• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یوم اساتذہ کی مناسبت سے بزرگ اساتذہ کو خراج تحسین

Updated: September 06, 2024, 4:55 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

یوم اساتذہ، استادوں کی تعریف کا ایک خاص دن ہے۔ اس میں کسی خاص فیلڈ ایریا میں ان کی خصوصی شراکت یا تعلیم میں کمیونٹی ٹون کے لئے ان کے اعزازمیں یہ دن منایا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شرف الدین شیخ( جوگیشوری)


 شرف الدین شیخ نے سینٹ زیویئرس کالج ، ممبئی سے ہسٹری اور اُردو میں بی اے، ایم اے کیا اور انگریزی اور ہسٹری میں بی ایڈ کیا تھا۔ آپ انگریزی، اُردو، تاریخ اور شہریت کے بہترین اُستاد رہے۔ اسکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں طلبہ کے ساتھ پیش پیش رہتے تھے۔ آپ نے آل انڈیا ریڈیو سے طلبہ کے لئے’کھلتی کلیاں‘ میں کئی پروگرام پیش کئے تھے۔ آپ کی تعلیمی اور تنظیمی صلاحیتوں کو دیکھتےہوئے اِنتظامیہ نے دو مرتبہ سُپروائزر اور اِسکول کے پہلے  پرنسپل ابراہیم خان طالب کی سبکدوشی کے بعد۱۹۸۹ء میں آپ کو پرنسپل کے عہدے پر فائز کیا تھا۔ حکومت مہاراشٹر نے آپ کو ایس ای ایم اور ایس ای او کے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔آپ کے شاگردوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز،ا سکرپٹ رائٹرس، فلمی ڈائریکٹرز اور نغمہ نگار بھی شامل ہیں۔ آپ تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ کو اُن کے رُجحان اور دِلچسپی کے مُطابق ترغیب دیتے تھے اور کریئر کے تعلق سے معلومات اور مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔ آپ۱۵؍ سال تک پرنسپل رہتے ہوئے نومبر۲۰۰۴ء میں سبکدوش ہوئے۔
معین الدین ہوڈیکر (سینئر سبکدوش معلم،فاروق ہائی اسکول)
ڈاکٹر ساجد علی قادری (شیرپور)


 میرے دل میں جو مقام میرے پی ایچ ڈی کے نگراں ڈاکٹر ساجد علی قادری کا ہے وہ بہت بلندہے۔یومِ اساتذہ کی مناسبت سے میں چند الفاظ میں سر کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ ایس پی ڈی ایم آرٹس، سائنس اور کامرس کالج شیرپور میں اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں اور ساتھ ہی کے بی سی این ایم یو یونیورسٹی جلگاؤں سے پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ اسکالرز کے نگراں بھی ہیں۔ آپ کو ’استاد لاساتذہ‘ کہنا بالکل بجا ہے کیونکہ کئی اساتذہ آپ کی نگرانی میں اپنے تحقیق کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ آپ ادبی و تحقیقی میگزین ’سہ ماہی تزئین ادب‘ کے مدیر ہیں اور تحقیق و تنقید سے متعلق آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ’فرہنگ کلیات محمد قلی قطب شاہ،آئینہ شعری ادب اوررسالہ نقوش کا ادبی سفر‘ نہایت اہم ہیں۔ آپ نے تحقیق کے میدان میں کئی قابل ذکر کارنامے انجام دیئے ہیں۔آپ کی تحقیق نہ صرف اپنے موضوعات کے حوالے سے نئی راہیں کھولتی ہے بلکہ ادب کے قارئین کو درپیش مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں)
سلمیٰ انصاری (مہاپولی)


 سلمیٰ مس بھیونڈی کے علمی، ادبی، سماجی اور ثقافتی حلقوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے تدریسی خدمات کی ابتدا ہی سے خود کو اسکول اور اپنے طلبہ کیلئے وقف کر دیا اور سبکدوشی تک کوشاں رہیں۔ آپ  اپنی تقریباً۳۰؍ سالہ طویل خدمات کے دوران  پتھروں کو تراشنے اور ان پتھروں کو اپنی ہنر مندی سے ہیرا بنانے کا کام کرتی رہیں۔ آپ کو اسٹیج کا شوق ملازمت کے اول روز ہی سے رہا ہے، اسلئے  آپ  اپنے بچوں کو بھی اس فن میں  ماہر و یکتا دیکھنے کیلئے ہمیشہ سرگرداں اور کوشاں رہیں۔ آپ ضلع پریشد اردو اسکول،مہاپولی کے روایتی جشن آزادی کے پروگرام  میں طلبہ کی تیاری کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہیں۔یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ آپ کے تیار کردہ طلبہ کو مقابلوں میں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا اور کئی مرتبہ آپ کے ذریعہ تیار کی ہوئی اسکول کی ڈرامہ ٹیم کو اول انعام سے نوازا گیا۔سلمیٰ مس ایک ایسی باغ و بہار شخصیت کا نام ہے جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں،اس میں آپ کی تعلیم و تربیت کا بڑا دخل ہے۔ 
شفیع عاصم پٹیل(اسسٹنٹ ہیڈماسٹر،رفیع الدین فقیہ بوائز ہائی اسکول ،بھیونڈی)
مقصود انصاری  (بھیونڈی)


