ٹھیک یہی صورتحال ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل اور بعد میں تھی جب لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی کا ’ہندوتوا وادی رتھ‘ ملک بھر میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوشش میں تھا۔
EPAPER
Updated: November 12, 2023, 4:17 PM IST | Nadir | Mumbai
ٹھیک یہی صورتحال ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل اور بعد میں تھی جب لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی کا ’ہندوتوا وادی رتھ‘ ملک بھر میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوشش میں تھا۔
ٹھیک یہی صورتحال ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل اور بعد میں تھی جب لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی کا ’ہندوتوا وادی رتھ‘ ملک بھر میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوشش میں تھا۔ ہر چند کہ ماحول مسلمانوں کے خلاف تیار کیا جا رہا تھا لیکن بیداری دلت اور او بی سی سماج میں پیدا ہوئی۔ یہی وہ وقت تھا جب بڑی پارٹیوں سے نکل کر او بی سی لیڈران نے اپنی اپنی چھوٹی پارٹیاں تشکیل دیں ۔ ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی، لالو یادو کی آر جے ڈی، شرد یادو کی جے ڈی یو، اور نتیش کمار کی سمتا پارٹی، ادھر جنوب میں دیوے گوڑا نے بھی جنتادل (ایس الگ) کر لی۔ اس وقت لگ رہا تھا کہ یہ سارے لیڈران اپنے اپنے مفاد کی خاطر سیکولر فورس کو کمزور کر رہے ہیں ۔ کم از کم مسلم اسکالر اور قلمکار تو یہی لکھ اور بول رہے تھے لیکن وقت نے دکھا دیا کہ یہ لیڈر اپنے اپنے سماج کو متحد کرکے ان کے سیاسی اور سماجی وجود کو مستحکم کر رہے تھے ۔ ان میں سے ہر لیڈر بعد میں وزیراعظم کے عہدے کا ’دعویدار‘ کہلانے لگا۔ ۱۹۸۴ء میں قائم کی گئی بی ایس پی بھی ۹۰ء کی دہائی کے اسی عرصے میں مضبوط ہوئی۔ ان پارٹیوں کے سبب بی جے پی کا گراف جو ۲؍ سے ۸۴؍ اور ۸۴؍ سے سیدھے ۱۸۸؍ تک پہنچ گیا تھا، اچانک سمٹ گیا۔ اس کے بعد کوئی حکومت بغیر حلیفوں کی حمایت کے قائم نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ان پارٹیوں کے قائدین اور ووٹروں کو اس بات کی فکر کبھی نہیں پیدا ہوئی کہ مرکز میں کانگریس اقتدار میں آتی ہے یا بی جے پی ۔حتیٰ کہ بی جے پی کو بابری مسجد کا موضوع ۲؍ دہائیوں تک کیلئے ترک کرنا پڑا۔ ان میں لالو یادو کو چھوڑ دیں تو بیشترعلاقائی پارٹیاں بی جےپی اور کانگریس دونوں کے ساتھ اقتدار میں شامل ہو چکی ہیں یا ایوان میں ان کی مدد کر چکی ہیں ۔ صرف مسلمان وہ واحد طبقہ ہے جو گزشتہ۴۰؍ سال سے سیاست کا محور و مرکز ہوتے ہوئے بھی محض تماشائی کی طرح حاشیئے پر کھڑا یا تو دہائیاں دے رہا ہے یا پھر تالی بجا رہا ہے۔ ایک پارٹی بی جے پی کی طرف چلی جائے تو اسے سیکولر ازم کی دہائی دی جاتی ہے اور کانگریس کی طرف چلی آئے تو تالیاں بجائی جاتی ہیں ۔ یہ مسلسل چوتھی دَہائی ہے جب مسلمان اسی کو سیاست سمجھ رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۴ء کے بعد وقت بدل گیا اور بی جے پی نے انہی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے سہارے خود کو اس قد ر مضبوط کرلیا کہ اسے اقتدار سے بے دخل کرنا مشکل ہو گیا۔ اس دوران یہ تمام پسماندہ طبقات ہمیشہ اقتدار میں شامل ہونے کی وجہ سے سماجی اور سیاسی طور پر اس قدر مضبوط ہو گئے کہ اب چاہے بی جے پی اقتدار میں ہو یا کانگریس ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ۳۰۳؍ اراکین کا ناقابل تسخیر عدد حاصل کرلینے کے باوجود اپنی حلیف پارٹیوں کو اقتدار میں حصہ دار بنانے پر مجبور ہے۔
آج پھر ملک میں وہی تشویشناک حالات ہیں ۔ روزانہ ہندو راشٹر کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ ہر آن جمہوریت کے خاتمے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اور مسلمان اسی فرسودہ ’ترکیب‘ کے سہارے ان حالات سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت چلی جائے اور کوئی سیکولر حکومت آجائے، لیکن ایک بار پھر پسماندہ کہلانے والے طبقات نے ان حالات کو بھانپ لیا ہے اور عملی طور پر وہ خود کو محفوظ کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں ۔یہ جو روزانہ کوئی طبقہ اٹھ کر ریزرویشن کا مطالبہ کرنے لگا ہے کیا یہ اسلئے ہے کہ انہیں اپنے نوجوانوں کے روز گار کی فکر ہے؟ نہیں بلکہ انہیں اندازہ ہے کہ آج اگر ہندو مسلم کی سیاست ہو رہی ہے تو کل اونچ نیچ کی سیاست بھی ہوگی۔ ایسی صورت میں خود کو پہلے ہی مضبوط کر لینا لازمی ہے۔ گجرات میں پٹیل اور مہاراشٹر میں مراٹھا وہ طبقات ہیں جن کے بغیر سیاست میں پتہ بھی نہیں ہلتا۔ مہاراشٹر میں اب تک ۱۶؍ وزرائے اعلیٰ ہوئے ہیں جن میں سے ۱۱؍ مراٹھا رہ چکے ہیں جبکہ اس وقت ۲۹؍ کابینی وزیر مراٹھا ہیں ایسی صورت میں یہ دعویٰ کہ مراٹھا پسماندہ ہیں انہیں ریزرویشن دیا جائے کچھ عجیب نہیں لگتا؟ انتظامیہ میں شامل جو کلکٹر، کمشنر اور افسران ہیں وہ الگ۔ یہی صورتحال گجرات میں پٹیل برادری کی ہے۔بات صرف ان دو ریاستوں کی نہیں ہے پورے ملک میں ذات پر مبنی سروے کروانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حکومت اس سے بچ رہی ہے لیکن تمام طبقات خاص کر او بی سی کا اصرار ہے کہ ذات پر مبنی سروے کروایا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس طبقے کی کتنی آبادی ہے اور ملک کے وسائل پر اس طبقے کا کتنا حصہ ہے؟ راہل گاندھی نے خود تلنگانہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ بات کہی ہے کہ ملک کے وسائل پر آبادی کے تناسب کے اعتبار سے لوگوں کو حق حاصل ہونا چاہئے۔ نتیش کمار نے او بی سی سماج کیلئے ریزرویشن کی حد ۱۵؍ فیصد بڑھاکر ۶۵؍ فیصد کر دی ہے جبکہ معاشی طور پر پسماندہ طبقات کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن الگ ہے جس میں اعلیٰ ذات والے بھی ریزرویشن حاصل کر لیں گے (حالانکہ یہ ریزر ویشن مسلمان بھی حاصل کر سکتے ہیں)۔ یعنی بہار میں اب او بی سی اور اعلیٰ ذات ہر کوئی ریزرویشن کے اندر ہوگااور بطور طبقہ یا سماج صرف مسلمان اور دیگر اقلیتیں ہی اس حق سے محروم ہوں گی۔ یاد رہے کہ آئین میں ریزرویشن کا التزام ان طبقات کیلئے کیا گیا تھا جن کے ساتھ نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا تھا۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو آج مسلمانوں کے علاوہ کسی اور طبقے کو امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہے۔ایسی صورت میں اگر ریزرویشن کا کوئی مستحق ہے تو وہ مسلمان ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر کہی جاچکی ہے کہ مسلمانوں کی صورتحال دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ جس عدالت نے مراٹھا ریزرویشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ مراٹھا سماج پسماندہ نہیں ہے اسی نے یہ سفارش کی تھی کہ مسلمانوں کو تعلیم میں ۵؍ فیصد ریزرویشن دیا جا سکتا ہے۔ ان سب کے باوجود مسلمان اگر اپنی سیاسی نمائندگی کا مطالبہ کریں یا آئینی حقوق کی فریاد کریں تو انہیں ’سیکولرازم‘ کا ڈوز پلاکر خاموش کر دیا جاتا ہے۔
جس وقت مراٹھا احتجاج کے دوران ریاست کے مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کے واقعات پیش آ رہے تھے ٹھیک اسی وقت مسلمانوں کی فلسطین کیلئے کئے جانے والے پر امن احتجاج کی درخواست مستردکی جا رہی تھی۔ پولیس کا عذر تھا کہ اس سے ماحول خراب ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت مراٹھااور او بی سی سماج آمنے سامنے ہیں اور حالات کشیدہ ہیں لیکن ان میں کسی بھی سماج کے احتجاج پر کوئی روک نہیں ہے لیکن اسرائیل کیخلاف مسلمانوں کے صرف علامتی احتجاج پر روک ہے حالانکہ یہاں کوئی بھی اسرائیلی نہیں رہتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام طبقات کے لیڈر اپنی قومیت کے آگے کسی بات سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس کی عمدہ مثال او بی سی لیڈران کا اتحاد ہے۔ چھگن بھجبل این سی پی میں ہیں، وجے وڈیٹی وار کانگریس میں جبکہ چندر شیکھر باونکولے بی جے پی میں لیکن مراٹھا ریزرویشن کے تعلق سے ان تینوں کا موقف ایک ہے اور آواز ایک ہے۔ ان کے درمیان کوئی ’پارٹی لائن ‘ حائل نہیں ہے۔ ادھر مراٹھا سماج کے تمام لیڈر منوج جرنگے سے ملاقات کر کے ان سے یکجہتی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ادھو ، راج ٹھاکرے، اجیت پوار جیسے لیڈران ان کی خیریت روازنہ معلوم کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جبکہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ فی الحال مراٹھا ریزرویشن دینا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔
منوج جرنگے ایک معمولی کسان کے بیٹے ہیں لیکن بڑے بڑے لیڈران ان کی نظروں میں خود کو مراٹھا سماج کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ مراٹھا سماج ریزرویشن کے معاملے میں متحد ہے اور جرنگے کے کہنے پر وہ ہر ایک عوامی نمائندے سے سوال کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے لیڈران کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انہیں گائوں میں گھسنے نہیں دیا جار ہا ہے۔ یہ جرأت ان میں اسلئے ہے کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ لیڈران سماج کی وجہ سے ہیں سماج ان لیڈران کی وجہ سے نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں معاملہ برعکس ہے۔ مسلمانوں نےاپنے وجود کو لیڈروں اور پارٹیوں کے سپرد کر دیاہے۔ اس وقت سیکولرپارٹیوں کےپاس سوائے مسلم ووٹوں کے کچھ نہیں ہے لیکن انہیں مسلمانوں ہی کے مسائل پر بات کرنے سے گریز ہے۔ وہ مسلمانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہیں کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھائی تو اس کی وجہ سے تمام ہندو بی جے پی کے پرچم تلے متحد ہو جائیں گے۔اگر کوئی مسلم نوجوان اس خوف کی پروا نہ کرتے ہوئے مسلم مسائل پر آواز اٹھانے کی جرأت کرے تو سب مل کر اسے ’بی جے پی ایجنٹ‘ ثابت کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
گزشتہ ۱۰؍ سال سے مسلم مسائل سے ’پرہیز‘ کرنے کے باوجود کانگریس اور این سی پی کو مہاراشٹر میں مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کے ووٹ نہیں مل رہے ہیں اور اگر مراٹھا ریزرویشن مل گیا یا او بی سی سماج کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے مسترد کر دیا گیاتب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان پارٹیوں کو ووٹ ملیں گے پھر وہ ریزرویشن کے معاملے پر اتنے پر جوش کیوں ہیں؟ جو یقین وہ مسلمانوں کو دلاتے ہیں کہ آپ کو الیکشن لڑنے کی ، وزیر بننے کی ضرورت نہیں ہے، ہماری حکومت جب آئے گی تب ہم آپ کے ساتھ انصاف کریںگے وہی یقین وہ مراٹھا یا او بی سی سماج کو کیوں نہیں دلاتے؟ مسلمانوں کا بھرم اور ان پارٹیوں کے دعوے دونوں ہی ریزرویشن تحریک کے سبب کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں۔ اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ فلسفہ، تھیوری اور نعروں سے باہر نکل کر عملی طور پر اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کا لائحہ عمل تیار کریں۔کم ازکم جن پارٹیوں کو وہ ووٹ دیتے ہیں ان سے اتنا تو پوچھیں کہ آئین کی نظر میں جب سب برابر ہیں تو پھر مراٹھا سماج کے ساتھ کس نے زیادتی کی اور انہیں پسماندہ رکھا؟ اور اگر ریاست کے سب سے طاقتور طبقے کو ریزرویشن کی ضرورت ہے تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں جن کے وجود کو ختم کردینےکا اعلان کئی بار کیا جا چکا ہے؟