اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے پناہ مصائب و شدائد برداشت کرتے چلے آئے تھے لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی بڑے زور و شور سے شروع ہو گئی اور یہ تھی ’’منافقت‘‘۔ زیرنظر مضمون میں منافقین کی اقسام اور ان کی مختصر تاریخ کو پیش کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے پہلی قسط:
قرآن مجید وہ کلام ہے جس میں ہر دور کے لئے اور ہر انسان کے لئے رہنمائی ملتی ہے۔ تصویر : آئی این این
ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو یہودیوں سے سابقہ پڑا۔ یثرب کے اصلی باشندے گو کہ انصار تھے لیکن عملاً اس علاقے کے اقتدار پر یہود کا قبضہ تھا۔ تجارت و زراعت پر انہی کا تسلط تھا۔ تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے بھی یہ زیادہ مستحکم تھے۔ الغرض مذہب، معیشت اور سیاست کے میدان میں یہود کا سکہ رواں تھا۔ یہ بنیادی طور پر کافر نہ تھے بلکہ اہل کتاب میں سے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کو اس وقت تقریباً ۱۹؍ سو سال گزر چکے تھے۔ تورات لفظاً و معناً ہر طرح محرف ہو چکی تھی بلکہ اس سے پہلے اور بعد کی آسمانی کتابیں اور صحیفے بھی تحریف کا شکار ہو چکے تھے۔ سب کے عقائد مسخ ہو گئے تھے۔ ان میں غیر الہامی، باطل خیالات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ دین ِ حق اور نبوت کو انہوں نے نسل اسرائیل کی وراثت سمجھ رکھا تھا۔ یہودیت پر انہیں بہت ناز تھا اور اسی نسلی تفاخر اور متعصبانہ زعم نے انہیں گمراہی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ جو تعلیمات الٰہیہ جس قدر بھی صحیح صورت میں موجود تھیں ان کا اخفاء اور خود تراشیدہ تاویلات کے ذریعے ان کی معنوی تحریف ان کا شیوہ تھا۔
مزید برآں ان کے علماء اور سردار بھی اعتقادی گمراہی کے علاوہ عملی تباہی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ حق پوشی، خود پسندی اور مفاد پرستی کے باعث نہ وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار تھے اور نہ ہی کسی ہادی و رہنما کی بات سننے کو، بلکہ راہِ حق کی طرف بلانے والوں کا تمسخر، ان کی مخالفت و مزاحمت اور ان کے خلاف سازش و کینہ پروری ان کی سیرت کا جزو لا ینفک بن چکی تھی۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسی بگڑی ہوئی اُمت تھی جس کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی کوئی صورت ظاہراً نظر نہیں آتی تھی کیونکہ یہ لوگ اپنی تمام علمی، اعتقادی، عملی اور اخلاقی خیانتوں کے باوجود خود کو سب سے بڑا دین دار، دانش مند، ہدایت یافتہ اور بخشش کا مستحق طبقہ تصور کرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے خدا کے انعام کو ٹھکرا کر اس کے غضب کو دعوت دی تھی اور نتیجتاً تمام نعمتوں سے محروم ہو چکے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سب سے پہلے ان کی اصلاح اور ان کے اعتقادی اور عملی بگاڑ کے اثرات کو زائل کرنا تھا کیونکہ مدینہ میں سب سے زیادہ ذی اثر اور ذی حیثیت لوگ یہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تعلیمات کا بیشتر حصہ یہود ہی سے متعلق ہے۔ عامۃ الناس اور ملت اسلامیہ کیلئے بھی ان مخصوص تعلیمات کی اہمیت کچھ کم نہیں کیونکہ یہودیت صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل ذہنیت بن چکی ہے جس کا مشاہدہ ہم آج بھی مختلف کرداروں کے روپ میں کر سکتے ہیں ۔
مدنی دور میں منافقین کا طبقہ بھی نمایاں طور پر معرضِ وجود میں آ گیا تھا۔ اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے پناہ مصائب و شدائد برداشت کرتے چلے آئے تھے لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی بڑے زور و شور سے شروع ہو گئی اور یہ تھی ’’منافقت‘‘۔ کچھ لوگوں نے زبان سے اقرار کر لیا، ظاہراً اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے اور مسلمانوں کے ہمراہ اسلامی تحریک میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے لگے لیکن یہ لوگ فی الحقیقت ’’منافق‘‘ تھے۔ یہاں واضح رہے کہ منافقین بھی کئی اقسام کے تھے:
منافقین کی اَقسام
(۱) پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہٰذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔
(۲) دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔
(۳) تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے لیکن مخالفین ِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں ۔
(۴) چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنے سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے۔ وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔
(۵) پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھتے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔
(۶) چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں ۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:
’’اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں o وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہےo ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھےo اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں : ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں o آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں ) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں o اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں ، تو کہتے ہیں کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بے وقوف ایمان لے آئے، جان لو بے وقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں o اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں ، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں o اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں ) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں o یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھےo ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں ) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتےo یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گےo یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہےo یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں ) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں ، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (البقرة:۸؍تا۲۰)
سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں دو گرہوں کا بیان تھا۔ ایک مومنین و متقین کا اور دوسرا کفار و منکرین کا۔ پہلا گروہ دل و دماغ اور قول و عمل ہر طرح سے ایمان لانے والوں پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ ظاہراً و باطناً ہر طرح سے اسلام کا انکار کرنیوالوں پر۔
یہاں سے تیسرے گروہ کا بیان شروع ہو رہا ہے جو گروہ منافقین ہے۔
آیت نمبر۸؍ اور ۹؍ میں منافقت کی دو علامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اُس کی تصدیق سے خالی ہونا
ان آیات کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کا قول ایمان زبان کے اقرار کی حد تک ہے مگر دل کی تصدیق سے محروم ہے۔ اس بیان سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بات محض زبان سے کہی جائے دل اس کی تصدیق و تائید نہ کر رہا ہو تو یہ منافقت کی سب سے پہلی پہچان ہے۔ خواہ کہی ہوئی بات خدا و آخرت پر ایمان لانے کی ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایسی پاکیزہ بات کا، جو اسلام اور ایمان کا اصل الاصول ہے صرف زبان سے ادا ہونا خدا کے ہاں منافقت ہے تو زندگی کے عام معاملات میں باہمی گفتگو اور تعلقات کا یہ انداز منافقت کیوں نہ قرار پائے گا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے شب و روز کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم جس کسی سے جو کچھ بھی کہتے ہیں کیا دل سے کہتے ہیں یا محض زبان سے۔ اگر دل کی کیفیت ہماری زبان کی ہمنوا نہ ہو تو زبان میں تاثیر کہاں سے آئے اور اس منافقانہ رویہ زندگی میں برکت و نتیجہ خیزی کہاں سے پیدا ہو؟
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت ِ محمدی پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا
دوسری علامت جس کا اشارہ ان آیات کے ظاہر عبارت سے ملتا ہے وہ رسالت محمدیؐ کی نسبت سوء ظن ہے کیونکہ منافقین کے دعویٔ ایمان کی طرف جو الفاظ منسوب ہوئے ہیں ان میں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے، ایمان بالرسالت کا نہیں کیونکہ منافقین کو اصل عداوت اور بغض و عناد حضورﷺ کی ذاتِ گرامی سے تھا جس کے باعث ان کے مفاد پرستانہ عزائم خاک میں مل گئے تھے۔ اس لئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا ظاہری اعلان بھی کرتے تو اس انداز سے کہ گویا خدا اور آخرت پر ایمان ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ رسول اکرم ؐپر ایمان غیر ضروری تصور کرتے تھے۔ اس لئے یہاں قرآن مجید میں ان کے دعویٔ ایمان کے مذکورہ الفاظ ایمان بالرسالت کے ذکر سے خال ہیں جب کبھی یہ منافقین حضور ﷺ کی رسالت کا ظاہراً اقرار بھی کرتے تو یہ اقرار بھي سچا نہ ہوتا بلکہ دل کے انکار اور تعصب و عناد کے باعث سراسر جھوٹ ہوتا جس کا ذکر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں یوں آیا ہے:
’’جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ یقیناً اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘
اس اعلان خداوندی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منافق فی الواقع حضور اکرم ﷺ کی رسالت کے قائل نہ تھے اور جو کوئی ثبوت ان کے اقرار رسالت کی نسبت ملتا ہے وہ قرآنی وضاحت کے مطابق محض جھوٹ اور مکر و فریب تھا۔ اس جگہ بھی رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو گھٹاتے بلکہ نظر انداز کرتے ہوئے وہ اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعوی کر رہے ہیں جس کا جواب قرآن نے وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ میں دیا ہے کہ جو لوگ پیکر رسالت ؐ پر صحیح ایمان کے بغیر خدا و آخرت پر ایمان لانے کی بات کرتے ہیں ، ان کا دعویٔ ایمان باطل اور مردود ہے اور وہ منافق ہیں ۔ کیونکہ رسول اکرم ؐکی ذات گرامی پر کامل ایمان کے بغیر وہ کس خدا اور کس یوم آخرت کو مانتے ہیں جب کہ خدا اور آخرت کی معرفت و شناسائی بھی انسانیت کو نبی اور رسول کی ذات ہی کے توسط سے ہوتی ہے جب اُس ذات پر ایمان نہ رہا تو باقی عقائد کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟ اس لئے ایمان بالرسالت کے بغیر باقی دعویٔ ایمان کو منافقت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں منافقت کی یہ صورت ذاتِ مصطفویؐسے عشق و محبت کے فقدان یا کمی کی شکل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور سنت نبویؐ کی کے انکار کی شکل میں بھی۔
دھوکہ دہی کی نفسیات
یہ منافقین کی تیسری علامت ہے جسے مخادعت سے تعبیر کیا گیا ہے یُخٰدِعُوْنَ، خدع سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی چھپانا اور اصطلاحی معنی دھوکہ دینا ہے: (۱) خادع کسی کو دھوکہ دینے کے ارادے میں بھی بولا جاتا ہے اور یہی معنی یہاں مراد ہے۔ منافقین زبانی اقرار اور قلبی انکار کے ذریعے یہ خیال کئے ہوئے تھے کہ ہم خدا اور اہل ایمان سے اپنی حقیقی فکر اور باطنی حالت چھپا کر انہیں فریب اور غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں ، حالانکہ یہ ان کی خود فریبی اور نا سمجھی تھی۔ یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہئے کہ منافقین کی مخادعت بزعم خویش ذات خداوندی سے نہ تھی۔ بلکہ یہ تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہم اپنی باطنی حالت خدا سے چھپا سکتے ہیں ۔ ان کی دھوکہ دہی کی کوشش درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت تھی جن کے بارے میں وہ علاحدگی میں کہتے بھی تھے کہ کیسا رسول ہے، ہم دل سے اس کے ساتھ نہیں ہیں ، اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود اسے ہماری حالت کی خبر نہیں اور ہمیں بدستور مسلمان سمجھتا ہے۔ حضرت سدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’مجھ پر میری تمام اُمت اپنی حالت خمیر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اشیاء پیش کی گئی تھیں ۔ چنانچہ میں نے ہر ایک کو جان لیا ہے کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون نہیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد منافقین تک پہنچا تو انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ محمد ﷺیہ گمان کرتا ہے کہ جو لوگ ابھی پیدا نہیں ہوئے میں ان سے بھی مومن و کافر کو پہچانتا ہوں ۔ حالانکہ ہم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہماری منافقت سے باخبر نہیں ہے۔ منافقین کا یہ طعنہ حضور ﷺ کے علم میں آ گیا۔ آپؐ اسی وقت منبر پر تشریف فرما ہوئے اور باری تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمانے لگے۔ ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہو گا جو میرے علم کی وسعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ میں تمہیں اس کی خبر دیتا ہوں۔‘‘
قلب و باطن کا بیمار ہونا
یہاں منافقت کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر منافقت جیسی بیماری قلب و باطن کو لگ جائے تو اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ منافق کا ہر قول و فعل سراسر جھوٹ بن جاتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتا ہے، اس کا محرک اس کے دل کا خبث اور بدنیتی ہوتی ہے۔ بالآخر اس کی ساری زندگی جھوٹ جیسے گناہ کبیرہ سے آلودہ ہو جاتی ہے اور وہ دردناک عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔
آیت نمبر ۱۰؍ میں جھوٹ کو علامتِ نفاق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر منافق کی چار علامتیں بیان فرمائیں جن میں سے ایک جھوٹ ہے۔ آپﷺنے فرمایا:’’منافق جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
منافقت کی ایک اور علامت مادہ پرستانہ ذہنیت
’’آپ انہیں فرما دیجئے کہ دنیا کا مفاد بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے اور آخرت بہت اچھی (نعمت) ہے، اس کے لئے جو پرہیز گار بن جائے۔‘‘ (النساء:۷۷)
قرآنِ مجید نے منافقت کی یہ علامت ایک مستقل مادہ پرستانہ ذہنیت کے طور پر نمایاں کی ہے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو اس ذہنیت سے کلیہً پاک ہیں ؟ اگر کوئی خوش نصیب دینِ حق کی راہ میں معمولی سی قربانی کے لئے بھی تیار ہوتا ہے تو اس کے اعزا و اقرباء اور دوست و احباب کیا اسے اپنے وقت، مال و دولت اور دیگر آسائشوں کے زیاں کا طعنہ نہیں دیتے؟ اگر یہ سچ ہے اور یقیناً سچ ہے تو اندازہ فرمائیے کہ منافقت کس حد تک ہمارے رگ و ریشے میں رچ بس چکی ہے۔ ہم دین کو صرف اسی حد تک اپنانے کے لئے تیار ہیں۔ جس حد تک جانی و مالی مفادات پر زدنہ پڑتی ہو۔ جہاں دینِ حق کو جان و مال اور وقت کی قربانی مطلوب ہو۔ ہم اس حد میں داخل ہونے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں۔ یہ ہے منافقت کی وہ اصل جو دین کی احیاء کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یاد رکھئے کہ دین سراسر قربانی کا نام ہے اگر زندگی اس جذبے اور عمل سے خالی ہو تو کوئی بھی شخص جس قدر دین داری کا چاہے ڈھنڈورا پیٹتا رہے قرآن کی نظر میں اس کا نام منافقت ہے۔ ایسی منافقت کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز بھی ریا کاری تصور ہوتی ہیں ، جن پر بجائے ثواب کا مستحق ہونے کے سخت اذیت ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