 مقصود سر جو کہ رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں اردو کے استاد رہے ہیں اور حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں، اردو زبان کے ایک ماہر اور تجربہ کار استاد ہیں۔ ہم سائنس کے طالب علم تھے۔ اگرچہ ہم کیمسٹری، بائیولوجی اور فزکس جیسے مضامین پر توجہ دیتے تھے لیکن ہماری کلاس میں اردو بھی سب کا پسندیدہ مضمون تھا۔ مقصود سر ہمارے لئے ایک سیلیبرٹی کی مانند تھے۔ میں آپ کی کلاس کا مانیٹر تھا اور اکثر میرے ہم جماعت میرے پاس آ کر پوچھتے تھے کہ آج مقصود سر نے کون سا لیکچر دیا اور کیا بتایا؟ ان کے لیکچرز کے دوران ہم اور ہمارے دوست یہ سوچتے رہتے تھے کہ کاش یہ لیکچر کبھی ختم نہ ہو۔ آپ کا اندازِ تدریس اتنا اچھا تھا کہ طلبہ نہ صرف ان کے دروس کو غور سے سنتے تھے بلکہ ان سے متاثر ہو کر مزید مطالعہ کی تحریک پاتے تھے۔ آپ ہمیشہ اپنے طلبہ کی مدد کیلئے موجود رہتے تھے اور اپنی شفقت کے سبب اپنے ذاتی فون نمبر پر بھی طلبہ کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ آپ کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہم میں اردو ادب کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور ہمارے علم میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
انصاری طاہر آصف (بھیونڈی)

غلام نبی مومن(کلیان )
( ادارہ بال بھارتی سے۲۰۰۷ء میں سبکدوش)


 غلام نبی مومن نے کم عرصے میں بہت زیادہ کام کیا ہے اور نہایت خاموشی سے کیا ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز۱۹۷۰ء میں بھیونڈی میونسپل کارپوریشن کےایک اسکول سے کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک شاد آدم شیخ ٹیکنیکل ہائی اسکول، بھیونڈی سے وابستہ رہے۔ ۱۹۷۹ء میں آپ کلیان چلے گئے اور نیشنل اردو ہائی اسکول سے وابستگی اختیار کی جہاں آپ ۱۵؍ سال رہے۔ ۱۹۹۵ء میں آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ یہاں سے آپ کی خدمات کا ایک نیادور شروع ہوتا ہے۔ آپ’ مہاراشٹر ٹیکسٹ بک بیورو‘ کے اردو افسر بن کرپونے چلے گئے۔ وہاں پر ۱۲؍ سال سے زائد عرصہ گزار کر ۲۰۰۷ء میں سبکدوش ہوئے۔ اسی کے ساتھ آپ کی ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ہندی کہانیوں کے ترجمے کے تین مجموعے، تعلیمی مضامین کامجموعہ، خاکوں کی ایک کتاب کے علاوہ کئی کتابیں آپ نے تخلیق کی ہیں۔ ان میں ڈی ایڈ کے طلبہ کیلئے تیار کی گئی کتاب قابل ذکر ہے۔ 
کلیم ضیاء (ممبئی)
(اسماعیل یوسف کالج، جوگیشوری سے ۲۰۱۶ء میں سبکدوش)


 آپ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۷۷ء میں ہاشمیہ ہائی اسکول سے کیا لیکن جلد ہی آپ میونسپل کارپوریشن کے اسکول میں چلے گئے۔ وہاں ۸؍ سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۸۵ء میں اسماعیل یوسف کالج سے وابستہ ہوگئے اور پھر ۲۰۱۶ء میں وہیں سے سبکدوش بھی ہوئے لیکن اس درمیان ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۵ء تک آپ ناگپور کے موریس کالج میں رہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’’میں نے تدریس کو کبھی پیشہ نہیں سمجھا بلکہ مشن سمجھ کرکام کیا، اسلئے جب، جہاں اور جس طرح کی ضرورت محسوس ہوئی، میں نے کام کیا۔ ‘‘ شاعری، افسانہ، ترجمہ، بچوں کی کہانیاں، تنقید اور تبصروں پرمشتمل آپ کی ۱۵؍ سےزائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب کیلئےادبی، تعلیمی اور سماجی شخصیات کے ۱۰۰؍ سے زائد انٹرویو بھی آپ کرچکے ہیں۔ آپ کی نگرانی میں ۱۰؍ سے زائد افراد نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے۔ آپ ایک اچھے شاعر ہیں اور اس سلسلے میں بیرون ممالک کے کئی دورے بھی کرچکے ہیں۔ 
اقبال عثمان مومن (بھیونڈی)
(صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے ۲۰۱۱ء میں سبکدوش)


ہمیشہ مسکراتے رہنے والے اقبال عثمان مومن کی شخصیت میں انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز ۱۹۷۳ء میں بھیونڈی میونسپل کارپوریشن کے ایک اسکول سے کیا۔ اس کے بعد نیشنل اردو ہائی اسکول کلیان چلے گئے جہاں آپ ۱۹۸۶ء تک رہے۔ پھر بھیونڈی کے صمدیہ ہائی اسکول سے وابستگی اختیار کی اور سبکدوشی تک وہیں رہے۔ آپ کا شمار طلبہ کے مقبول اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں سبکدوش ہونے کے بعد بھی کسی نہ کسی حوالے سے طلبہ سے آپ کا تعلق قائم رہا۔ بھیونڈی کی معروف تعلیمی تنظیم ’انجمن فروغ تعلیم ‘ کے آپ برسوں سیکریٹری رہے۔ اس تنظیم نے کئی اہم کام انجام دیئے ہیں جن میں کامیاب طلبہ کیلئے تقسیم انعامات کی تقریب قابل ذکر ہے۔ اس میں ریاستی سطح کے ٹاپر تنویر منیار، بلال مستری، زرین انصاری اور الماس ناظم جیسے طلبہ شریک ہوچکے ہیں۔ بیت بازی کیلئے آپ کی مرتب کردہ کتاب ’آپ مسافر، آپ ہی منزل‘کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ 
واحد قاسم بیابانی (پونے)
(حاجی صالح محمد حاجی عثمان اسکول سے ۲۰۲۳ء میں سبکدوش)


  پونے میں واقع طیبہ یتیم خانے کے زیر اہتمام جاری اسکول حاجی صالح محمد حاجی عثمان اردو پرائمری اسکول سے واحد قاسم بیابانی ۱۹۸۸ء میں وابستہ ہوئے اور سبکدوشی کی عمر تک اسی ادارے سے جڑے رہے۔ ۳۵؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ۲۰۲۳ء میں سبکدوش ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یہاں رہتے ہوئے کئی اچھے اور بڑے تعلیمی اداروں میں جانے کے مواقع ملے لیکن میں نے یتیم بچوں کا ساتھ چھوڑ کر کہیں اور جانا مناسب نہیں سمجھا۔ ‘‘ان کا کہنا ہے کہ تنخواہ تو مجھے یہاں بھی ملتی اور وہاں بھی ملتی لیکن یتیم بچوں کی خدمت کا موقع اس طرح کہیں اور نہیں ملتا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ آج جب میں اپنے ۳۵؍ سالہ کریئر کو دیکھتا ہوں تو بہت اطمینان ہوتا ہے۔ اس دوران ۲؍ نسلیں جوان ہوچکی ہیں اور کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔ میرے کئی طلبہ افسر بن گئے ہیں۔ ‘‘ آپ تعلیم سے زیادہ تربیت پر دھیان دیتے تھے اور اپنے بچوں سے کہتے تھے کہ’ ’بچو! لینے والے نہیں، دینے والے بنو۔‘‘ 

سراج احمد خان(میرا روڈ )
( انجمن مفیدالیتمیٰ میرا روڈ سے۲۰۱۰ء میں سبکدوش)


 ممبئی اور اطراف میں جب بھی اردو میڈیم کے اسکولوں میں بہتر انداز میں انگریزی پڑھانے والوں کی فہرست بنتی ہے، تو اس میں سراج سر کا نام ضرور شامل ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے کریئر کا آغاز۱۹۷۶ء میں ’فیلوشپ جونیئر کالج، گوالیا ٹینک سے کیا تھا لیکن ایک سال بعد ہی صابو صدیق ٹیکنیکل ہائی اسکول سے وابستہ ہوگئے تھے، جہاں ایک طویل عرصہ گزارا۔ ۱۹۹۲ء میں میرا روڈ میں انجمن مفیدالیتمیٰ اسکول کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے بانی ہیڈ ماسٹر بنائے گئے۔ اُس وقت اسکول کوباقاعدہ منظوری نہیں ملی تھی۔ آپ کی تگ و دو سے ۱۹۹۹ء میں اسکول کو منظوری ملی۔ ۲۰۱۰ء میں آپ وہاں سے سرکاری طور پر ریٹائر ہوئے لیکن آپ کا شمار بھی اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جو سبکدوشی میں یقین نہیں رکھتے۔ اس کے بعد میرا روڈ ہی میں واقع نورجہاں اردو ہائی اسکول کو اپنی خدمات پیش کیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آپ نے روزنامہ انقلاب کیلئے کئی بار ایس ایس سی کیلئے ماڈل پرچے تیار کئے ہیں۔ 
محمد خورشید صدیقی (ممبئی)
(میونسپل کارپوریشن اسکول سے ۲۰۰۶ء میں سبکدوش)


 خورشید احمد صدیقی تعلیم کے ساتھ ہی سماجی، ادبی، سیاسی، نیم سیاسی اور مسلمانوں سے متعلق ہر قسم کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ آپ نے ۱۹۷۲ء میں باولہ مسجد کے پاس واقع میونسپل کارپوریشن کے اسکول سے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ماہم، بائیکلہ اور دوسری جگہوں سے ہوتے ہوئے ۱۹۷۵ء میں وکھرولی کے میونسپل اسکول میں آپ کا تبادلہ ہوا جہاں آپ ۱۹۹۶ء تک رہے۔ دوران تدریس ہی آپ نے بی ایڈ، ایم ایڈ اور ڈپلومہ اِن جرنلزم کیا۔ ۲۰۰۶ء میں آپ نے ’وی آر ایس‘ (رضاکارانہ طور پر سبکدوشی) لیا اور پھر کل وقتی طور پر تعلیمی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ ۲۰۰۸ء میں آپ مہاراشٹر راجیہ اُردو ساہتیہ اکیڈمی کے کارگزار صدر نامزد ہوئے۔ اسی درمیان قومی کونسل برائے فروغ اردو کے فاصلاتی نظام تعلیم کے شعبے میں ۵؍سال تک ممبر رہے۔ اسی طرح چراغ نگر میں ’لٹل اسٹار انگلش اسکول‘ میں جنرل سیکریٹری ہیں۔ 
عذرا نسرین عبدالحکیم خان (ممبئی)
(آئیڈیل ہائی اسکول اینڈجونیئر کالج، چیتا کیمپ سے ۲۰۲۰ء میں سبکدوش)


