رب تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک رزاق ہے، وہ اپنے فضل وکرم سے ہر جاندار کورزق عطافرماتا ہے۔ اس کی شان کریمی دیکھئے جو اس کی عبادت کرتا ہے، اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے، اور جو منکر ہے اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 26, 2024, 2:55 PM IST | Mohammad Mudassar Hussain Ashrafi | Mumbai
رب تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک رزاق ہے، وہ اپنے فضل وکرم سے ہر جاندار کورزق عطافرماتا ہے۔ اس کی شان کریمی دیکھئے جو اس کی عبادت کرتا ہے، اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے، اور جو منکر ہے اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے۔
رب تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک رزاق ہے، وہ اپنے فضل وکرم سے ہر جاندار کورزق عطافرماتا ہے۔ اس کی شان کریمی دیکھئے جو اس کی عبادت کرتا ہے، اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے، اور جو منکر ہے اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے۔ انسان کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض ہے کہ رزق حلال تلاش کرے اور اسی سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کرے۔ جو جسم حلال کمائی سے پرورش پائے، وہ صاف وشفاف تر وتازہ اور پاکیزہ رہتا ہے۔ ذہن و فکر اور خیالات عمدہ ہوتے ہیں، نیز عبادات کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس یعنی جو جسم حرام کمائی سے پرورش پائے، وہ پاکیزگی سے کوسوں دور، اور اس کے خیالات منفی ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر رزق حلال کی تاکید فرمائی اور اکلِ حرام سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ احادیث کریمہ میں رسول اللہ ﷺ نے رزق حلال کے فضائل، اور رزق حرام کی وعید بیان فرمائے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو آدمی چالیس دن حلال رزق کھائے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو روشن کردیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کردیتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے پیٹ میں حرام (غذا) ہو۔ ‘‘ حضرت سہل تستریؒ فرماتے ہیں : ’’جب تک بندے میں چار خصلتیں نہ ہوں وہ حقیقت ِ ایمان تک نہیں پہنچ سکتا، فرائض کوسنت کے مطابق ادا کرنا، رزق حلال تقویٰ کے ساتھ کھانا، ظاہر وباطن میں ممنوعات شرعیہ سے بچنا اور ان باتوں پر موت تک صبر ( استقامت اختیار) کرنا اور انہوں نے فرمایاجو آدمی چاہتا ہے کہ اس پر سچے لوگوں کی علامت منکشف ہوں وہ صرف حلال کھائے اور سنت اور ضروری کاموں کے علاوہ کوئی کام نہ کرے۔ ‘‘ ( احیاء العلوم جلد دوم)
قرآن شریف جو سب سے افضل واعلیٰ کتاب ہے، جس میں ہدایت، رحمت اور شفاء ہے، اس مقدس کتاب میں ہر چیز کابیان ہے۔ شیطان کی انسان سے عداوت جگ ظاہر ہے۔ شیطان اخیر وقت تک اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ بندۂ مومن کو بہلا پھسلا کر اس کا ایمان زائل کردیا جائے، مگر اس کی یہ کوشش اہل ایمان پر ناکام رہتی ہے۔ قرآن شریف میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ بیشک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اب وہ لوگ جو حلال وحرام میں تمیز نہیں کرتے اسے پڑھیں اور درس حاصل کریں۔ ‘‘ حضرت یوسف بن اسباد ؒ نے فرمایا ہے:’’ جب کسی عابد کوشیطان دیکھتا ہے کہ عبادت میں خوب چست ہے مگر کھانے پینے میں حلال وحرام کا کوئی امتیاز نہیں کرتا تو شیاطین سے کہتا ہے کہ اسے بہکانے کی کوئی ضرورت نہیں اسے چھوڑدو۔ یہ چاہے جس قدر عبادت میں کوشش کرے، جب اس کی روزی حرام ہے تو اس کا کوئی بھی عمل خدا کے یہاں مقبول نہیں۔ ‘‘ ( رزق حلال کی اہمیت)
عصر حاضر میں ریاکاری جس رفتاری سے پروان چڑھ رہی ہے، وہ یقیناً تشویشناک ہے۔ یہ ناسور اچھے اچھوں کو اپنے دام فریب میں لے چکا ہے۔ آج کچھ لوگ برتری کے لئے، عیش وآرام کی زندگی گزارنے کے لئے اور لوگوں میں بڑا بننے کے لئے اس قدر گر چکے ہیں کہ حلال وحرام میں تفاوت نہیں کرتے۔ بس ہوس ہے، دھن ہے کہ مالدار بن جائیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ روزِ حشر ذرے ذرے کاحساب دینا ہوگا۔ مال کہاں سے اور کیسے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا ؟ رب تبارک وتعالیٰ پرسش فرمائے گا۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو حلال وحرام میں تمیز تو نہیں کرتے، مگر لوگوں میں اپنے آپ کو متقی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو آدمی کوئی کپڑا دس درہم میں خریدے، اگر اس میں ایک درہم بھی حرام کاہو تو جب تک اس کے جسم پر وہ کپڑا رہے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ ‘‘
مسلمانوں کو چاہئے کہ حلال روزی اختیار کریں اوررزق حرام سے دور رہیں۔