• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

صحیح شعر، غلط منسوب اَور اصل شاعر

Updated: December 17, 2023, 12:06 PM IST | Zarra Hyderabadi | Mumbai

یہ بحث برسوں سے چلی آرہی ہے کہ کون سا شعر کس کا؟ اس سلسلے میں الگ الگ تحقیقات ہیں اور الگ الگ دعوے۔ اشعار کی تحقیق کرنے والے حضرات بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے کام لیتے ہیں چنانچہ ادب میں یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ بعض اوقات لوگ حافظے کی بنیاد پر کسی شعر کو کسی کے نام سے سنا دیتے ہیں۔ ایسے ہی اشعار تحقیق طلب ہوتے ہیں۔

According to the essayist: It is a serious literary problem that the author of the poem is someone else and the author is going by someone else`s name. Photo: INN
بقول مضمون نگار: یہ ایک سنگین ادبی مسئلہ ہے کہ شعرکا خالق کوئی اور ہے اور منسوب کسی اور کے نام سے چلا آرہا ہے۔ تصویر : آئی این این

کچھ روز قبل میں ایک مشاعرے میں موجود تھا ناظمِ مشاعرہ ایک معروف ادبی شخصیت تھیں ، انہوں نے دوران مشاعرہ ایک مشہورِ زمانہ شعر میر تقی میر کے نام سے پڑھا، بعداز مشاعرہ میں نے ان صاحب سے عرض کیا: جناب آپ نے جو شعر دوران نظامت پڑھا وہ میرؔ کا نہیں بلکہ کسی اور کا ہے تو وہ سخت بگڑ گئے، خیر بات آئی گئی ہو گئی مگر آج کل یہ بات، بلکہ میں تو اسے ایک سنگین ادبی مسئلہ کہوں گا کہ شعر کا خالق کوئی اور ہے اور منسوب کسی اور کے نام سے چلا آرہا ہے، یہ ظلم نئے اور قدیم دنوں ہی شعراء کے سا تھ ہو رہا ہے۔ وہ شعر جو اُن صاحب نے پڑھا وہ یہ تھا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
یہ شعر میر ؔکا نہیں ہے بلکہ مہاراج بہادر برق کا ہے اور پورا شعر یوں ہے:
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا 
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ایک زمانے سے یہ شعر میرؔ سے منسوب چلا آرہا ہے، حالانکہ میر کا نہیں ہے۔ عارف لکھنوی ادبی حقائق میں اس شعر کے بارے لکھتے ہیں : یہ شعر فکر راجپوری کا ہے۔ عارف لکھنوی نے اس سلسلے میں کتاب کابلانِ راجپور کا حوالہ دیا ہے۔ راقم الحروف کو باوجود ہزار کو شش کے یہ کتاب نہیں مل سکی۔ معلوم نہیں عارف لکھنوی نے اس کتاب کا حوالہ کیسے دے دیا ہے، نہ پبلشر کا نام ہے نہ مصنف کا ، اور نہ ہی کوئی سنِ اشاعت ،ہندوستان اور پاکستان کے اکثر پبلشروں کا کہنا ہے کہ اس نام کی کوئی کتاب ہے ہی نہیں ۔ 
حضرت تابش دہلوی مرحوم اپنی کتاب دید باز دید( حیات اکیڈمی:کراچی) میں لکھتے ہیں :
میرے زمانے میں دلی میں بیخود دہلوی، سائل دہلوی، آغا شاعر قزلباش،پنڈت امر ناتھ ساحر، زار زتشی دہلوی، شیدا دہلوی اور نوجوانوں میں مہاراج بہادر برق اور جادو دہلوی مشاعروں کی رونق ہوا کرتے تھے۔یہ شعر مہاراج بہادر برق کا ہی ہے جو میرؔ سے منسوب ہوگیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اکژ قابل احترام ،کالم نگار ،شاعر،ادیب،اور دانشور یہ شعر میر کے نام سے پڑھتے ہیں جبکہ میر کے دونوں مجموعوں یا کسی اور معتبر کلیات میر میں کہیں یہ شعر نہیں ہے۔ یہ شعر مہاراج بہادر برق کا ہی ہے جن کا سنِ ولادت ۱۸۸۴ء دہلی، شاگرد آغا شاعر قزلباش، وفات، ۱۹۳۶ءپانی پت ہے۔
اب یہ موضوع چل نکلا ہے تو کچھ اور اشعار کا بھی ذکر کرتا چلوں :
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
(مرزا عظیم بیگ عظیم)
اکثر حضرات لا علمی کے باعث اس شعر کو اقبال سے منسوب کرتے ہیں اور اس طرح پڑھتے ہیں :
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں 
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
 جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ شعر مرزا عظیم بیگ عظیم کا ہے جن کی ولادت دہلی،شاگرد،شاہ حاتم اور سودا، وفات ۱۸۰۶ء ہے۔
علامہ اقبال کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے:
کبھی اے حقیقت ِ منتظر نظر آ لباس ِ مجاز میں 
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں 
اسی بحر ، قافیہ،ردیف میں ایک نعت کا شعر ہے جو آج تک اقبال سے منسوب ہے،جب کہ یہ (درج ذیل) اقبال کا نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کسی کتاب میں ہے،شعر یہ ہے:
رُخ مصطفےٰ ؐ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دوکان ِ آئینہ ساز میں 
 نعت کا یہ شعر حضرت لطف بدایونی کا ہے جن کی ولادت ،۱۸۷۵ء، اور وفات ،۱۹۳۷ء ہے۔
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہ شعر داغ دہلوی سے منسوب ہے مگر داغ کا نہیں ہے۔آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد رقم طراز ہیں : ایک دن مرزا رفیع سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے، لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے نے جس کی عمر بارہ تیرہ برس تھی، یہ مطلع پڑھا۔گرمی ٔ کلام پر سودا چونک پڑے اور پوچھا یہ مطلع کس نے پڑھا ہے؟ لوگوں نے کہا ،حضور یہ صاحبزادے ہیں ۔ سودا نے بہت تعریف کی اور کئی دفعہ یہ پڑھوایا، پھر کہا میاں تم جوان ہوتے تو نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت کہ چند ہی دنوں بعد یہ لڑکا جل کر مرگیا۔
کالی داس گپتا رضا اپنی کتاب سہو و سراغ: مرتبہ، صابر دت: ادارہ فن و شخصیت ،ممبئی، میں لکھتے ہیں :یہ قصہ محمد حسین آزاد نے شعر کو سامنے رکھ کر گھڑ لیا ہے کیونکہ یہ شعر اُس لڑکے کا ہے ہی نہیں ،بلکہ پنڈت مہتاب رائے تاباں دہلوی کے شعر کی قدرے ترقی یافتہ شکل ہے،اصل شعر یوں ہے:
شعلہ بھڑک اُ ٹھا مرے اس دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
تاباں دہلوی ،خواجہ میر درد کے ہم عصر تھے، دیکھئے آثار الشعرا ئے ہند ۱۸۸۶ء میں تاب اور تاباں کو الگ ا لگ شاعر لکھا گیا ہے۔ تاباں جن سے یہ شعر منسوب ہے، لکھا ہے، پنڈت مہتاب رائے تاباں جن کی عمر بارہ برس تھی ، انہوں نے ، خواجہ میر درد کے مشاعرے میں آ کر یہ مطلع پڑھا، یہ مطلع صرف تاباں دہلوی کا ہی ہے، داغ دہلوی کا ہر گز نہیں ۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
(محمد یار خان امیر)
اِس شعر کے صحیح خالق کی نشاندہی میں اکثر حضرات دھوکہ کھا گئے ہیں ، کئی قابل احترام ادیبوں اور دانشوروں نے سہواً اس شعر کو میر تقی میرسے یا پھر امیر مینائی سے منسوب کیا ہے، جب کہ کچھ نے سودا سے ،جب کہ کلیات سودا، نول کشور لکھنؤ میں یہ شعر موجود نہیں ۔ گلستانِ ہزار رنگ، مرتبہ، سید بہاؤ الدین، لیبل لیتھو پریس، پٹنہ ۱۹۵۷ء میں یہ شعر میر تقی میر سے منسوب ہے ۔ مجنوں گورکھپوری نے اپنے مضمون ’’میر اور ہم‘‘ میں اس شعر کو میر ؔسے منسوب کیا ہے۔
یہ شعر نہ تومیرکا ہے اور نہ ہی امیر مینائی یا سودا کا،بلکہ نواب محمدیا ر خان امیر ( سکونت ٹانڈہ ضلع رائے بریلی،شاگرد ،قائم چاندپوری) کا ہے۔ دیکھئے طبقات الشعراء، قدرت اللہ شوق، مرتبہ،نثار احمد فاروقی۔ مجلس ترقی ادب۔لاہور۔
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں 
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں تر ستیاں ہیں 
(فدا علی شیدا)
یہ شعر سودا ؔ سے منسوب ہے مگر کسی معتبر کلیات ِ سودا میں موجود نہیں ہے کیونکہ یہ شعر ان کا ہے ہی نہیں ،بلکہ فتح علی شیدا،میو شمس آباد۱۷۸۰ءکا ہے جو سودا کے شاگرد تھے، دیکھئے تذکرہ شعرائے اردو ، میر حسن ،گلزار ابراہیم اور تذکرہ مسرت افزا۔
چاہت کا جب مزا ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
اس شاعر کے اصل خالق کی نشا ندہی کرتے ہوئے محترم حمایت علی شاعر اپنی کتاب ،شخص و عکس ۱۹۸۴ء (کراچی) میں لکھتے ہیں : میرے پاس ایسی پرانی کتابیں موجود ہیں جن میں کہیں صرف ایک شعر :
لاؤ تو قتل نامہ ذرا میں بھی دیکھ لوں 
کس کس کی مہر ہے سَر محضر لگی ہوئی
اور کہیں یہ غزل: الفت کا تب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بے قرار؛ میر محبوب علی آصف کے نام سے چھپی ہے؛ جب کہ میرا گمان ہے کہ یہ شعر امیر مینائی، داغ دہلوی یا جلیل مانک پوری کا ہو سکتا ہے۔ راقم کو یہ شعر اِن تینوں اصحاب کی کسی کتاب میں نہیں ملا اور شعر میں تصرف بھی ہوگیا ہے، یہ شعر ظہیر الدین ظہیر کا ہے جن کا ایک اور شعر بھی زبان زد عام ہے:
یو ں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں 
دیکھئے، دیوان،ظہیر الدین ظہیر،جلد اول، مفیدِعام پریس،آگرہ۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا غبا ر ہوں 
کسی کام میں جو نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں 
(مضطر خیرآبادی)
یوسف حسینی اپنے مضمون: شاعر ظفر نہیں مضطر خیر آبادی: مطبوعہ نگار جنوری ۱۹۶۳ء میں لکھتے ہیں : ادبی معاملات میں بعض غلط فہمیاں بڑی دلچسپ ہو تی ہیں اور دیرپا بھی، اس مضمون میں ایسی ہی ایک غلط فہمی کی طرف اشارہ ہے،جو بہادر شاہ ظفر سے منسوب ایک غزل کے غلط انتساب کے سلسلے میں پیدا ہوگئی ہے، یہ ایک مشہورِ زمانہ غزل ہے؛ نہ کسی کی آنکھ کانورہوں … یہ غزل فلم لال قلعہ میں شامل کی گئی اور فلم میں بہادر شاہ ظفر کی زبان سے اسے ادا کیا گیا ہے،ادبی حلقوں میں اس غزل کے ظفر سے منسوب ہونے کی ذمہ داری بڑی حد تک ظفر کے اُس انتخاب پر عائد ہوتی ہے جو ’نوائے ظفر‘ کے نام سے انجمنِ ترقی اردو ہند نے فروری ۱۹۵۸ء میں شائع کیا۔ ۱۹۳۸ء میں جب رسالہ آل احمد سرور کی ادارت میں نکلا کرتا تھا اس وقت جاں نثار اختر نے اس میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہو ں اس غزل کو اپنے والد مضطر خیرآبادی سے منسوب کیا تھا۔
 اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ نول کشور نے ۱۸۸۷ میں کلیاتِ ظفر کاجو پہلا ایڈیشن شائع کیا اس میں یہ غزل شامل نہیں ہے۔ نواب فاروق حسین گوپاموی نے مضطر خیرآبادی کے کلام کا ایک مختصر انتخاب مرتب کیا تھا، اس میں بھی یہ غزل موجود ہے۔
بالکل اِسی طرح ایک اور مشہور شعر ہے ؛
عمرِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں 
یہ شعر بھی بہادر شاہ ظفر سے منسوب ہے،شاہ ظفر کی غزل کا مطلع ہے؛
لگتا نہیں ہے دل میرا اُجڑے دیار میں 
کس کی بنی ہے عالم ِ نا پائیدار میں 
 یہ غزل ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان سے حبیب ولی محمد کی آواز میں نشر ہوئی،حبیب ولی محمد نے یہ مشہور شعر اسی طرح اِس غزل میں شامل کر لیا یو ں لوگ سمجھنے لگے کہ یہ شعر بھی بہادر شاہ ظفر کا ہے، جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔ حضرت سیماب اکبرآبادی نے اس شعر کو اپنے کلام کے انتخاب میں شامل کیا، دیکھئے؛ نگار، جنوری ۱۹۴۱، خود نوشتِ سیماب اور کلیم و عجم؛ سیماب اکبرآبادی، مکتبہ قصر ِ الادب، آگرہ ۱۹۴۷۔ 
یہ مضمون بہ اعانت: جناب سلمان غازی 

مہدی حسن کی گائی ہوئی مشہور ِ زمانہ غزل؛
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
میں شامل ایک شعر کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی۔ فیض احمد فیض نے یہ غزل ۲۹ ؍ جنوری ۱۹۵۴ء کو منٹگمری جیل (ساہیوال) میں لکھی تھی، بعد میں یہ غزل مہدی حسن صاحب نے فلم سرفروش کیلئے ریکارڈ کروائی۔ اس غزل کو علاؤالدین مر حوم پر فلمایا گیا۔ اِسی فلم سے یہ غزل اتنی مشہور ہوئی کہ مہدی حسن صاحب کی پہچان ہی یہ غزل ٹھہری۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحرنے جو فیض صاحب کے بہت ماننے والوں میں سے تھے ، اِسی غزل پر پوری ایک نئی غزل لکھی اور دو شعر بطورِ خاص مہدی حسن صاحب کو دیئے جنہوں نے یہ شعر فیض صاحب کی ’’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے‘‘ میں شامل کر لئے جس کا ایک شعر بہت مشہور ہوا:
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آرپار چلے 
باوجود اس کے کہ خود مہدی صاحب نے کئی دفعہ وضاحت کی کہ یہ شعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر صاحب کا ہے فیض صاحب کا نہیں ، کئی قابلِ احترام ادیب ،دانشور، اس شعر کو فیض احمد فیض سے منسوب کرتے ہیں ۔
مشہور غزل گائک اقبال بانو کی گائی ہوئی ایک غزل ۷۰ء کی دہائی میں بہت مشہور ہوئی اور اقبال بانو کی اصل وجہ شہرت یہی ٹھہری۔
 غزل یہ ہے:
داغ ِدل ہم کو یا د آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
غزل کے مطلع میں لفظ داغؔ کی وجہ سے اکثر لوگ اس غزل کو داغ دہلوی سے منسوب کرتے ہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل مجھے ،ہندوستان اور پاکستان جانے کا اتفاق ہوا تو میں غزل لینے جب بازار گیا تو شالیمار، اور لوک ورثہ جیسے اداروں کی سی ڈیز پر بھی مجھے اس غزل کے ساتھ شاعر کانام داغ دہلوی ہی لکھا نظر آیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ غزل مرحوم باقی صدیقی کی ہے جو ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرتے تھے۔ انہوں یہ غزل لکھ کر خود اپنے ہاتھ سے اقبال بانو کو دی تھی، دیکھئے تاریخ ِ ریڈیو پاکستان۔
آپ نے اکثر ،ٹرکوں ،رکشوں ، یا بسوں کے اوپر لکھا ایک شعر ضرور پڑھا ہوگا:
تندیٔ باد مخالف ِِِٰ سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
مصرعہ اول میں لفظ عقاب کی وجہ سے اکثر حضرات اسے علامہ اقبال سے منسوب کرتے ہیں جب کہ یہ شعر اقبال کا نہیں بلکہ صادق حسین صادق کا ہے۔صادق حسین شکرگڑھ، سیالکوٹ کے رہنے تھے۔ آپ کی ولادت یکم اکتوبر ۱۸۹۸ء اور و فات ۴؍ مئی ۱۹۸۹ء کو ہوئی تھی۔ دیکھئے ؛ برگِ سبز؛ صادق حسین صادق فروری۱۹۷۰ء۔
جذبہ ٔ عشق سلامت ہے تو ان شاء اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکا ر بندھے
(نامعلوم)
عزیز الرحمٰن نے اپنی کتاب؛ قلم مجلس، المعروف، شعروں کی ڈکشنری جلدِ اول میں اس شعر کو انشاء اللہ خا ن انشاء سے منسوب کیا ہے مگر کوئی حوالہ نہیں دیا ہے جبکہ انشا کی کسی معتبر کلیات میں یہ شعر کہیں موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر شفیق علی خان نے اپنی کتاب اردو کے ضرب المثل اشعار میں اس شعر کو داغ دہلوی کے نام لکھا ہے۔
شمس بدایونی نے بھی اپنی کتاب، شعری ضرب المثل، جلد دوئم؛ روشن پبلی کیشنز بدایوں ۱۹۸۸ء میں اس شعر کو داغ کے نام لکھا ہے جب کہ داغ دہلوی کے چاروں شعری مجموعوں ، گل زارِ داغ، آفتابِ داغ، مہتابِ داغ اور یادگارِ داغ میں یہ شعر کہیں نہیں ہے اور نہ ہی کسی معتبر کلیاتِ داغ میں یہ موجود ہے۔ در حقیقت یہ شعر کسی غیر معروف شاعر کا ہے داغ، یا انشا کا ہرگز نہیں ۔
محترم قارئین؛ یہ موضوع ایسا ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو پوری کتاب درکار ہوگی اور بازار میں پہلے ہی کئی کتابیں موجود ہیں ۔ اب ضرورت ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ہے جس میں معتبر ادبی شخصیات، ادبی ادارے اور میڈیا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر میڈیا کا آج کل حال یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل گھر میں بیٹھا ٹی وی،پر ایک ڈراما دیکھ رہا تھا کہ اچانک چونکنا پڑا۔ ایک معروف آرٹسٹ نے مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر علامہ اقبال کا نام لے کر پڑھا،شعر یہ ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
ظاہر ہے غلطی اداکار کی ہرگز نہیں ہے بلکہ ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر کی ہے، میں نے میڈیا سے وابستہ ایک معروف ادبی شخصیت کو فون کیا تو انہوں نے کہا: ذرّہ صاحب پتا نہیں یہ غلطی کیسے ہوگئی کیونکہ یہ مشہور شعر تو حالی کا ہے اقبال کا نہیں۔
میں نے خدا حافظ کہا اور فون رکھ دیا، دراصل غلطی ان صاحب کی بھی نہیں ہے کیونکہ؛ مسدسِ حالی؛ کا ایک نسخہ جو نامی پریس،لکھنؤ سے جولائی ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا تھا اس کے سرورق پر یہ شعر موجود ہے اس لئے بعض اصحاب غلط فہمی کی بنا پر اس شعر کو مولانا الطاف حسین حالی سے بھی منسوب کرتے ہیں ،مگر در حقیقت یہ شعر مولانا ظفر علی خان کی تخلیق ہے اور یہ شعر جس نظم کا ہے وہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۲۰، کو لکھی گئی تھی، دیکھئے؛ بہارستان، مولانا ظفر علی خان،اردو اکیڈمی لاہور ۱۹۳۷۔ 
 ہم پہلے ہی ایک مردہ پرست قوم مشہور ہیں مگر یہ کیسا ظلم ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس شاعر کو اُس کا حق نہ دیں اور اُس کے اپنے شعر کسی اور کا نام لے لے کر دوسروں کو سناتے اور لکھتے رہیں ۔
 آخر میں ؛ میاں داد خان سیاح، ولادت ۱۸۲۹، وطن اورنگ آباد، شاگردِ غالب، وفات ۱۹۰۷، سورت، کے ایک خوبصورت شعر کے ساتھ جسے اکثر حضرات ،داغ دہلوی، آرزو لکھنوی اور حال ہی میں ایک معروف کالم نگار نے اپنے کالم میں امیر مینائی سے منسوب کیا ہے، اجازت چاہوں گا۔ وہ شعر یہ ہے:
قیس صحرا میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دِوانے دو
(بہ تعاون: سلمان غازی، ممبئی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK