چند روز قبل دہلی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ کر رخصت ہوجانے والے معروف شاعر تابش مہدی کی یہ تحریر ان کی کتاب ’’مشک غزالاں ‘‘ سے لی گئی ہے جو انہوں نے ’’میرا نظریۂ شعر و ادب ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۴ء میں دیباچہ کے طور پر لکھی تھی اور اس تحریر کی نقل انقلاب کو روانہ کی تھی۔ خراج عقیدت کے طور پر وہی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
ادب ہر عہد کے افکار و نظریات کو منعکس کرتاہے۔ اس لئے کہ اس کا تعلق بنیادی طور پر انسان کی زمینی زندگی سے ہوتا ہے۔ تصویر: آئی این این
میں نے ہمیشہ شاعری میں فن کی بالاتری پر اصرار کیا ہے۔ میں ادب یا شاعری میں کسی تعصب، تحزب یا گروہ بندی کا قائل نہیں ہوں۔ میں شاعری یا ادب میں اخلاقی و روحانی احساسات کا احترام کرتا ہوں لیکن اسے کسی تحریک اور مکتبِ فکر یا کسی مذہب، تاریخ، فلسفے یا سیاست کے لئے مختص کرنا یا اس کا دم چھلّا بنانا میرے نزدیک شعر و ادب کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ میں شاعری میں خیال و فکر کی اہمیت و عظمت کا معترف ہوں۔ لیکن اِس کے ہیئتی حسن کو معنیٰ و خیال کے حسن پر فوقیت دیتا ہوں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ادب کو خود یہ حیثیت حاصل ہے کہ مذکور بالا تمام اقدار کو اس کے سایے میں جگہ دی جائے۔ ادب سے جو نظریۂ خیر و شر ابھرتا ہے، وہ اس کا اپنا مخصوص نظریہ ہوتا ہے۔ اس کا یہ نظریہ خواہ کسی بھی مذہب یا مکتب فکر سے ہم آہنگ ہو اور ہو بھی سکتا ہے، لیکن اسے کسی کا ترجمان نہیں کہا جاسکتا۔ جب ادب کا رشتہ فطرت کی صداقتوں اور کائنات کے حقائق سے ہے تو ہر دور کے ذہن و فکر پر اس کی حکمرانی رہے گی۔
میرا احساس بھی ہے اور یقین بھی کہ ادب سے انسان کی فکری و حسی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ادب ہر عہد کے افکار و نظریات کو منعکس کرتاہے۔ اس لئے کہ اس کا تعلق بنیادی طور پر انسان کی زمینی زندگی سے ہوتا ہے۔ اس کی اسی خصوصیت کے پیشِ نظر ہم اسے انسان کے فکری و جمالیاتی عروج و زوال کا مرقع بھی کہہ سکتے ہیں۔ ادب ہی وہ چیز ہے، جس کے ذریعے سے ہم ہر عہد کے منفی و مثبت رجحانات سے باخبری حاصل کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کے عروج و زوال میں ادب اور شاعری نے ہمیشہ واضح اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
ہر دور کے ادب یا شاعری نے انسانی اذہان کو متأثر کرنے اور انہیں اپنے رنگ میں رنگنے کا کام کیا ہے۔ میرا نقطۂ نظر ہے کہ جو لوگ ادب میں ادب برائے ادب جیسے مہمل نظریے کے علم بردار ہیں اور بے موقع و محل بھی اِسی نظریے کا راگ الاپتے رہتے ہیں، ان کے ہاں بھی کسی نہ کسی درجے میں ذہنِ انسانی کو متأثر کرنے اور اپنے مخصوص اثرات کو سماج میں داخل و رائج کرنے کا رویہ ملتا ہے۔ سماج پر جو اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان میں ادب کی واضح کارفرمائی ہوتی ہے۔ کسی بھی عہد کا شاعر یا ادیب اپنی تخلیق کو اس سے خارج نہیں کرسکتا لیکن شاعروں، ادیبوں یا فن کاروں کے تخلیقی عمل پر پابندی لگانا اور ان کے فن کا رانہ بہائو پر بند باندھنا مناسب نہیں۔ یہ قطعی غیر فطری عمل ہے کہ ادیب، شاعر یا فن کار کو فوج یا پولیس کی وردی پہناکر اُسے بعض سیاسی یا سماجی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر منشوری فن پیش کرنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن چونکہ ادب انسانی ذہن وضمیر کا فن کارانہ اور پُرآہنگ ردّ عمل ہے، اس لئے اس میں کسی نہ کسی طرح یا کسی نہ کسی حد تک فن کار کی شخصیت، زمان و مکان، تہذیب اور اس سماج کی پرچھائیاں رقصاں نظر آئیں گی، جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔ اگر فن کار خالص مادی یا حیوانی پیکر نہیں ہے، بلکہ وہ روحانی، اخلاقی اور تہذیبی قدروں کا علم بردار ہے تو اس کے فن میں ان زاویوں کا خوش گوار امتزاج ملے گا۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ادب ہو یا شعر، قوی، دیر پااور دور رس فن پارہ اسی وقت ہوگا، جب اس میں انسان کے اجتماعی شعور و احساس کی کار فرمائی ہو۔ اگر کسی ادب پارے میں ایسی قدروں کا سراغ ملتا ہو، جو انسان کے اجتماعی تجربات و احساسات کے برعکس ہوں تو وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
کسی بھی ادیب یا شاعر کے لئے یہ بات ایک آسان سی ہے کہ وہ جزئیات میں منفرد ہواور عام اخلاقی قدروں کی توضیحات یا تو جیہات سے اختلاف کرے، لیکن مسلمہ اخلاقی و روحانی اقدار اور اصولوں سے انحراف یارو گردانی اس کی مقبولیت میں بہر حال مانع ہوتی ہے۔ میں اپنے عہدکے سیاسی یا سماجی حالات کے دبائو میں آکراحتجاجی شاعری یا ادب پیش کرنے والوں کو بھی اسی خانے میں رکھتا ہوں۔ جس طرح کسی غیر مروج یا متروک زبان کا استعمال تخلیق کے ابلاغ و ترسیل میں سدراہ ہوتا ہے، یا ساقط الوزن شعر لائق اعتنا نہیں ہوتا، اسی طرح کسی بھی ادیب یا شاعر کا مسلمہ اخلاقی و روحانی قدروں سے انحراف بھی اس کی تخلیقی موت پر منتج ہوگا۔
ہر ادیب یا شاعر ذاتی طور پر آزاد ہوتا ہے اور اس کی سوچ اور فکر کا ڈھرّا عام سوچ اور فکر سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس سے اس کی یہ آزادیٔ فکر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ مسلمہ اصولوں اور ضابطوں کو میدانِ عمل میں دیکھے اور تنقیدی نگاہ سے ہر چیز کے حسن و قبح پر غور کرے۔
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اچھا یا بڑا ادب نہ مذہبی و مسلکی احکام و مسائل بیان کرنے کا نام ہے اور نہ تنظیموں، جماعتوں یا سیاسی اور سماجی گروہوں کے اشتہار اور پروپیگنڈے کا۔ اچھا اور بڑا ادب وہ ہے، جو وسیع اخلاقی و روحانی نظریے پر مبنی ہو۔ اس میں صاف، شفاف، پاکیزہ اور پوری انسانیت کو محیط مسائل کی ترجمانی کی گئی ہو اور جو افکار و خیالات اِن سے متصادم ہوں، ان کا نام و نشان نہ ہو۔ کسی کو گالیاں دینا، کسی طبقے کو نشانۂ ملامت بنانا، کسی کی توہین کرنا، کسی کے عیبوں کو ہوا دینا، کسی بھی گروہ کے علما، مشائخ اور قائدین کی ہواخیزی کرنا، شیخ، زاہد یا واعظ کو برائیوں کی علامت بناکر معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کا انہی کو ذمے دار ٹھہرانااور ان پر طعن و طنز کرنا یہ سب کسی اچھے یا بڑے ادب و شعر کے منافی ہے۔ ان سے وقتی طور پر داد تو حاصل کی جاسکتی ہے اور کسی خاص موقعے پر غیرمعمولی مقبولیت بھی مل سکتی ہے، لیکن انھیں اچھا، بڑا یا دیر پا ادب نہیں کہا جاسکتا۔
اچھا ادب یا اچھی اور بڑی شاعری وہی ہے، جس میں زبان و بیان کا رکھ رکھائو، شعری و ادبی قدروں کی پاس داری اور فنی و عروضی التزام موجود ہو۔ اِدھر گزشتہ کچھ دہائیوں سے شاعری کے نام سے جو چیز پیش کی جارہی ہے، اس میں اس طرف سے شدید بے توجہی مل رہی ہے۔ فنی اور فکری دونوں سطحوں پر شاعری کے نام پر غیر شاعری ہو رہی ہے۔ ہماری موجودہ تنقید کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسے ناقدوں کی ہے جو نہ شاعر یا تخلیق کار ہیں اور نہ انہیں شاعری کے فنی و لسانی آداب معلوم ہیں۔ حتّٰی کہ انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ جو شعر زیرِبحث ہے، یہ موزوں بھی ہے یا نہیں۔ اس لئے وہ شعرا ءکے دواوین اور شعری مجموعوں پر لکھتے وقت یہ تو دیکھتے ہیں کہ شاعر نے کیا کہا ہے لیکن کس طرح کہا ہے اور ان میں شعری روایات کی کس حد تک پابندی کی گئی ہے، اس پر نہ ان کی توجہ ہوتی ہے اور نہ یہ ان کے بس کی بات ہے۔ اس لئے کہ نہ انہیں اوزان و بحور کا شعور ہے اور نہ فنی و لسانی قدروں سے ان کا علاقہ ہے۔ وہ تو بس بہ فیضان جامعات لکھتے اور بولتے رہنے کے عادی ہیں۔ نہ پوچھئے ان کے منتخب شعروں میں کیسی کیسی مضحکہ خیز غلطیاں ملتی ہیں۔ حالاں کہ شعر اسی وقت شعر ہوتا ہے، جب اس میں وہ تمام التزامات اور اجزاء موجود ہوں، جو اس کے لئے ناگزیر ہیں۔
پچھلے کچھ برس سے آزاد اور نثری شاعری کے نام سے لکھنے کی روش چل پڑی ہے۔ یہ روش زیادہ تر انہی لوگوں کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے جو پابند شاعری پر پورے طور پر قادر نہیں ہیں۔ ان کی مشق بھی خام ہے اوروہ شعری روایات سے بھی نابلد ہیں۔ یہ جو کچھ آزاد یا نثری شاعری کے نام سے پیش کیا جاتا ہے، میں اسے شعر و فن کے ساتھ ایک گہری سازش خیال کرتا ہوں۔ میرا احساس ہے کہ اردو کی عروض و فن سے آراستہ شاعری کی مقبولیت، اس کی شیرینی اور حد سے زیادہ اس کی پسندیدگی کو دیکھ کر مغرب نے آزاد اور نثری شاعری کا ڈھونگ رچایا ہے تاکہ اردو شاعری کی جمالیات کو مجروح کیا جاسکے۔ جو لوگ اس قسم کے عمل کو شاعری کا نام دیتے ہیں، وہ اسی مغرب کی سازش کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ شعر و سخن کے بدخواہ ہیں۔
شاعری ایک وہبی صلاحیت ہے۔ اس کے لئے بنیادی شرط موزونیِ طبع ہے۔ اگر طبیعت میں موزونی نہیں ہے تو شاعری نہیں کی جاسکتی۔ اساتذہ وادیِ شعر میں قدم رکھنے والوں کی موزونیِ طبع کا جائزہ لینے کے بعد انہیں اساتذہ اور معتبر شعراء کے اشعار یاد کراتے تھے۔ بعض اساتذہ نے تو ہزاروں اشعار یاد ہوجانے کے بعد ہی مشقِ سخن کی اجازت دی۔ اگر کثیر تعداد میں اشعار یاد نہیں ہیں تو نہ شعر گوئی کی صلاحیتآسکے گی، نہ بحرووزن کا شعور پیدا ہوسکے گا۔ الفاظ کی نشست و برخاست کا سلیقہ بھی اسی صورت میں آسکے گا۔ اب استادی و شاگردی کی روایت ہی مفقود سی ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی تعداد میں شعراء الفاظ کے حسنِ انتخاب، متروکات، تذکیر و ثانیث اور واحد و جمع کے استعمال کے سلسلے میں بے پناہ غچّے کھاتے رہتے ہیں۔ ان کے شعروں میں عین، حا اور ہا کا سقوط ہوجاتا ہے اور ’کہ‘ اور ’نہ‘ کا استعمال بروزن ’فع‘ ہوجاتا ہے، انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے ہاں یہ فنّی سانحہ کب پیش آگیا۔ اس لئے کہ انہیں اس سلسلے میں نہ کوئی تربیت ملی ہے اور نہ وہ ایسی صحبتوں میں رہتے ہیں، جہاں ان سب باتوں سے باخبری ہوسکے۔
کبھی کبھی بعض شعراء اپنی غلطیوں کو ضرورتِ شعری کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ضرورتِ شعری کیا ہے اس سے وہ قطعی ناواقف ہوتے ہیں۔