اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور انسانی آبادی ساری ترقیوں اور سہولتوں کے باوجود جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کی جو گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، اس کا علاج اگر کہیں مل سکتا ہے تو اسی پیغام اور اسی دستور حیات میں جو محمدؐ عربی لے کر آئے ہیں۔
ماہِ ربیع الاوّل اور اس کے بعد بھی پیغامِ محمدیؐ کو عملی طور پر عام کرتے رہنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این
ربیع الاول کا یہ مہینہ قمری سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بھولی بھٹکی اور گم کردہ راہ انسانیت کو فلاح و صلاح کی راہ دکھانے والا وہ دستور حیات ملا جو ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کیلئے، ہر زمانہ و ہر دور کے لوگوں کیلئے نسخۂ کیمیا ہے۔ اس دستور حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا ہے، نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا۔ کرۂ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے، یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے، وہ کہتا ہے: ’’تم سب آدم کے بیٹے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘ اس دستور حیات میں عزت و شرف کا معیارا میری ، غریبی اور قوم و قبیلہ کو نہیں بلکہ حسن کردار کو بتایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ (الحجرات:۱۳)
دنیا کی قو میں جس عظیم غلطی کا شکار رہی ہیں ، وہ ہے ۱۲؍ ربیع الاول کو پیدا ہونے والے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نہ ماننا جو دنیا کی ساری قوموں کیلئے نسخہ شفاء ہے۔ اس پیغام میں جو سب کیلئے ہے، سب جگہ کے لئے ہے، مرد و عورت، بوڑھے جوان، کنبہ و خاندان، حاکم و محکوم سب کیلئے راحت و آرام اور سکون و اطمینان کا سامان ہے، اور اس کا عملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میں پورے ۳۶؍ سال تک دنیا دیکھ چکی ہے، اور اس کا میٹھا پھل کھا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:شرعی احکام کے منافی ہے یونیفارم سول کوڈ، قابل قبول نہیں ہوسکتا! (قسط ۴)
۱۲؍ربیع الاول کو تشریف لانے والے رسولؐ کو انسانوں کیلئے جو دستور حیات دیا گیا، وہ صرف دستور کی حد تک نہیں رہا، بلکہ اللہ کے رسولؐ نے اس کے ایک ایک حکم پر عمل کر کے اُسے عملی طور پر نافذ کر کے دکھا دیا حتیٰ کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ رسولؐ کی حیات ِ مبارکہ میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں چلے، چنانچہ صاف صاف اعلان کردیا گیا: ’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ (کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔‘‘ (احزاب: ۲۱)
اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور انسانی آبادی ساری ترقیوں اور سہولتوں کے باوجود جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کی جو گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، اس کا علاج اگر کہیں مل سکتا ہے تو اسی پیغام اور اسی دستور حیات میں جو محمدؐ عربی لے کر آئے ہیں۔ اس پیغام و پیغمبر کا تعلق صرف ربیع الاول کے میلا دی جلسوں سے نہیں کہ جب یہ مہینہ آئے تو اس کی یادگار منائی جائے، جلسے جلوس کئے جائیں اور بس۔ دراصل بارہ ربیع الاول کی آمد تجدید عہد کا ایک موقع ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جن لوگوں نے اس پیغام کو سینے سے لگایا اور دل میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی محبت کو بسانے کا دعویٰ کیا وہ اس کو جشن کے طور پر منا لینے ہی پر اکتفا کرنے لگے ہیں، آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کو اب گویا سیرت کے جلسوں اور نعتیہ مشاعروں تک محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم مسلمان دوسری قوموں کے لوگوں کے سامنے پیغام محمدیؐ کا وہ عملی نمونہ پیش کرتے جس کو دیکھ کر ان کے منہ میں پانی آجاتا اور وہ اس کی طرف بے تابانہ بڑھتے اور اس کا کلمہ پڑھنے لگتے، آج کی بے چین و سرگرداں دنیا کو معلوم ہوتا کہ ہمارے درد کا درماں اس دستورِ حیات میں ہے جس کو انسانوں کے پیدا کرنے والے اس خالق نے اتارا ہے جو ان کے مزاج و طبیعت، ضرورتوں اور تقاضوں ہی کو نہیں، ان کی ان کمزوریوں کو بھی خوب جانتا ہے جو انہیں آمادۂ شر کرتی ہیں: ’’ کیا وہ نہ جانے گا جس نے اس کو پیدا کیا ہے ۔‘‘ (الملک:۱۴)
اسی لئے اس خالق نے اس کو وہ اصول و ضابطے بتائے ہیں جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین تو برابر بدلتے رہتے ہیں مگر محمدؐ عربی کے واسطے سے انسانوں کو جو دستورِ حیات ملا، اس میں کسی تبدیلی اور ردّو بدل کی ضرورت نہیں پیش آتی، ہاں چونکہ یہ اس خدا کا بنایا ہوا دستور حیات ہے جو مستقبل میں پیش آنے والے تغیرات کو بھی جانتا ہے اور تغیرات پیدا بھی اس کی قدرت و مرضی سے ہونگے، اس لئے اسلامی دستور حیات میں وہ لچک رکھ دی ہے جس کے ذریعہ اس کے ماہرین، اصول سے فروع اور کلیات سے جزئیات کا استنباط کر کے آسانی پیدا کر دیں تا کہ کہیں کسی زمانہ میں دشواری نہ پیش آئے۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ نے اس بات کا کھلا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ جب انسان ایسے اعلیٰ اور اٹل قانون اور ضابطہ حیات سے روگردانی کریگا ، اپنے عقلی گھوڑے دوڑائیگا اور اپنی بہیمانہ خواہش و چاہت کے مطابق قانون بنائے گا تو یقینی بات ہےکہ دنیا میں فساد اور بگاڑ پیدا ہو، اور انسان اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان پیدا کرے، جس کو اس وقت کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلام نے بندوں کا تعلق براہ راست خدا سے جوڑ دیا ہے۔ وہ ان تعلیمات کی روشنی میں جو محمدؐ عربی کے ذریعہ انسانوں تک پہنچائی گئیں، بلا کسی واسطہ کے اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کر سکتا ہے، رو دھو کر براہ راست اپنا قصور معاف کر اسکتا اور اس کی رحمت و عنایت کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ اس میں برابری اور مساوات ایسی رکھی گئی ہے کہ ہر شخص جو مسلمان ہے وہ مسائل سے واقف ہے تو نماز کا امام بن سکتا ہے، روزہ ہر ایک رکھ سکتا ہے، اس میں امیر و غریب اعلیٰ و ادنی کا کوئی فرق نہیں، نماز میں ایک غریب وادنیٰ درجہ کا مسلمان اور ایک بادشاہِ وقت دونوں کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اسلامی مساوات کا یہ وہ نمونہ ہے جس کو دیکھ کر بہت سی سعید روحوں کو اسلام اور ایمان کی دولت نصیب ہوگئی۔ ابھی قریبی زمانہ کی بات ہے کہ امریکہ کے ایک ٹیلی ویژن ڈائریکٹر نے نماز میں مساوات کا منظر دیکھ کر اسلام قبول کر لیا، وہ کہتے ہیں کہ: ایک دن مَیں نے ٹی وی پر ایک عرب بادشاہ کو خشوع و خضوع اور اطمینان سے تمام نمازیوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھتے دیکھا تو میرے دل میں یہ بات اتر گئی کہ اسلام میں ادنیٰ اعلیٰ، امیر و غریب کا امتیاز نہیں، اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔
پیغام محمدیؐ ( اسلامی تعلیمات) کے وسیع و ہمہ گیر دفتر کو بطور خلاصہ ’’ایمان اور عمل صالح‘‘ یہی دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ان ہی دو چیزوں پر انسانی نجات کا مدار ہے، جب حقیقت یہ ہے تو ہم ربیع الاول کے جشن اور جلسوں کے وقت اپنا جائزہ لیں کہ ہمارے اندر پیغام محمدی (اسلامی تعلیمات) کا عملی حصہ کتنا پایا جاتا ہے؟