  عذرا مس نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۹۱ء میں آئیڈیل ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج چیتا کیمپ سے کیا تھا اور وہیں سے ۲۰۲۰ء میں آپ کی سبکدوشی عمل میں آئی۔ وہاں پر آپ کی تقرری سینئر لیکچرار کے طور پر ہوئی تھی لیکن آپ کی انتظامی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر انتظامیہ نے ۲۰۱۳ء میں آپ کو پرنسپل کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ دوران تدریس، آپ طلبہ کی غیرتدریسی سرگرمیوں پر بھی پوری توجہ دیتی تھیں۔ دراصل وہ ان کا خیال ہے کہ طلبہ کہ ہمہ جہت نشو و نما ہونی چاہئے، اسلئے وہ طلبہ کی نفسیات کا مطالعہ کرکے ایک اس کی منصوبہ بندی کرتی تھیں۔ سرکاری طور پر ریٹائر ہونے کے بعد بھی گھر بیٹھ کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگانا چاہتی تھیں، اسلئے جوگیشوری میں واقع ’دی اسکالرز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ‘ سے بطور پرنسپل وابستہ ہوگئی ہیں۔ آپ کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے اب تک آپ کو ۱۶؍ ایوارڈس مل چکے ہیں۔ 

  سنجیدہ اور شگفتہ مزاجی کےحسین امتزاج کے حامل عبداللہ خان نے اپنے تدریسی کریئر کاآغاز ۱۹۷۹ء میں گھاٹ کوپر میں واقع میونسپل کارپوریشن اسکول سے کیا۔ ۲۰۱۴ء میں آپ کو ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں اور آپ کا تبادلہ گھاٹ کوپر ہی میں واقع جے مہاراشٹر میونسپل اردو اسکول میں کردیا گیا۔ دو سال بعد ۲۰۱۶ء میں وہیں سے آپ کی سبکدوشی عمل میں آئی۔ ۳۶؍ سال کی ملازمت میں آپ نے ۵؍ مختلف اسکولوں میں اپنی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بچوں کیلئے تقریر لکھنے اور انہیں تقریر کرنے کیلئے تیار کرنے میں آپ کو مہارت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت وہ انعامات ہیں جو اُن کے طلبہ کو ملے ہیں۔ ان کے طلبہ کو کل ہند سطح پر تین اور ریاستی اور ضلع سطح پر ۳۰؍ سے زائد انعامات ملے ہیں۔ ان کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ایک کتاب ’تقریر کی لذت‘ ان کی انعام یافتہ تقریروں کا مجموعہ ہے جبکہ دوسری کتاب ’فاطمہ شیخ: ملک کی پہلی مسلم معلمہ‘ ہے۔ 
عبدالملک مومن (بھیونڈی)
(صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے ۲۰۰۹ء میں سبکدوش)


 بیک وقت کئی مضامین میں مہارت رکھنے والے عبدالملک مومن کی صمدیہ ہائی اسکول میں تقرری ۱۹۷۶ء میں فزکس کے ٹیچر کے طور پر ہوئی تھی۔ کچھ برسوں بعدآپ کو انگریزی پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اسکول کا رزلٹ بہتر ہوا تو پھر آپ کو انگریزی ہی دے دی گئی۔ ۲۰۰۹ء میں آپ اسسٹنٹ پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ فاصلاتی نظام تعلیم کو فروغ دینے کیلئے حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں اس کیلئے اسٹڈی سینٹر کھولا گیا اور اس کی ذمہ داری ملک سر کو سونپی گئی۔ آپ کے کوآرڈی نیٹر رہتے ہوئے اس سینٹر کی ایک طالبہ کو گولڈ میڈل بھی حاصل ہوا تھا۔ آپ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ آپ کے لکھے ہوئے ترانے رئیس جونیئر کالج، رابعہ جونیئر کالج اور الحمد جونیئر گالج میں گائے جاتے ہیں۔ آپ نے کئی کتابیں تخلیق کی ہیں جن میں بعض کی حیثیت دستاویزی ہے۔ 

سلمیٰ لوکھنڈوالا(ممبئی )
(انجمن اسلام باندرہ سے۲۰۰۷ء میں سبکدوش)


سلمیٰ لوکھنڈ والا کی پہچان کئی حوالوں سے ہے لیکن سب سے بڑی پہچان آپ کا عزم و استقلال ہے۔ تکان، مایوسی اور شکایت کو آپ اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں۔ آپ نے ۱۹۷۱ء میں گریجویشن سے قبل ہی اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کردیا تھا۔ ایک سال فاروق ہائی اسکول میں پڑھانے کے بعد ۱۹۷۲ء میں کمو جعفر گرلز ہائی اسکول سے وابستہ ہوئیں جہاں ۲۲؍سال تک رہیں۔ ۱۹۹۴ء میں انجمن اسلام باندرہ سے بحیثیت پرنسپل وابستہ ہوئیں۔ ۲۰۰۷ء میں سرکاری طورپر آپ سبکدوش ہوئیں لیکن چونکہ مزاج میں ’آرام‘ کرنا نہیں تھا، اسلئے انجمن اسلام سےبطور ’ڈائریکٹر برائےاسکول ایجوکیشن ‘وابستہ ہوگئیں۔ خدمات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن جون ۲۰۲۰ء سے آپ یہ کام اعزازی طورپر کررہی ہیں۔ ۲۰۲۱ء میں آپ انجمن اسلام انتظامیہ کی رکن نامزد ہوئیں اور۲۰۲۳ء میں بلا مقابلہ جنرل کاؤنسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ کل ہندمقابلہ دینیات میں آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 
قاسم ندیم (ممبئی)
(میونسپل کارپوریشن کے اسکول سے ۲۰۱۹ء میں سبکدوش)


 میونسپل اسکول کے بچوں کو تعلیم دے کر انہیں مسابقت کے میدان میں اُتارنے والے سید قاسم سید اعظم کو ادبی حلقوں میں قاسم ندیم کے نام سے جاناجاتا ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز ۱۹۸۵ء میں شیواجی نگر گوونڈی کے میونسپل اسکول نمبر۲؍ سے بطور معاون معلم کیا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں آپ صدر مدرس بنائے گئےاور اسی عہدے سے ۲۰۱۹ء میں شاہ جی نگر، چیتا کیمپ کے میونسپل اسکول سے سبکدوش ہوئے۔ آپ کی پہچان ایک اچھے معلم کے ساتھ ہی ایک اچھے مترجم اور ایک اچھے شاعر کے طورپر بھی ہے۔ آپ نے مراٹھی اور انگریزی کی کئی قابل ذکر نگارشات کو اُردو کے قالب میں ڈھالنے اور بین الاقوامی ادب سے اُردو کے قارئین کو روشناس کرانے کا کام کیا ہے۔ آپ کی شاعری میں پائی جانے والی گہرائی اور گیرائی کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برسوں قبل مشہور ناقد شمس الرحمان فاروقی نے انہیں جلد ازجلد مجموعہ کلام شائع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ 
صغیراحمد کبیرالدین شیخ (کلیان)
(میونسپل کارپوریشن کے اسکول سے ۲۰۱۷ء میں سبکدوش)


 صغیر احمد کبیرالدین شیخ کو ممبئی میں خاندیش کے ایک سفیرکے طورپر جانا جاتا ہے۔ آپ ۱۹۸۱ء میں بطور اسسٹنٹ ٹیچر میونسپل کارپوریشن ممبئی سے وابستہ ہوئے۔ آپ کی پہلی تقرری میونسپل اسکول پارک سائٹ وکھرولی میں ہوئی۔ ۲۰۱۷ء میں آپ ہیڈ ماسٹر کے طور پر دھاراوی کے میونسپل اسکول شرامک ودیا پیٹھ سے سبکدوش ہوئے۔ جس وقت آپ کی وہاں تقرری ہوئی تھی، وہ اپنی خستہ حالی کیلئے میونسپل اسکولوں میں بدنام تھا۔ وہاں بیت الخلا تک کاانتظام نہیں تھا لیکن آپ کی جدوجہد سے چند ہی برسوں میں اس اسکول کا حلیہ تبدیل ہوگیا۔ تعلیم کیلئے جدوجہد دراصل آپ کی فطرت میں شامل ہے جس کا منہ بولتا ثبوت خاندیش کا مشہور ادارہ ’کاغذی ایجوکیشن سوسائٹی‘ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے آپ بانی صدر تھے۔ اس سےقبل بھی سماجی اورفلاحی کاموں سے آپ کی وابستگی رہی تھی لیکن مذکورہ سوسائٹی کےقیام کے بعد وہ کام منظم انداز میں ہونے لگا۔ 
محمد رفیع انصاری (بھیونڈی)
(رئیس ہائی اسکول سے ۲۰۰۹ء میں سبکدوش)


 محمد رفیع انصاری بچوں کے ادیب اور بڑوں کے استاد ہیں۔ آپ نے اپنے کریئر کا آغاز دوران طالب علمی ہی میں کر دیا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں آپ بی این این کالج میں بی اے فائنل ایئر کے طالب علم تھے، اسی دوران کالج کی ایک تقریب میں نظامت کرتے ہوئے رئیس ہائی اسکول کے پرنسپل سرگروہ سر نے دیکھ لیا تھا۔ وہ آپ کی نظامت سے اتنا مثاتر ہوئے کہ فوری طورپر اپنے ادارے میں مدرسی کی پیشکش کردی تھی۔ ۱۹۷۵ء میں رئیس ہائی اسکول کا نظام پورہ سیکشن (اب رفیع الدین ہائی اسکول) شروع ہوا تو آپ کو نظام پورہ بھیج دیا گیا۔ ۲۰۰۰ء میں ایک سال کیلئے آپ رئیس ہائی اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ جی ایم مومن ویمنس کالج اور بی این این کالج میں بھی آپ نے جزوقتی تعلیم دی ہے۔ آپ کے تعلق سےکہا جاتا ہے کہ آپ بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے تھے اور اس سے کہیں زیادہ توجہ ان کی تربیت پر دیتے تھے۔ آپ کے انشائیوں کے تین اور بچوں کی نظموں کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ 
عبدالعزیز عبدالغفور انصاری (بھیونڈی)
(رئیس ہائی اسکول سے ۲۰۱۸ء میں سبکدوش)


  عزیز سر کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جو وقت کی پابندی بھرپور کرتے ہیں لیکن گھڑی دیکھ کرکام نہیں کرتے۔ آپ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ آپ ۲۴؍ گھنٹے میں ۴۸؍ گھنٹے کا کام کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز۱۹۸۴ء میں اعظم گڑھ ضلع کے نصیر پور علاقے میں واقع اسلامیہ جونیئر ہائی اسکول سے کیا تھا۔ ۱۹۸۸ء میں بھیونڈی آئے اور رئیس ہائی اسکول سے وابستہ ہوگئے۔ ۲۰۱۳ء میں سپروائزر اور ۲۰۱۵ء میں وائس پرنسپل مقرر ہوئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے ۲۰۱۸ء میں سبکدوش ہوئے۔ آپ کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو ادارے میں جاری ’یشونت راؤ چوہان یونیورسٹی‘ کے اسٹڈی سینٹر کا فاؤنڈر کوآرڈی نیٹر بنایا گیا۔ اسی کے ساتھ آپ الحمد ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی مجلس منتظمہ کے رکن، الحمد اُردو ہائی اسکول کے چیئرمین، الحمد فرینڈ سرکل کے سربراہ اور رئیس ہائی اسکول کے اساتذہ کی انجمن ’بزم علم و ادب‘ کے سیکریٹری بھی ہیں۔ 

پروفیسر عبدالستار دلوی(ممبئی )
( ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ۱۹۹۷ء میں سبکدوش)


 پروفیسرعبدالستار دلوی کا شمار شہر کے اُن اساتذہ میں ہوتا ہے، جن کے شاگردوں کی تیسری اور چوتھی نسل ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کریئرکاآغاز ۱۹۶۲ء میں اسماعیل یوسف کالج سےکیا تھا۔ آپ کومہاتما گاندھی میموریل ریسرچ سینٹر اینڈ لائبریری کےبانی ڈائریکٹر اورمصر کی مشہور یونیورسٹی ’جامعہ عین شمس‘ میں شعبۂ اردو کے بانی پروفیسر ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ ممبئی یونیورسٹی سے’کرشن چندر چیئر‘ پروفیسر کے طو رپر آپ کی وابستگی ۱۹۸۲ء میں ہوتی ہے اور وہیں سے ۱۹۹۷ء میں صدر شعبۂ اردو کے طورپرسبکدوشی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بھی آپ درس و تدریس سے وابستہ رہےہیں۔ اس دوران آپ سینٹرل منسٹری آف کلچر کے سینئر ریسرچ فیلو، دکن مسلم ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پونے کے ڈائریکٹر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ایڈوائزر اور انجمن اسلام اُردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ 
پروفیسر یونس اگاسکر (ممبئی)
( ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ۲۰۰۵ء میں سبکدوش)


 پروفیسر یونس اگاسکر ایک فطری معلم ہیں۔ آپ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی میں کردیا تھا۔ رئیس ہائی اسکول بھیونڈی سےتعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں پر بحیثیت مدرس وابستہ ہوگئے تھے۔ اس کے بعدسینٹ زیویرس کالج سے بی اے کرنے کے بعد مہاتما گاندھی میموریل ریسرچ سینٹر اور مہاراشٹر کالج سے وابستگی اختیار کی۔ ۱۹۸۰ء میں ’تقابلی ادب‘ کیلئے ’گرودیو ٹیگور چیئر‘ پروفیسر کے طور پر ممبئی یونیورسٹی میں تقرری عمل میں آئی۔ ۱۹۸۲ء میں ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا تو شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ آپ کو اردو اور مراٹھی کے درمیان ایک پل کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں پہلی تنقیدی کتاب ’مراٹھی ادب کا مطالعہ‘ جسے مراٹھی ادب کی تنقیدی تاریخ بھی کہا جاتا ہے، منظر عام پر آئی۔ آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ 
پروفیسر سید اقبال (ممبئی)
(برہانی کالج سے ۲۰۱۰ء میں سبکدوش) 


 پروفیسرسید اقبال کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ آپ ایک مخلص مدرس کے ساتھ ہی ایک خوش اخلاق، ملنسار اور مہذب انسان ہیں اور تدریس کے ساتھ ہی تحریر میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ تعلیم مکمل کرتے ہی آپ ۱۹۷۳ء میں برہانی کالج سے وابستہ ہوگئے تھے اور وہیں سے ۲۰۱۰ء میں سبکدوش ہوئے۔ آپ نے سماجیات کی تعلیم حاصل کی اور سماجیات ہی کی تعلیم دی لیکن سماجیات کےساتھ ہی انسانی نفسیات اور اردو زبان پر آپ کو کمال حاصل ہے۔ اس کا واضح ثبوت روزنامہ انقلاب میں ۳۰؍ برسوں تک شائع ہونے والے آپ کے دونوں کالم ’سائنس اورسماج‘ اور ابو اخلاص کی ڈائری‘ہیں۔ آپ نے ان کالموں کا آغاز ۱۹۸۹ء میں کیا تھا۔ دوران تدریس اور سبکدوشی کے بعد بھی وقت کی پابندی آپ کا خاصہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ آپ اپنی صحت کا بھی کافی خیال رکھتے ہیں۔ آپ اس بات کیلئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس عمر میں بھی کسی بڑی بیماری سے محفوظ ہیں۔ 
قاسم رضا سر (ممبئی)
(شاد آدم شیخ اردو ٹیکنیکل ہائی اسکول، بھیونڈی سے ۱۹۸۷ء میں سبکدوش)


 قاسم رضا سر کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جن کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بھی سبکدوش ہوچکی ہے۔ یہ آپ کا اعزاز ہے کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، ہر کوئی آپ کو ’سر‘ کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہے۔ ایک طرح سے یہ آپ کے نا م کا ایک لازمی جز بن گیا ہے۔ آپ نے ۱۹۴۵ء میں ’اسوسی ایشن مڈل اسکول‘ امراؤتی سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد کئی اداروں سے وابستہ ہوتے ہوئے آپ انجمن اسلام کرلا سے جڑے اور ۱۹۷۶ء میں بھیونڈی کے تعلیمی ادارے ’شاد آدم شیخ ٹیکنیکل ہائی اسکول‘ سے وابستہ ہوئے اور وہیں سے ۱۹۸۷ء میں سبکدوش ہوئے۔ ریاضی کے استاذ کے طورپر آپ کی شہرت ریاست گیر رہی ہے لیکن ریاضی کے ساتھ ہی حسب ضرورت آپ انگریزی، عربی اور دیگر مضامین بھی پڑھائے ہیں۔ آپ کی بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ دوران تدریس آپ ایک ایک طالب علم پر توجہ دیتے تھے اور اس کے تمام تر تعلیمی مسائل کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ 
سیدہ نوشاد بیگم محمود (کلوا، تھانے)
 (میونسپل کارپوریشن اسکول ممبئی سے ۲۰۰۸ء میں سبکدوش)


 سیدہ نوشاد بیگم محمود کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ جتنی فعال دوران ملازمت تھیں، اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ فعال آج ہیں۔ اس کا واضح ثبوت ان کی تخلیق کردہ کتابیں ہیں۔ ۲۰۰۸ء سے اب تک آپ کی ۱۶؍ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سے ۱۰؍ کتابیں مراٹھی سے ترجمہ کی گئی ہیں اور ۶؍ کتابیں ان کی اپنی تخلیق کردہ ہیں۔ ان کی بیشتر کتابوں کا موضوع ’شخصیت سازی‘ ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دوران تدریس بھی وہ شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دیتی رہی ہیں۔ ۱۹۶۸ء میں رابوڑی میں واقع آئیڈیل ہائی اسکول سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کرنے والی سیدہ نوشاد بیگم ۲؍ سال بعد ممبئی میونسپل کارپوریشن سے وابستہ ہوگئیں جہاں وہ ۳۸؍ سال تک شعبہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ اس دوران ۱۰؍ سال تک صدر مدرس بھی رہیں اور ۲۰۰۸ء میں ایس جی بروے مارگ کرلا کے میونسپل اسکول سے سبکدوش ہوئیں۔ مختلف اکیڈمیوں سے آپ کو ۱۱؍ ایوارڈس مل چکے ہیں۔ 
عبدالسلام عبدالغفور منورے(ممبرا )
( پٹیل ہائی اسکول ممبرا سے ۲۰۱۷ء میں سبکدوش)


 عبدالسلام عبدالغفور منورے نے ۸۵۔ ۱۹۸۴ء میں شولا پور کے مشہورتعلیمی ادارے ’پروگریسیو اُردو ہائی اسکول‘ سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد کئی تعلیمی اداروں سے ہوتے ہوئے ۱۹۸۶ء میں ممبرا آئے اور ’پٹیل اُردو ہائی اسکول‘ سے بطوراسسٹنٹ ٹیچر وابستہ ہوئے۔ ۱۰؍ سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۹۷ء میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے اور ہیڈ ماسڑ رہتے ہوئے ۲۰۱۷ء میں سبکدوش ہوئے۔ آپ بنیادی طور پر ریاضی کے استاد رہے ہیں لیکن اس کےساتھ ہی آپ نے سائنس اور دیگر مضامین کی بھی تعلیم دی ہے۔ دوران گفتگو آپ نے بتایا کہ ہم نےکبھی انعام، ایوارڈ اور کسی ستائش کی تمنا نہیں کی لیکن میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے میں اپنی زندگی کاحسین لمحہ تصور کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ’’ ایک مرتبہ مجھے بیسٹ پرنسپل کا ایوارڈ ملا۔ اس ایوارڈ کے بعد ایک ’ٹور ایجنسی‘ نے مجھے بطور اعزاز عمرہ پر بھیجا۔ میرے نزدیک میرے لئے وہ ایک بڑا انعام تھا۔ ‘‘
 نسرین شیخ (ممبرا)
(عبداللہ پٹیل ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، ممبرا سے ۲۰۲۳ء میں سبکدوش)


 صرف ممبرا ہی نہیں بلکہ ممبئی اور اطراف کے تعلیمی حلقوں میں نسرین شیخ کا نام بہت احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز سدھارتھ کالج، ممبئی سے کیا۔ وہیں سے ایم ایس سی مکمل کرنے کے بعد آپ وہیں پڑھانے لگی تھیں۔ شادی کے بعد ۱۹۹۰ء میں ممبرا آئیں تو پھر ممبرا کے عبداللہ پٹیل ہائی اسکول سے وابستہ ہوئیں۔ عبداللہ پٹیل میں اُس سال ایس ایس سی کا پہلا بیچ تھا۔ آپ کی تنظیمی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر انتظامیہ نے اگلے ہی سال آپ کو اپنے ادارے کی سربراہی سونپ دی جس کے بعد ادارے نے دن دونی رات چوگنی کی رفتار سے ترقی کی۔ ان دنوں ممبرا میں لڑکیوں کیلئے جونیئر کالج کی تعلیم کاانتظام نہیں تھا۔ آپ نے اس کیلئے کوششیں شروع کیں تو ۱۹۹۶ء میں جونیئر کالج کی منظوری مل گئی۔ اُس وقت ایک ایک کام کیلئے ناسک تک دوڑ بھاگ کرنی پڑتی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں عبداللہ پٹیل اسکول میں انگلش میڈیم کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ 
بلال احمد علی احمد مومن (بھیونڈی)
(صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے ۲۰۰۹ء میں سبکدوش)


 بھیونڈی میں بلال سر کو ایک خوبصورت اور قابل تقلید’ تضاد‘ کے ساتھ یاد کیاجاتا ہے۔ آپ عام زندگی میں جتنے سادہ، شریف اور منکسرالمزاج ہیں، ڈسپلن اور اصول کے معاملے میں اتنے ہی سخت ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شہر میں اُن کے دور کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی تدریسی خدمات کاآغاز ۱۹۷۴ء میں ہوا۔ اُسی سال صمدیہ اسکول کا قیام بھی عمل میں آیا تھا جہاں پانچویں تا آٹھویں تک تعلیم کا نظم تھا جو بتدریج ایس ایس سی تک پہنچا۔ دو سال بعد آپ وہاں کے ہیڈ ماسٹربنائے گئے۔ آپ کے دور میں صمدیہ ہائی اسکول سے جونیئر کالج بنا اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا اسٹڈی سینٹر قائم ہوا۔ آپ ۳۳؍ سال تک ریکارڈ پرنسپل کے عہدے پررہے۔ آپ کی خدمات کااعتراف صدر جمہوریہ نے بھی کیا تھا۔ ۵؍ ستمبر ۲۰۰۹ء کو سال برائے ۲۰۰۸ء کیلئے آپ کو صدر جمہوریہ ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپ کو بہت سارے سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ ملے ہیں۔ 
وحیدہ حفیظ الرحمان (بھیونڈی)
(جی ایم مومن ویمنس کالج، بھیونڈی سے ۲۰۰۷ء میں سبکدوش)


 وحیدہ حفیظ الرحمان حالانکہ سبکدوش ہوچکی ہیں لیکن وہ آج بھی پوری طرح سے فعال ہیں اور تعلیمی و ادبی تقریبات میں شریک ہوتی ہیں۔ بھیونڈی میں خاتون ٹیچرس کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے کافی ہے اوراس میں ایک خاص بات ہے یہ کہ ان ٹیچروں میں سے بیشتر کو وحیدہ مس نے پڑھایا ہے۔ آپ اپنی ان طالبات کو اپنا فخر، اپنا غرور اور اپنا ایوارڈ قرار دیتی ہیں۔ آپ نے اپنے کریئر کا آغاز ۱۹۷۰ء میں جوگیشوری کے ایک اسکول سے کیا تھا۔ اس کے بعد انجمن اسلام سے وابستہ ہوئیں۔ بھیونڈی آئیں تو مومن گرلز سے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز کیا۔ کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی نے جی ایم مومن گرلز کالج کی بنیاد ڈالی تو وحیدہ مس کو اردو کی تدریس کیلئے منتخب کیا جہاں سے ۲۰۰۷ء میں سبکدوش ہوئیں۔ وحیدہ مس دوران طالب علمی میں تحریر، تقریر اور ڈراموں میں حصہ لیا کرتی تھیں اور انعامات بھی حاصل کرتی ہیں۔ تقریر اور تحریر کی وہ ساری خوبیاں آج بھی ان کاسرمایہ ہیں۔ 
اشفاق احمد قیصر حسین (مالیگاؤں )
(مالیگاؤں اسکول نمبر ۳۳؍ سے ۲۰۲۴ء میں سبکدوش)


 اشفاق احمد قیصر حسین نے اپنے تدریسی کریئر کا آغاز دھولیہ کے اے آئی ٹی پرائمری اسکول سے کیا۔ بعد میں مالیگاؤں کے میونسپل اسکول سے وابستہ ہوگئےاور ابھی اسی سال اسکول نمبر ۳۳؍ سے بطور ہیڈ ماسٹر سبکدوش ہوئے۔ آپ کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ صرف تدریس پرتوجہ نہیں دیتے تھے بلکہ طلبہ کے تمام مسائل سے بھی آگاہ رہتے تھے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ نے سٹی کالج مالیگاؤں سے بی اے کیا، ایم ایس جی کالج سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اورنگ آباد سے بی پی ایڈ کیا۔ وہ زمانہ طالب علمی کا رہا ہو یا تدریس کا، آپ کی زندگی بہت جدوجہد کی رہی ہے۔ آپ کی تعلیمی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے ۲۰۰۴ء میں مالیگاؤں لائنس کلب نے اور ۲۰۱۶ء میں مہاراشٹر راجیہ پراتھمک سمیتی نے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK