Inquilab Logo Happiest Places to Work

سورۃ الفاتحہ محض ایک دُعا نہیں، یہ منشورِ توحید ہے

Updated: April 25, 2025, 4:04 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

یہ ایسا آئینہ ہے جس میں انسان اپنے اصل مقام کو پہچانتا ہے۔

Real success lies solely in a person recognizing their Lord, serving Him, and seeking His help. Photo: INN
اصل کامیابی صرف اور صرف اس میں ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اسی کی بندگی کرے، اور اسی سے مدد مانگے۔ تصویر: آئی این این

ایک انسان ظاہری طور پر آزاد ہے، اس کے پاس مال و دولت ہے، شہرت ہے، اختیار ہے، وہ بظاہر کسی کا غلام نہیں، لیکن اس کا دل، اس کا ذہن، اس کی چاہتیں، اس کے فیصلے سب کسی نہ کسی مخلوق کے تابع ہیں۔ وہ لوگوں کی رائے کا اسیر ہے، معاشرے کی توقعات کا غلام ہے، شہرت کے پیچھے بھاگتا ہے اور اپنے مفادات کی پوجا کرتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کے بت کو سجدہ کرتا ہے اور اس کے فیصلوں کا مرکز و محور اللہ نہیں بلکہ خود اس کی نفس پرستی، سماجی دباؤ اور دنیوی اغراض ہیں۔ یہ انسان آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔دوسری طرف ایک اور شخص ہے، وہ بظاہر دنیا کی نظر میں محدود، کمزور، وسائل سے محروم ہے، مگر اس کی پیشانی صرف اللہ کے حضور جھکتی ہے، وہ صرف اسی کی رضا کا طالب ہے، وہ کسی باطل نظریے، کسی فاسد اقتدار، کسی خود ساختہ خدا یا نظام کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ جیل میں بھی ہو تو روح آزاد ہے، وہ بے مال ہو تو دل غنی ہے۔ یہ ہے وہ غلام، جو حقیقت میں آزاد ہے۔
یہ وہ اعلان ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے آگ کے الاؤ میں کیا، حضرت موسیٰؑ نے فرعون کے سامنے، اور حضرت محمد ﷺ نے کفار و مشرکین کے سامنے۔ یہ ہر وہ صدا ہے جو روح کو جکڑنے والی ہر زنجیر کو توڑ ڈالتی ہے۔
قرآن مجید کی پہلی سورہ سورۃ الفاتحہ محض چند آیات پر مشتمل ایک ابتدائی تمہید نہیں، بلکہ یہ پوری اسلامی فکر و تہذیب کا منبع اور اساس ہے۔ یہ ایک ایسی فکری، روحانی اور عملی تمثیل ہے جس میں عبد اور معبود کے ازلی و ابدی رشتے کو نہایت لطافت، گہرائی اور معنویت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں وہ حقائق پنہاں ہیں جن پر نہ صرف اسلام کی فکری عمارت استوار ہے بلکہ انسانی روح کی تسکین اور فطرت کی گم گشتہ صدا بھی گونجتی ہے۔
اسلام عبدیت کا دین ہے، اور عبدیت محض ظاہری اطاعت یا عبادات کی رسموں کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ حیات، ایک ہمہ جہت تسلیم و انقیاد (فرمانبرداری)، اور ایک قلبی وابستگی و روحانی فنا کا نام ہے۔ الذاریات کی آیت ۵۶: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں ‘‘ میں اس عظیم مقصد ِ تخلیق کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا وجود محض عبد بننے کیلئے ہےیعنی ایسا بندہ جو اپنے ارادے، خواہش، عقل، جذبات، محبت، خوف، امید اور عمل سب کچھ اپنے رب کی رضا کے تابع کر دے۔
سورۃ الفاتحہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی معبودیت کو اس کی ربوبیت، رحمت اور عدل کے تین اساسی پہلوؤں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے: 
’’سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے ‘‘یعنی ہر وجود کا آغاز و انجام اسی سے وابستہ ہے۔’’نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے ‘‘ جس کی رحمت ہر شے کو محیط ہے، چاہے وہ مانے یا نہ مانے اور ’’روزِ جزا کا مالک ہے۔‘‘
یہ صفاتِ ربانی اس حقیقت کی دلیل ہیں کہ صرف اللہ ہی معبود ہے، اور باقی تمام جھوٹے معبود اپنی الوہیت کے کسی پہلو پر پورا نہیں اترتے۔ وہ نہ خالق ہیں، نہ رازق، نہ مالک اور نہ حاکم؛ چنانچہ وہ عبادت کے ہرگز مستحق نہیں ہو سکتے۔ لیکن سورۃ الفاتحہ کا جوہر اور مرکز وہ جملہ ہے جو گویا پوری عبدیت و معبودیت کے فلسفے کا خلاصہ ہے: ’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔‘‘ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس میں عبودیت کی انتہا اور توحید کی معراج سمٹ آئی ہے۔ ایاک کی تقدیم اس بات پر زور دیتی ہے کہ عبادت خالصتاً تیرے ہی لئے ہے؛ نہ کسی ولی کے لئے، نہ کسی پیغمبر کے لئے، نہ کسی طاقت، دولت یا فکری بت کے لئے۔یہ محض اور محض اللہ کی ذات کے لئے ہے۔
نعبد ایک جامع تصور ہے: اس میں عشق، خشیت، اطاعت، فنا، انقیاد اور قرب سب مجتمع ہیں۔ یہ نہ صرف جسمانی اعمال کا اظہار ہے بلکہ ایک قلبی انقلاب کا اعلان ہے۔ نستعین اس عبد کی فطری کمزوری اور محتاجی کا اعتراف ہے، جو اپنے پروردگار سے استعانت کے بغیر ایک لمحہ بھی راستہ نہیں پا سکتا۔یہی عبدیت ہے جو انسان کو ہر غیر اللہ کی غلامی سے آزاد کرتی ہے اور اسے صرف اللہ کی بندگی میں داخل کرتی ہے۔ یہ فکری، روحانی اور سماجی آزادی کا اعلان ہے؛ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو قلب و روح کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے اور زندگی کے ہر گوشے میں ایک نئی معنویت پیدا کرتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ محض ایک دعا نہیں، یہ منشورِ توحید ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسان اپنے اصل مقام کو پہچانتا ہے۔ یہ سورہ ہمیں سکھاتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت، فلسفہ، نظریہ، نظام یا تہذیب اس وقت تک ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی جب تک ہم ’’صراط المستقیم‘‘ کے طلبگار نہ بنیں یعنی وہ راہ جو ان لوگوں کی ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا، نہ کہ ان کی جنہوں نے غضب کو دعوت دی یا جو گمراہی میں بھٹک گئے۔
عصرِ حاضر میں انسانیت سائنسی کمالات، مادی ترقی، اور فکری آزاد خیالی کے باوجود جس بے سکونی، اخلاقی پستی، روحانی خلا اور ذہنی انتشار کا شکار ہے، اس کا واحد علاج سورۃ الفاتحہ کے اس فلسفۂ عبدیت و معبودیت میں مضمر ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی نہ ٹیکنالوجی میں ہے، نہ سرمایہ داری میں، اور نہ ہی لذت پرستی میں ؛ بلکہ وہ صرف اور صرف اس میں ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اسی کی بندگی کرے، اور اسی سے مدد مانگے۔اگر آج کا انسان اس سورہ کو شعور، تدبر اور خلوص کے ساتھ اپنے دل میں اتار لے، تو نہ صرف اس کی ذات میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے، بلکہ وہ دنیا کے لیے بھی ہدایت کا مینار بن سکتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ ایک ازلی صدا ہے، ایک دعوتِ عبدیت، ایک اعلانِ معبودیت، اور ایک پیمانِ بندگی۔ جو اس صدا کو سن لیتا ہے، وہ راہ پا لیتا ہے۔
 کیا میں واقعی آزاد ہوں ؟ یا کسی باطل معبود کا غلام؟ یہی سوال اگر دل میں چنگاری بن جائے، تو عبدیت کی روشنی انسان کو حقیقی نجات کی طرف لے جا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK