کسی بھی ملک کے سربراہ کی ناگہانی موت اُس وقت نئے مسائل پیدا کردیتی ہے جب وہ ملکی اور عالمی چیلنجوں کے درمیان گھرا ہوتا ہے۔ بالکل یہی بےچینی کی کیفیت ایران میں ہے۔
EPAPER
Updated: May 26, 2024, 1:02 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
کسی بھی ملک کے سربراہ کی ناگہانی موت اُس وقت نئے مسائل پیدا کردیتی ہے جب وہ ملکی اور عالمی چیلنجوں کے درمیان گھرا ہوتا ہے۔ بالکل یہی بےچینی کی کیفیت ایران میں ہے۔
کسی بھی ملک کے سربراہ کی ناگہانی موت اُس وقت نئے مسائل پیدا کردیتی ہے جب وہ ملکی اور عالمی چیلنجوں کے درمیان گھرا ہوتا ہے۔ بالکل یہی بےچینی کی کیفیت ایران میں ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سمیت ۹؍ اعلیٰ افسران ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہو گئے۔ سربراہ مملکت کی سلامتی سےمتعلق خصوصی طور پر احتیاط برتا جاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں، طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی تکنیکی جانچ بھی سختی سے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں ۴۰؍ سال پرانے ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کی اجازت کیسے دی؟کیا واقعی یہ ایک سازش تھی؟ اور جس ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا اس کے ساتھ دو ہیلی کاپٹر بھی ایرانی صدر کے کاررواں میں شامل تھے۔ وہ خراب موسم کے باوجود کیسے بحفاظت پہنچ گئے۔ آیئے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے۔
پربھات(۲۱؍مئی)
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’ ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی موت کی تصدیق بذات خود سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کردی ہے۔ ایران اور آذربائیجان کی سرحد پر مشترکہ ڈیم پروجیکٹ کا افتتاح کرنے ایرانی صدر پہنچے تھے۔ ملک واپس ہوتے وقت بدقسمتی سے خراب موسم کے سبب ان کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا۔ ابراہیم رئیسی نے ۲۰۲۱ء میں ایران کی باگ ڈور سنبھالی تھی لیکن مختصر وقت میں ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ فی الوقت ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ جیسا ماحول ہے۔ اس پس منظر میں ابراہیم رئیسی کی موت حادثہ یا قتل تھی، اس پر خوب بحث ہو رہی ہے۔ ایرانی صدر نے اسرائیل سے براہ راست جھگڑا مول لیا تھا اور اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو اپنے دشمن کو کسی بھی طرح سے ختم کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کے پاس مختلف تکنیک اور حربے بھی ہیں۔ اس طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں کہ اسرائیل نے تکنیک کا سہارا لیا ہوگا۔ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر برفانی پہاڑ اور دھند کے باعث گر کر تباہ ہوگیا لیکن صدر کے قافلے میں مزید ۲ ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے، وہ سب خراب موسم سے کیسے بچ نکلے؟صرف صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر ہی گر کر کیسے تباہ ہوا؟اس بارے میں بحثیں جاری ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ابھی تک کسی سازش کا شک ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود مغربی میڈیا نے ہیلی کاپٹر حادثے پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع کردی ہیں۔ میڈیا نے ایران، اسرائیل تنازع کے واقعات کا بھی جائزہ لیا اور اسی سیاق و سباق کے مطابق بتانا شروع کردیا ہے۔ غزہ پر حملے کے جواب میں ایران نے براہ راست اسرائیلی حدود میں حملے شروع کردیئے ہیں۔ اسلئے مغربی میڈیا اور ان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کوئی ایسا ملک نہیں ہےجو آسانی سے ہار مان لے اور برداشت کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں اسرائیلی زاویہ بھی چیک کیا جانا چاہئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: نریندر دابھولکر معاملے میں کچھ لوگوں کو سزا ضرور ہوئی لیکن مکمل انصاف نہیں مل سکا
لوک مت (۲۱؍مئی)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’اتوار کی آدھی رات ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر عبداللہیان ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ حادثہ اس قدر خوفناک تھا کہ ہیلی کاپٹر میں سوار ۹؍ افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ مغربی ایشیا میں بالخصوص ایران کے حوالے سے تیزی سے بدلتے بین الاقوامی حالات کے پیش نظر رئیسی کی حادثاتی موت کے پیچھے کسی سازش کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایران نے مغرب کے خلاف سخت رخ اپنایا ہے اور اس طرح کے موقف کے پیچھے رئیسی کا کردار کافی اہم تھا۔ ۱۹۹۰ء کی جنگ کے بعد ایران جوہری ہتھیاروں میں خود کفیل ہونے کی لگاتار کوشش کررہا ہے اور امریکہ، اسرائیل سمیت کئی دیگر مغربی ممالک اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ امریکہ نے ٹرمپ کے دورحکومت میں جوہری ہتھیاروں کا معاہدہ منسوخ بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔ اس دوران ایران کی سیاست میں چین کا عمل دخل بھی بڑھ گیا اور اس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ساری تبدیلیاں ابراہیم رئیسی کے زمانے میں شروع ہوئیں۔ ایران اور روس کے تعلقات کو مضبوط کرنے میں رئیسی نے خصوصی دلچسپی لی۔ حماس، اسرائیل کے درمیان جاری تنازع میں ایران نے کھل کر حماس کا ساتھ دیا۔ اس سے ایران اور اسرائیل کے بیچ تلخی میں اضافہ ہوا۔ اسلئے ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کے بعد شک کی سوئی اسرائیل کی جانب گھوم گئی ہےتاہم ایران نے ابھی تک اس پر کسی سازش کا اظہار نہیں کیا ہے اور اسرائیل نے بھی پہلے ہی سے صفائی پیش کرتے ہوئےحادثے میں اپنے رول سے انکار کیا ہے۔ ‘‘
مہاراشٹر ٹائمز(۲۱؍ مئی)
اخبار نے لکھا ہے کہ ’’ یہ اتفاق بھی ہوسکتاہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل اور ایران کا تنازع پورے عروج پر ہو، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوجائیں۔ رئیسی ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے جانشین تھے۔ ایک طرف جہاں ایران میں رئیسی کی موت کا ماتم منایا جارہا ہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اُن کی موت پر خوشیاں منا رہا ہے۔ رئیسی انتہائی سخت اسلامی قوانین کے حامی اور خواتین کی آزادی کے مخالف بھی تھے۔ پاکستان کی طرح ایران بھی جوہری ہتھیار بنا رہاتھا۔ ابراہیم رئیسی کم از کم دو مسلم ممالک کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنا چاہتے تھے جبکہ امریکہ اس کی سخت مخالفت کررہا تھا۔ اب تشویش کی بات یہ ہے کہ رئیسی کی موت کے بعد مغربی ایشیا میں تنازع کتنا بڑھے گا۔ خلیج میں پہلے ہی سے جنگ جاری ہے۔ رئیسی کی موت کا الزام اسرائیل کے سر ڈالا جارہا ہے۔ حالانکہ آذربائیجان کے جس علاقے میں حادثہ رونما ہوا وہ ایک ناہموار اور پہاڑی علاقہ ہے، اسلئے یہ خالص حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ رئیسی کی موت سے ایران کی اندرونی سیاست میں یقیناً تبدیلی آئے گی۔ اسرائیل نے حالانکہ رئیسی کی موت سے اپنا پلہ جھاڑ لیا ہے لیکن اس کی بات پر کون کتنا یقین کرے گا۔ ‘‘