• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار میں اپوزیشن اتحاد کی سرگرمیاں تیز

Updated: January 10, 2024, 11:34 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں نتیش کمار کی طرف سے ہی یہ پہل ہوئی تھی کہ قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کو متحد ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اسی پہل کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ وجود میں آیا ہے اور اب تک اس کی تین میٹنگیں ہو چکی ہیں ۔

bihar
بہار

پارلیمانی انتخابات اپنے وقت پر اپریل یا مئی میں ہونا طے ہے اور اس کی آہٹ کا آغاز ابھی سے ہی ہو چکا ہے۔ایک طرف حکمراں جماعت اپنے انتخابی حکمت عملی کے خاکوں کو آخری شکل دینے میں مصروف ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنی سطح پر اس کی تیاری شروع کردی ہے۔بالخصوص قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندی کے بعد ’’انڈیا‘‘ میں شامل تمام سیاسی جماعتیں سیٹوں کی تقسیم کو لے کر غور وفکر میں لگی ہیں۔ بہار میں عظیم اتحاد میں شامل جنتا دل متحدہ ، راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس اور بایاں محاذ کی جماعتوں میں بھی سیٹوں کی حصہ داری کو لے کر گفت وشنید شروع ہوگئی ہے ۔واضح رہے کہ بہار میںپارلیمنٹ کی چالیس سیٹیںہیں اور عظیم اتحاد اس بار پارلیمانی انتخاب میں تمام سیٹوں پر غیر بھاجپائی واحد امیدوار کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کی حکمت عملی طے کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ جنتا دل متحدہ کے قومی صدر اور ریاست کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پہلے ہی اپنا موقف ظاہر کر چکے ہیں کہ کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل مل بیٹھ کر پہلے طے کر لے کہ وہ کتنی سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ پھر انڈیا اتحاد میں شامل دیگر اتحادیوں سے بھی گفت وشنید شروع کی جائے گی لہٰذاگزشتہ روز دہلی میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے لیڈران کی میٹنگ ہوئی اور اس میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے پالیسیاں طے ہوئیں۔اگرچہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کی طرف سے کوئی واضح بیان سیٹوں کی تقسیم کو لے کر عام نہیں ہوا ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں یہ سرخیاں سامنے آرہی ہیں کہ کانگریس بہار میں آٹھ سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی ہے جب کہ راشٹریہ جنتا دل انہیں چار سیٹیں ہی دینے کے حق میں ہے تاکہ دیگر اتحادیوں کو مطمئن کیا جا سکے۔لیکن کانگریس حلقے میں اس کو لے کر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔اگرچہ ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن کانگریس چاہتی ہے کہ اسے خاطر خواہ حصہ داری ملے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کانگریس کو چھ سیٹوں تک دینے کو تیار ہو جائے گی ۔واضح ہو کہ دہلی میں کانگریس لیڈر مکل واسنک کی رہائش گاہ پر کانگریس لیڈر سلمان خورشید، اشوک گہلوت کے ساتھ دیگر لیڈروں کی ملاقات راشٹریہ جنتا دل کے قومی صدر لالو پرساد یادو اور پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر پروفیسر منوج کمار جھا کے ساتھ بہار کانگریس کے صدر اکھلیش کمار سنگھ کی میٹنگ ہوئی اور میٹنگ کے بعد یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ سیٹوں کو لے کر کوئی پریشانی نہیں ہوگی البتہ یہ بھی بات سامنے آرہی ہے کہ بایاں محاذ کو بھی اس کی حصہ داری دینی ہوگی اور اس کیلئے ممکن ہے کہ جنتا دل متحدہ کو بھی اپنی کچھ سیٹیں قربان کرنی پڑیں۔یوں تو جنتا دل متحدہ کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا ہے لیکن وہ اپنے تمام سیٹنگ سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی ہے اور اس وقت ۱۷؍ سیٹیں جنتا دل متحدہ کے پاس ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا رخ سیٹوں کی تقسیم کو لے کر کیا رہتا ہے ویسے نتیش کمار شروع سے ہی مثبت نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کو جلد از جلد سیٹوں کے مسئلے کو حل کرلینا چاہئے اور پارلیمنٹ انتخابات کی تیاری میں لگ جانا چاہئے۔جنتا دل متحدہ کی حالیہ قومی میٹنگ میں بھی نتیش کمار اپنے تمام ممبران پارلیمنٹ ، ممبران اسمبلی اور پارٹی کے دیگر ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیںاب مزید تاخیر سے اپوزیشن اتحاد کا نقصان ہوگا ا س لئے جلد از جلد سیٹوں کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرکے ہمیں عوام کے درمیان جانے کی ضرورت ہے۔ بلکہ انہوں نے کانگریس کی تساہلی پر ناراضگی بھی ظاہر کی کہ وہ پارلیمانی انتخابات سے زیادہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کی کامیابی کے لئے فکر مند ہے ۔شاید نتیش کمار کے اس اشاریہ بیان کے بعد ہی کانگریس حرکت میں آئی اور راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ بیٹھ کر سیٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر غوروفکر کرنے کو تیار ہوئی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار میں عظیم اتحاد کی مشترکہ میٹنگ کب ہوتی ہے اور ریاست کی تمام چالیس سیٹوں کو لے کر کون سا حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ تقریباً سیٹوں کا فیصلہ کر چکی ہے اور وہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اپنے بوتھ کمیٹیوں کو فعال کرنے میں مصروف ہے جب کہ اپوزیشن اتحاد کی طرف سے اس طرح کی تیاری دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ 
 بہر کیف! بہار میں نتیش کمار کی طرف سے ہی یہ پہل ہوئی تھی کہ قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کو متحد ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اسی پہل کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ وجود میں آیا ہے اور اب تک اس کی تین میٹنگیں ہو چکی ہیں ۔ کانگریس کی طرف سے بھی حالیہ اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بعد یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کو پارلیمانی انتخابات کی سیٹوں کے مسئلے پر جلد از جلد فیصلہ کرنا چاہئے لیکن اس تلخ حقیقت سے ہم سب آگاہ ہیں کہ کئی ریاستوں میں کانگریس کیلئے یہ راستہ آسان نہیں ہے ۔ بالخصوص مغربی بنگال میں ممتا بنرجی ، بایاں محاذ کے ساتھ اور دہلی و پنجاب میں عام آدمی پارٹی کسی دوسری جماعت کے ساتھ سیٹوں کے معاملے پر فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔اس لئے کانگریس کو اس انتخاب میں ذہنی طورپر بڑی قربانیوں کیلئے تیار رہنا ہوگااگر واقعی وہ انڈیا اتحاد کی بدولت بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینا چاہتی ہے۔
  پارلیمانی انتخاب ملک میں جمہوریت کے استحکام اور بقا کیلئے نہ صرف غیر معمولی اہمیت وافادیت کا حامل ہے بلکہ اس انتخاب کے نتائج سے ہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سمت ورفتار بھی طے ہونے والی ہے اس لئے اپوزیشن اتحاد کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے کنوینر کا نام طے کرے اور انتخابی حکمت عملی کو آخری شکل دے۔گزشتہ روز دہلی کی میٹنگ میں ممتا بنرجی کی طرف سے کانگریس کے قومی صدر کھرگے کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طورپر پیش کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن کھرگے نے بڑی فراخدلی سے اپنا موقف ظاہر کیا کہ پہلے انتخابی نتائج کو سامنے آنے دیجئے اس کے بعد ہی وزیر اعظم کے چہرے کا اعلان کیا جائے گا۔دریں اثناء اپوزیشن اتحاد کی طرف سے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ’’انڈیا ‘‘ کے کنوینر بنائے جانے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں اگر واقعی نتیش کمار کو کنوینر بنایا جاتا ہے تو شاید وہ اپوزیشن اتحاد کیلئے امید کی کرن بن سکتے ہیں۔اگرچہ نتیش کمار نے اپنا موقف ظاہر کیا ہے کہ وہ صرف اور صرف اپوزیشن اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں ، وہ کسی عہدے کے متمنی نہیں ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے کنوینر شپ کا مسئلہ کب حل ہوتا ہے۔کنوینر شپ بھی اپوزیشن اتحادکیلئے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔n

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK