• Wed, 25 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ نےانصاف پسند ہم وطنوں کے اعتراضات کا نوٹس لے کراچھا پیغام دیا

Updated: November 17, 2024, 4:21 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

وطن عزیز کی مختلف ریاستوں میں جاری `بلڈوزر انصاف ` نے عام تاثر یہ دیاہے کہ اب ملک کو عدالتوں کی ضرورت ہے، نہ ہی انصاف کرنے والے جج درکار ہیں، اسلئے عدالتوں کو مقفل کردینا چاہئے۔

The oppressed and politically marginalized sections have got a lot of relief from the above decision of the Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے مظلوم اور سیاسی حاشئے پر موجود طبقے کو کافی راحت ملی ہے۔ تصویر : آئی این این

وطن عزیز کی مختلف ریاستوں میں جاری `بلڈوزر انصاف ` نے عام تاثر یہ دیاہے کہ اب ملک کو عدالتوں کی ضرورت ہے، نہ ہی انصاف کرنے والے جج درکار ہیں، اسلئے عدالتوں کو مقفل کردینا چاہئے۔ کئی ریاستوں بالخصوص بی جے پی کے زیر اقتدار والی حکومتیں کھلے طور پر قانون شکنی پر اُتر آئی ہیں۔ اتر پردیش سے شروع ہونے والا بلڈوزرراج راجستھان، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، مہاراشٹر تک پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے متعدد مرتبہ بلڈوزر کارروائی کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو تنبیہ کی کہ کوئی بھی انہدامی کارروائی صرف قانون کے اصولوں کے مطابق ہی ہو۔ اس کے باوجودبلڈوزرکارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک بار پھر سپریم کورٹ نےبلڈوزر کارروائیوں کو قانون کی حکمرانی کے تحت ناقابل قبول بتاتے ہوئے ملک گیر طور پر کچھ رہنما خطوط جاری کئے ہیں۔ 
مخصوص کمیونٹی کو ٹارگیٹ بنانےکا رویہ اچھا نہیں تھا
 مراٹھی اخبار ’لوک مت‘ نے ۱۴ نومبر کو اداریہ لکھا ہے کہ’’کئی ریاستوں میں مذہبی منافرت سے جنم لینے والے نام نہاد’بلڈوزر انصاف‘کو بالآخر سپریم کورٹ نے انتہائی سخت الفاظ میں خارج کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف غیرقانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کے خلاف بلکہ ایک مخصوص کمیونٹی کو ٹارگیٹ بنانے کے رویہ پر بھی سخت اعتراض جتایا ہے۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کے بنچ نے بدھ کو اس سلسلے میں دائر کردہ درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عام آدمی کے خوابوں کے ساتھ ساتھ فوجداری نظام ِانصاف پر گہرائی سے روشنی ڈالی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سر پر چھت، ذاتی مکان، ایک ایسا خواب ہے جسے بہت سے لوگ ساری زندگی دیکھتے ہیں اور اسے پورا کرنے کے کیلئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ گھر نہ صرف خاندان کے سربراہ کا واحد خواب ہوتا ہے بلکہ خاندان کے تمام افراد کی اجتماعی سلامتی بھی اس میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پورے خاندان کے سر سے چھت صرف اس لئے چھین لے کہ اس خاندان کے کسی فرد نے کوئی جرم کیا ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی شروعات اتر پردیش سے ہوئی تھی۔ مجرموں کو سخت پیغام دینے والا وزیر اعلیٰ کہلائے جانے کے زعم میں یوگی آدتیہ ناتھ نے متوازی انصاف کا یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ بعد میں دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اسی طرح قانون کو ہاتھ میں لینے کا کام کیا۔ چونکہ یہ قرون وسطیٰ کے متوازی نظام ِانصاف کی ایک شکل تھی، جس میں کسی ایک جرم کیلئے پورے خاندان یا گروہ کو قصوروار ٹھہرانا شامل تھا۔ اسلئے انصاف پسند اور باشعور ہم وطنوں نے اس بلڈوزر انصاف کی سخت مذمت کی اور پوچھا کہ اس پر عدالتیں کیوں خاموش ہیں ؟اب سپریم کورٹ نے انصاف پسند ہم وطنوں کے اعتراضات کا نوٹس لیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایک نو عمر گینگسٹر جوخود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگاہے

سپریم کورٹ کا سخت ایکشن قابل تعریف ہے
 مراٹھی اخبار’سکال‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ سپریم کورٹ نے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بے لگام ہوئے `بلڈوزر راج ` کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومتوں اور ان کے عہدیداروں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ چارشیٹ اور عدالتی عمل شروع ہونے سے پہلے ملزم کو خاطی گردانتے ہوئے اس کے گھر پر بلڈوزر چلانا سراسر زیادتی ہے۔ افسران قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ گھر کو آرٹیکل ۲۱ ؍کے تحت انسان کی بنیادی ضرورت تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر کوئی افسر قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی کا گھر محض اسلئے منہدم کردے کہ وہ ملزم ہے، تو یہ سراسر غیرقانونی ہے۔ کسی شخص کو کسی جرم میں گرفتار کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر اس کے گھر کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر کارروائی انجام دی جانے لگی تھی۔ عام طور پر ایسی کارروائیاں اقلیتی فرقے کے خلاف ہوئی ہیں۔ اس پر مختلف حلقوں سے شکایتیں موصول ہونے کے باوجود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نےخود کو `بلڈوزر بابا ` کہلوانا پسند کیا۔ ان کے دور میں اتر پردیش میں تقریباً ۲۰۰۰؍ملزمین کے خلاف بلڈوزر کارروائی کو انجام دیتے ہوئے۱۵۰۰؍ سے زائد مکانات اور دکانوں کو منہدم کیا گیا۔ ’بلڈوزر انصاف‘ کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا کہ یہ یوپی سے نکل کر اتراکھنڈ، ہریانہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور دہلی تک پہنچ گیا۔ مذکورہ ریاستوں نے یوگی کی طرح ملزمین کے گھروں پر بے دریغ بلڈوزر چلائے۔ دہلی کے شاہین باغ اور جہانگیر پوری کی دکانیں اور مکانات بھی بلڈوزر کارروائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ ’بلڈوزر انصاف‘ اتنا اندھا اور متعصب تھا کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تعمیر کئے گئے مکانات کو بھی راتوں رات منہدم کردیا گیا اورشمالی ہند کے کئی بڑے ٹی وی چینلوں کے اینکر بلڈوزر پر بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے لگے۔ ‘‘
بلڈوزرکارروائیوں پر پابندی ضروری تھی
 ہندی اخبار ’نو بھارت ٹائمز‘ نے ۱۴؍ نومبر کو اداریہ لکھا ہے کہ’’ ملک کے مختلف حصوں میں شروع ہونے والے نام نہاد’بلڈوزر انصاف‘ کے نئے رجحان میں موجود خطرات کے پیش نظر سپریم کورٹ نے بجا طور پر اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس حوالے سے بدھ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ یقیناً انتہائی سخت فیصلوں کے زمرے میں آئے گا، لیکن یہ سختی ضروری تھی۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار شروع ہونے کے بعد یہ رجحان تیزی سے پھیل رہا تھا۔ کئی ریاستوں میں اسے جرائم پیشہ عناصر پر قابو پانے کاموثر طریقہ سمجھ لیاگیا۔ گرچہ اسے غلط اور ناقابل قبول کہنے والے بھی کم نہیں تھے۔ ’بلڈوزر راج‘ سے نہ صرف قانونی پہلو متاثر ہورہے تھے بلکہ آئین کے ذریعہ شہریوں کو دیئے گئے حقوق بھی پامال ہورہے تھے۔ سپریم کورٹ نے ان پہلوؤں کو دھیان میں رکھتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ انصاف کرنے کے رجحان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ انتظامیہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرگیا ہے۔ 
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے
 انگریزی اخبار’دی انڈین ایکسپریس‘لکھتا ہے کہ’’حکام کے ذریعہ انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کئے بغیر بلڈوزر کے ذریعہ عمارتیں منہدم کرنا، لاقانونیت کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی تجاوزات کا بہانہ بنا کر مخصوص فرقے کے خلاف انہدامی کارروائی کرنے کے عمل کو غیرآئینی قرار دیا ہے۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوا ناتھن کے بنچ نے واضح طور پر نشاندہی دہی کہ کسی بھی فرد کا گھر محض اس بنیاد پر مسمار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملزم ہے۔ مکان کو گرانے سے قبل تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ عدالت نے ذاتی نوٹس اور اپیل کیلئے وقت فراہم کرنے سمیت جائیدادوں کو مسمار کرنے کیلئے رہنما اصول بھی وضع کئے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جو اہلکار عدالتی فرمان کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے ان کو اپنے ذاتی خرچ سے مسمار کی گئی عمارت کو تعمیر کرنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کا قدرتی انصاف کےبنیادی اصولوں کا اعادہ اور دفاع خوش آئند اور ضروری ہے۔ تاہم جن لوگوں کے مکانات کو منہدم کیا جا چکا ہے ان کیلئے بہت دیر ہوچکی ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومتوں کی من مانی کارروائی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جائیداد کی مسماری سے قبل نوٹس دینا ضروری ہوگا۔ تاہم سرکاری اراضی، آبی ذخائر، سڑکوں اور ریلوے پر موجود غیرقانونی تعمیرات پر کارروائی حق بجانب ہوگی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK