رہنے نہیں دیا جائے گا۔ ہمار امستقبل بالکل تاریک ہے، حکومت سے لے کر عدلیہ سب ہمارے دشمن ہیں۔ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ‘‘ مایوسی، یاسیت اور فرسٹریشن سے بھری ان تحریروں کو ٹھکرادیجئے۔ پھر اُن افراد سے پوچھ لیجئے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ کبھی جواب نہیں دینگے۔ وہ آپ کو اشتعال دلارہے ہیں بلکہ ڈھکے چھپے نہیں کھلے الفاظ میں آپ کو تشدد پر اُکسارہے ہیں۔ اِن لوگوں کا بائیکاٹ کیجئے، ہماری صفوں میں چھپی یہ کالی بھیڑیں بھی آپ کے اُتنے ہی بڑے دشمن ہیں جتنے اس ملک کے فرقہ پرست عناصر!
(۴) کالج میں یا کہیں پر بھی کسی بھی غیر مسلم کے عقیدے پر حملہ نہ کریں کیونکہ کتابِ مبین میں اللہ کی اس سلسلے میں رہنمائی ہے کہ نادانی میں وہ آپ کے دین کا مذاق اُڑائینگے۔ 
(۵) نوجوانو! آج آپ دیکھتے ہیں کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا میں ہمارے چند نام نہاد دانشوروں کو بحث و مباحثہ کیلئے بُلایا جاتا ہے اور اپنی کم علمی کی بناء پر وہ اپنے ہی دین کا مذاق بناتے ہیں، لہٰذاآپ کے کریئر و کورس کے نصاب میں یہ شامل ہے یا نہیں، آپ اسلام کے تعلق سے غیر مسلموں کی غلط فہمیوں کے تعلق سے سوالات اور اُن کے جوابات کی ایک فہرست تیار کیجئے اور ایسے سوالات بمشکل ۲۰؍تا ۲۵؍ہی ہیں۔ آپ یقین رکھئے کہ غیر مسلم حضرات آپ کے مدلّل جوابات سننے کے خواہاں ہیں۔ 
(۶)نوجوانو! دین اسلام و دیگر مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا مطالعہ کیجئے جس سے خوشگوار ماحول تیار ہوسکتا ہے۔ 
(۷) اس ملک کے راجہ اور بادشاہ کے سیاسی ٹکرائو کے ضمن میں بھی کچھ ’ہوم ورک‘ کرلیجئے لہٰذاشیواجی اور مہارانا پرتاپ کی فوج کے مسلم افسران اور اکبر و اورنگ زیب کی فوج کے مراٹھے اور راجپوت افسران کے سارے نام یاد کرلیجئے۔ 
(۸) ’اسلام اور مسجد پریچئے‘پروگرام کا انعقاد کرتے رہئے۔ 
(۹) نوجوانو! زیادہ سے زیادہ زبانوں کو سیکھئے۔ دین کا تعارف دوسری قوموں کی زبانوں میں پہنچانے کا لطف ہی کچھ اور ہے اور اس کے مثبت نتائج لگ بھگ یقینی ہیں۔ 
نوجوانو! مندرجہ بالا اقدامات سے اس قوم کیلئے نئی، مثبت اور سنجیدہ قیادت کی تشکیل بالکل یقینی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK