اسلام، امن و سلامتی اور احترام آدمیت کا درس دیتا ہے اس لئے وہ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے جس سے امن و سکون اور خوشیاں غارت ہونے کا اندیشہ ہو۔ دین فطرت ان تمام رویوں کی پرزور مذمت کرتا ہے جو نفرت و کدورت، فتنہ و فساد اور باہمی تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
یقیناً وہ معاشرہ جنت نظیر اور اس کے افراد جنتی کہلانے کے مستحق ہیں جن کا آئینۂ دل ایک دوسرے کے بارے میں مکدر نہیں ہوتا، جن کے دل بدگمانی، کینہ، بغض و عناد اور حسد سے پاک ہوتے ہیں۔ تصویر : آئی این این
مسجد نبویؐ کے صحن میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیاروں کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہیں۔ اچانک دروازے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :
’’اس دروازے سے وہ شخص نمودار ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ ‘‘
چند ہی لمحوں بعد ایک انصاری صحابی اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے۔ وضو کے قطرے ان کی ڈاڑھی سے ٹپک رہے تھے۔ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام پیش کرنے کے بعد وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ تمام صحابہ کی نظریں اس خوش نصیب ساتھی کے چہرے کی بلائیں لینے لگیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دوسرا دن ہوا تو آج بھی رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ صحابہ کی اشتیاق بھری نظریں دروازے پر لگ گئیں کہ دیکھیں آج یہ بشارت کس کے حصے میں آتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس دفعہ بھی وہی انصاری صحابی دروازے پر نمودار ہوئے۔ جب تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور وہی انصاری صحابی حضور علیہ السلام کی بشارت کی نعمت سے سرفراز ہوئے تو صحابہ کرامؓ کے دلوں میں رشک کے ساتھ ساتھ تجسس بھی پیدا ہوگیا۔
مجلس برخواست ہوئی اور یہ انصاری صحابی حضور کی مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے ہو لئے۔ انصاری اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کسی وجہ سے میں تین راتیں اپنے گھر نہیں جانا چاہتا۔ کیا آپ مجھے اپنے ہاں قیام کی اجازت دیں گے؟ آیئے بسم اللہ کہہ کر وہ انصاری حضرت عبداللہ بن عمر کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہوں نے تین راتیں قیام فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس جستجو میں تھے کہ دن بھر کے معمولات کے علاوہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا محبوب قرار پایا کہ تین دن تک جنت کی نوید صرف انہی کا نصیب بنتی رہی۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی بھی تو غیر معمولی عمل اس انصاری کا نظر نہ آیا۔ ان کے شب و روز کے معمولات وہی تھے جو باقی تمام صحابہ کرامؓ کے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: پسماندہ طبقات سے ہمدردی اور اظہار ِیک جہتی
آخر انہیں اپنا دل کھول کر اس انصاری دوست کے سامنے رکھنا پڑا۔ میرے بھائی! میں نہ تو اپنے گھر سے لڑ کر آیا تھا اور نہ ہی کسی اور وجہ سے آپ کے ہاں ٹھہرنے پر مجبور ہوا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے آقا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل تین دن تک یوں فرماتے رہے اور آپ کے لئے جنت کی نوید سناتے رہے۔ میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے آپ کے لئے بشارت کا سبب بنا۔ میں تین دن دیکھتا رہا لیکن مجھے تو آپ کا کوئی خاص اور غیر معمولی کام نظر نہیں آیا۔ میری درخواست ہے کہ اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیجئے۔
انصاری صحابی نے مسکرا کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھا اور بڑی تواضع سے فرمایا : میرے دوست سب کچھ تمہارے سامنے تھا۔ میرا تو کوئی خاص عمل نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ان کا جواب سن کر جب میں وہاں سے واپس آنے لگا تو انہوں نے فرمایا : عمل تو وہی کچھ تھا جو آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ ہاں اپنے من کی ایک بات سے تمہیں ضرور آگاہ کردیتا ہوں فرمایا :
انّی لَا اَجِدُ فِی نَفْسِی لِاَحَدٍ من المسلمين غِشًّا وَلَا اَحْسَدُ احدًا علٰی خير اعطاه اللّٰهُ اِيّاهُ.’’میرے دل میں کسی مسلمان کے لئے کینہ نہیں ہے اور نہ میں اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی کسی خیر پر حسد کرتا ہوں۔ ‘‘
دوسری روایت میں ہے: انی لَمْ اَبِت ضاغنًا علی مسلمٍ.’’میں نے کسی مسلمان کے بارے میں کبھی اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھ کر رات نہیں گزاری۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر خوشی سے پکار اٹھے۔ یہی تو راز ہے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی مقبولیت کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انصاری صحابی کے من کا کسی اور مسلمان کے لئے حسد، کینہ اور بغض و عناد سے پاک ہونا ان کے لئے جنت کی خوشخبری کی نوید ِ سعید بن گیا۔
یقیناً وہ معاشرہ جنت نظیر اور اس کے افراد جنتی کہلانے کے مستحق ہیں جن کا آئینۂ دل ایک دوسرے کے بارے میں مکدر نہیں ہوتا، جن کے دل بدگمانی، کینہ، بغض و عناد اور حسد سے پاک ہوتے ہیں۔ وہ نفرت، عداوت اور انتقام کی نفسیات میں جینے کے بجائے محبت، رحمدلی، تحمل، عفو و در گزر اور لطف و احسان کی پرامن اور طمانیت بخش فضاؤں میں سانس لینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود خوشیاں اور سکون سمیٹتے ہیں بلکہ اوروں کے لئے بھی ان نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اسلام، امن و سلامتی اور احترام آدمیت کا درس دیتا ہے اس لئے وہ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے جس سے امن و سکون اور خوشیاں غارت ہونے کا اندیشہ ہو۔ دین فطرت ان تمام رویوں کی پرزور مذمت کرتا ہے جو نفرت و کدورت، فتنہ و فساد اور باہمی تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان تمام منفی رویوں پر غور کیا جائے تو ان کے نشانات قدم سوءِ ظن یعنی بدگمانی کے گھر کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
سوءِ ظن یعنی بدگمانی وہم اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہونے والی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کا سکون قلب غارت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ بیماری اپنے پاؤں جماتی ہے کینہ، بغض و عناد جیسی مزید مہلک بیماریاں بھی اس کے اندر سرایت کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سوچ بڑھتے بڑھتے آخر کار اسے تصادم اور انتقام کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ یوں ایک پورے کنبے یا خاندان کی خوشیاں اور باہمی محبتیں اور الفتیں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بدگمانی کے مرض کو قوموں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا :’’تم نے ایک دوسرے کے بارے میں برا گمان رکھا اور تم برباد ہونے والی قوم تھے۔ ‘‘ (الفتح:۱۲)
قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں اپنے دامن اخلاق کو اس سے پاک رکھنے کی تاکید کی :
’’اے ایمان والو! ظن (گمان) سے بہت کام نہ لیا کرو یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ‘‘ (الحجرات :۱۲)
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے امکانات کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود دوسری اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک نہیں کرسکتا۔
بدگمانی کی کوکھ سے بغض و عناد اور بغض و عناد کے بطن سے غیبتیں جنم لیتی ہیں جس سے دوسرے کے عیبوں کی تشہیر کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ غیبت اور بدگمانی کے ساتھ ساتھ مزید عیوب کی تلاش اور خامیوں کی کرید شروع ہو جاتی ہے تاکہ دوسرے فریق کی توہین و رسوائی کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے قرآن مجید نے بدگمانی کی مذمت کرنے کے بعد تجسس یعنی ٹوہ لگانے اور غیبت یعنی بدگوئی سے منع کرتے ہوئے فرمایا :’’نہ تو ٹوہ لگاؤ اور نہ غیبت کرو ‘‘(الحجرات : ۱۲) یعنی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس پر تہمت اور الزام نہ دھرو اور نہ اس کی بے عزتی و رسوائی کا سامان کرنے کے لئے اس کی خامیوں اور غلطیوں کی مزید کرید کرو بلکہ اسلام کا مطالبہ اہل ایمان سے یہ ہے کہ جو عیب اور خامیاں تمہارے مسلمان بھائی کی تمہارے علم میں آچکی ہیں ان پر بھی پردہ ڈالو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ ‘‘ اور فرمایا :’’جس نے کسی کا مخفی عیب دیکھ لیا اور پھر اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جس طرح کسی نے زندہ درگور کی ہوئی بچی کو موت کے منہ سے بچالیا۔ ‘‘
جب گمان کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے اور بدگمانیاں غالب آنے لگتی ہیں تو تجسس اور کرید کے ذریعے دوسروں کے پوشیدہ معاملات کی کھوج شروع ہوجاتی ہے کہ کون کون سی ان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بداخلاقی ہے جو فساد، بدامنی اور بے سکونی کی نہ صرف راہ ہموار کرتی ہے بلکہ اس شخص کی خود اپنی رسوائی کا بھی سامان ہونے لگتا ہے۔