Inquilab Logo

اُردو کی چاشنی کسی بھی شخص کو بآسانی اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے

Updated: November 09, 2021, 12:30 PM IST | Kazim Shaikh | Mumbai

’’یوم اُردو‘‘ پر ایسے عاشقانِ اُردو سے گفتگو جن کی مادری زبان اُردو نہیں۔ ان صاحبان نے اُردو سیکھی اور اب اپنی اُردو دانی پر فخر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے ہیں

Babu Patwardhan started learning Urdu at the age of 60.Picture:INN
بابو پٹوردھن نے ۶۰؍ سال کی عمر میں اردو سیکھنے کا آغاز کیا تھا۔ تصویر: آئی این این

ٓج دنیا بھر میں یوم اردو منایا جارہا ہے۔ یہ دن شاعر مشرق علامہ اقبال سے موسوم ہے۔۹؍ نومبر ۱۸۷۷ءکو علامہ اقبال کی ولادت ہوئی تھی۔ اردوکی ترقی اور بقا کیلئے ہر سال بڑے پیمانے پر یوم اردو منایا جاتا ہے۔  اس موقع پر تھانے کے رہائشی اور اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والے ۸۰؍ سالہ باپو پٹوردھن کہتے ہیں کہ ’’جب میں خواب دیکھوں تو اردو میں نظر آئے۔ اگر کسی کو اپنی تقریر اور بات کو آسانی سے سمجھانا اوربا اثر بنانا ہو تو وہ اردو الفاظ اور اشعار کا استعمال کرے ۔ اس زبان میں ایسی چاشنی اور کشش ہے کہ سب کی توجہ آسانی سے حاصل کرلیتی ہے۔ اس زبان کی بقا کیلئے ہر مذہب کے لوگوں کو شامل ہونا چاہئےکیونکہ علامہ اقبال نے پورے ہندوستان کیلئے لکھا تھا:’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔‘‘ باپو پٹوردھن نے بتایا کہ انہیں بچپن ہی سے اردو سیکھنے کی خواہش تھی ۔ اس کا سبب فلمی نغمے سننے کا شوق تھا۔ اس وقت بیشتر گیتوں میں اردو کے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے جو سننے میں اچھے لگتے تھے لیکن ان کا مطلب نہیں معلوم ہوتا تھا۔ چنانچہ تبھی انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ انہیں جب بھی موقع ملے گا وہ اردو زبان ضرور سیکھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اس وقت میں جنوبی ممبئی کے ایک علاقے میں رہتا تھا ۔ ایک دن میری نظرہندوستان پرچار سبھا کے بورڈ پرپڑی اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہاں پر اردواور ہندی سکھائی جاتی ہے۔ میں نے وہاں کے انچارج محمد حسین پرکار سے ملاقات کی اور خواہش ظاہر کی کہ مجھے اردو سیکھنا ہے۔ میری عمر تقریباً ۶۰؍ سال تھی۔ جون ۲۰۰۸ء میں مَیں نے وہاں پر اردو سیکھنا شروع کیا۔ وہاں ’آسان قاعدہ‘  نامی کتاب دے کر پہلے دن اردو کے ۱۳؍ حروف اور ۱۳؍ الفاظ سکھائے گئے۔ یہ سیکھنے کے بعد اردو سیکھنے کا جنون سوار ہوگیا۔‘‘
 انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر میری مادری زبان اردو ہوتی تو میں مجھے شاید ہی کوئی دوسری زبان سیکھنے کی ضرورت پڑتی کیونکہ اردو کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت مشکل زبان ہے لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ میرا تعلق اس زبان سے بہت مضبوط ہے اور میری خواہش ہے کہ خواب بھی مجھے اردو میں نظر آئیں ۔‘‘  بابو پٹوردھن کے گھر روزانہ انگریزی، مراٹھی اور اردو کا اخبار آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پہلے کے سیاسی لیڈران اپنی تقریروں کو بااثر بنانے اور سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے اردو کے الفاظ اور اشعار استعمال کرتے تھے جن میں آنجہانی اٹل بہاری واجپئی اور سشما سوراج وغیرہ خاص طورسےشامل ہیں۔ ‘‘ یوم اردو منانے کے تعلق سے پٹوردھن کہتے ہیں کہ ’’یوم اردو ہرروز منانا چاہئے لیکن انگریزی زبان لوگوں پر اس قدر حاوی ہوگئی ہے کہ ہندوستان کی تمام علاقائی زبان کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ افسوس ہے کہ اب ہمیں یہ بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ فلاں دن ’’یوم اردو‘‘ ہے ۔ اردو لکھنے ، پڑھنے اور بولنے والوں کیلئے ہر دن اردو کا دن ہے۔ ہم موبائل فون پر بات چیت کی شروعات میں ’’ہیلو‘‘ کے بجائے ’’آداب‘‘ کیوں نہیں کہتے ہیں؟ اردو کی ترقی اور اس کی بقا کیلئے کم سے کم ہم لوگ اردو اخبارات اور رسالے وغیرہ خرید کر پڑھیں تو یہ بھی یوم اردو منانے کے متراف ہے۔‘‘ بقول پٹوردھن وہ اب تک بلامعاوضہ اپنے گھر پر ۲۰۰؍ غیر مسلم طلبہ کو اردو سکھا چکے ہیں۔ فی الحال ان کے ہاں ۶؍ غیرمسلم طلبہ اردو پڑھنے آتے ہیں۔ انہوں نے ایک ڈائری بھی بنائی ہے جس میں وہ ۴؍ ہزاراشعار تحریر کر چکے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو بلاناغہ حیدرآباد کی ایک غیر مسلم خاتون ڈاکٹرکو ان کے مطالبے پر اردو کاایک شعر بھی روانہ کرتے ہیں۔
ہر زبان کی اپنی ایک شناخت ہے
 ملک اور بیرون ملک کی متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے اور سانتا کروز کے رہائشی پرکاش پاتھرے کا اردو زبان سے کافی گہرا تعلق ہے۔وہ کہتےہیں کہ ’’مجھے بچپن میں ایک شخص نے کہا تھا کہ اردو پڑھنے لکھنے اور خالص اردو بولنے کیلئے ۶؍ مہینے تک کی محنت ہی نہیں بلکہ اردو کا الف سیکھنے کیلئے اردو داں طبقہ کے پاس ۶؍ مہینے ’گھسنا ‘ پڑے گا تو اردو کے الف سے واقفیت ہوگی لیکن اس جملے سے میں مایوس نہیں ہوا بلکہ یہ زبان سیکھنے کا جذبہ پروان چڑھا۔ پڑوس میں رہنے والے قادر بابا نامی شخص کے حوصلہ دیا اور میں نے نہ صرف اردو سیکھی بلکہ اردو میں خطاطی بھی کرتا ہوں۔ میں نے اپنے والد مرحوم اور اہلیہ کو بھی اردو سکھائی ہے۔ میری اہلیہ نے اپنی ایک سہیلی کو یہ زبان سکھائی ہے ۔‘‘ 
 ۶۲؍ سالہ پرکاش پاتھرےنے دوران گفتگو کہا کہ ’’یوم اردو پورے ملک میں بڑے پیمانے پر منایا جانا چاہئے لیکن اس جانب اردو داں طبقہ نے کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ چنداسکولوں اور تنظیموں کی جانب سے یہ دن منایا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال دیوالی کی چھٹیوں میں یوم اردو اور یوم تعلیم منائے جاتے ہیں اس لئے انہیں اس شان و شوکت سے نہیں منایا جاتا جیسے دیگر دن منائے جاتے ہیں۔ ‘‘
 انہوں نے کہا کہ ’’کوئی بھی زبان کسی قوم، ذات اور فرقے کی نہیں ہوتی۔ ہر زبان کی اپنی ایک شناخت ہے۔میرا خیال ہے کہ اسکولوں ، کالجوں اور مدرسوں میں بھی یوم اردو اور یوم تعلیم کے نام سے بڑے پیمانے پر پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔‘‘ 
 پرکاش پاتھرے نے اردو پڑھنے لکھنے کے متعلق کہا کہ ’’میں جب ۸؍ یا ۱۰؍ سال کا تھا تب پڑوس میں رہنے والی ایک بچی اردو اسکول میں پڑھنے جاتی تھی۔ اس کی باتیں سن کر اردو سیکھنے کی خواہش ہوئی تھی۔ اس وقت ہم سورت، گجرات میں رہتے تھے اور میں نے اپنےپڑوسی سید انظار الحق سے اردو سیکھنا شروع کیا ۔ میرے گھر پر انگریزی اور گجراتی بولی جاتی تھی۔ اس کے باوجود میں نے اردو سیکھنے کا تہیہ کرلیا تھا ۔ حالانکہ اردو سیکھنا میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ لیکن میری محنت رنگ لائی اور چند مہینوں میں مَیں نے اردو پڑھنا لکھنا اور بولنا سیکھ لیا ۔ میں نے بال بھارتی سےاردو کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسی کتاب کے ذریعہ اپنے والد کیشورام چند ر پاتھرے اور اہلیہ کو بھی پڑھا یا تھا۔ آج بھی وہ کتاب میرے پاس محفوظ ہے۔ سورت میں ہی ایک بنگالی دوست سےاردو رسالہ منگواتا تھا اردو اخبارات بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس طرح ۱۲؍ سال کی عمر میں مَیں اردو کی کتابیں وغیرہ پڑھنے لگا تھا ۔ چند سال قبل میں نے انٹرنیٹ پر اردو خطاطی کے ویڈیوز دیکھے تو اس سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اب اردو میں خط شکستہ ، نسخ اور نستعلیق میں کتابت بھی کرتا ہوں ۔‘‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ ’’اکثر زبانوں کے لکھنے کا انداز بائیں سے دائیں ہوتاہے لیکن اردو ، فارسی اور عربی زبانیں دائیں سے بائیں جان لکھی جاتی ہیں اس لئے ان کا انداز تحریر بھی بہترین ہوتاہے ۔ اردو کے نستعلیق میں بہت نزاکت اور خم ہے ۔اس لئے اسے لکھنے میں بھی مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔‘‘ ۲۰۱۷ء میں مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے اردو کی خدمت کے اعتراف میں انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔n

urdu books Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK