اساتذہ کے لئے یہ غور کرنے کا دن ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں یا نہیں، وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اور پھر بے فکر ہوکر وقت کے ہنگاموں میں گم ہوجاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 05, 2024, 2:32 PM IST | Asif Jaleel Ahmed | Mumbai
اساتذہ کے لئے یہ غور کرنے کا دن ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں یا نہیں، وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اور پھر بے فکر ہوکر وقت کے ہنگاموں میں گم ہوجاتے ہیں۔
پانچ ستمبر کا دن ہندوستان کیلئے خاص ہے۔ اسی دن دوسرے صدر جمہوریہ، ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی پیدائش ہوئی تھی لہٰذا اس دن کو پورے ملک میں ’’ یوم اساتذہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن منانے کا مقصد اساتذہ کی اقوام عالم کے لئے خدمات کا اعتراف ہے۔ یہ دن اس لئے بھی خاص ہے کہ اساتذہ کا کردارملک کی تعمیر میں اہم ہوتاہے۔ اساتذہ نئی نسل کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرواتے ہیں، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ، آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے لئے بچوں میں ضروری ہنر مندی اور اہلیت پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں سال کا ایک دن ’’ ٹیچر ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ دن اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کے لئے احتساب کا دن ہوتا ہے۔ اساتذہ کے لئے یہ غور کرنے کا دن ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں یا نہیں، وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اور پھر بے فکر ہوکر وقت کے ہنگاموں میں گم ہوجاتے ہیں۔ ایک استاد کے لئے طلباء کی تربیت، انہیں صحیح راستہ دکھانا اور ملک کی تعمیر کا حصہ بنانا، نہ صرف ان کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ ان کا اخلاقی اور انسانی فریضہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلباء کے شعور کی آبیاری اس طرح کریں کہ طلباء کے ہر کردار سے قوم و ملک کے لئے سیاسی و سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کو فروغ ملے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک استاذ کی ذمہ داری والدین سے بھی بڑی ہوتی ہے اور اسی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لئے ’’ یوم اساتذہ ‘‘منایا جاتا ہے۔
اس دن تمام ہی اساتذہ اپنی خدمات انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں، غیر تدریسی سرگرمیوں جیسے پولیو ڈوز، انتخابی فہرست کی درستگی، مردم شماری، الیکشن، وبائی امراض ڈیوٹی، بی ایل او، وغیرہ کاموں میں یہی اساتذہ کا کردار قابل قدرہوتا ہے۔ پھر بھی سماجی اور سرکاری سطح پر معلم، بالخصوص اردو کے معلمین کو سرکاری سطح پر’مثالی اساتذہ کا اعزاز‘ نہ کے برابر ہی دیا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں کہ جب اردواسکولوں کے اساتذہ کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ بار بار اردو اساتذہ کے ساتھ ناانصافی نے اردو اسکولوں کے اساتذہ و طلباء اور اردو سے محبت کرنے والوں کو مایوس کیا ہے۔
بہر حال ’’یوم اساتذہ‘‘ کے موقع پر والدین کو بھی اس پہلو پر غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کی تربیت کے تئیں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ جب ایک بچہ اسکول سے گھر لوٹ کر آتا ہے تو وہ اپنا وقت کہاں اور کس طرح گزارتا ہے، یہ دیکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس کا رویہ اپنے دوست و احباب اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کیسا ہے۔ وہ بڑوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کتنا سنجیدہ ہے، ان پہلوؤں پر نظر رکھنا والدین کے لئے ضروری ہے۔ جب تک بچوں پر والدین اور اساتذہ کی مسلسل نظریں نہیں رہیں گی اور جب تک ملک میں تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ مساوات کا رویہ نہیں برتا جائے گا، اس وقت تک ہمارے بچوں میں تعلیم کا حقیقی رجحان پیدا نہیں ہوگا۔ یوم اساتذہ حکومت کو، اساتذہ کو، والدین کو اور خود طلباء کو غور و فکر کرنیکی دعوت دے رہا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینے کا تقاضہ کر رہا ہے۔
یہی استاد ہیں جو قوم کا معمار ہوتے ہیں
انہی کے دم سے ہم تم صاحب دستار ہوتے ہیں