• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بحث صرف کانگریس کیلئے نہیں، بی جے پی کے مستقبل کے تئیں بھی ہونی چاہئے

Updated: December 17, 2023, 2:20 PM IST | Shravan Garg | Mumbai

تین ہندی بولنے والی ریاستوں میں کانگریس کی ہار کے فوراً بعد وزیر اعظم کی ’رہنمائی‘ میں جس طریقے سے وزرائے اعلیٰ کی تقرری کی گئی اور جس طریقے سے پارٹی لیڈروں کو غیر موثر ثابت کر کے انہیں حاشئے پرپہنچایاگیا، وہ ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔

In the picture below, the `Lady sisters` can be seen crying hugging Shivraj Singh Chouhan. Photo: INN
زیر نظر تصویر میںشیوراج سنگھ چوہان سے لپٹ کر ’لاڈلی بہنوں‘ کو روتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر : آئی این این

تین ہندی بولنے والی ریاستوں میں کانگریس کی ہار کے فوراً بعد وزیر اعظم کی ’رہنمائی‘ میں جس طریقے سے وزرائے اعلیٰ کی تقرری کی گئی اور جس طریقے سے پارٹی لیڈروں کو غیر موثر ثابت کر کے انہیں حاشئے پرپہنچایاگیا، وہ ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ اس دوران اپوزیشن پارٹیوں کے ’انڈیا‘ اتحاد کی طرف سے۶؍دسمبر کو ہونے والے اجلاس کا مبینہ طور پر’بائیکاٹ‘ کرنے کی اطلاعات کے بعد کچھ سیاسی مبصرین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا کہ اتحاد کی کوششیں ختم ہو گئی ہیں۔
کانگریس کی شکست پر تنقید میں دو طرح کی قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ۳؍ دسمبر کے نتائج کے بعد مودی زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ ’گھمنڈیا اتحاد‘ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہنے والا ہے۔’ انڈیا‘ اتحاد کو پیشگی خراج عقیدت پیش کرنے کے خواہشمند ناقدین کا ایک گروپ اس کیلئے راہل گاندھی کی قربانی چاہتا ہے۔اس میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے تھے اور کرناٹک کی جیت میں ملک گیر تبدیلی کے سونامی کی تلاش کررہے تھے۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ دو سال قبل مغربی بنگال میں ہونے والے انتخابات میں ترنمول کی شاندار جیت کے بعد پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور ہماچل، کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کی نمایاں کامیابی کے بعد ناقدین کے درمیان اس طرح کی کانا پھوسی تک نہیں ہوئی کہ بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں کسی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہی ناقدین تین ریاستوں کے نتائج پرکانگریس کیلئے نوحہ خوانی کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ء کے مقابلے میں این ڈی اے کمزور ہو ئی ہے۔ یہ بتانا بی جے پی حامیوں کیلئے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کن ریاستوں سے بی جے پی۲۷۲؍ سیٹوں کی اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں واپس آنے والی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کو۲۰۱۹ء میں حاصل ہونے والی۳۰۳؍ سیٹوں میں شامل مہاراشٹر، بہار اور کرناٹک سے حاصل ۶۵؍سیٹوں کی حمایت جاری رہے گی؟ بی جے پی نے پچھلا الیکشن اُدھو کی شیوسینا اور نتیش کی جے ڈی (یو) کے ساتھ لڑا تھا لیکن اِس وقت یہ دونوں ہی پارٹیاں اس کے ساتھ نہیں ہیں ۔کرناٹک میں اب کانگریس کی حکومت ہے۔ مہوا موئترا کے خلاف کارروائی کے بعد بی جے پی ۲۰۱۹ء میں مغربی بنگال میں اپنی ۱۸؍ میں سے کتنی سیٹیں بچا پائے گی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے؟ تلنگانہ میں اس کی۴؍، ہماچل میں ۴؍ اور جھارکھنڈ میں ۱۱؍ سیٹوں کا مستقبل کیا ہوگا جہاں اب اپوزیشن کی حکومتیں ہیں ؟ تین ریاستوں (مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ) میں جہاں حال ہی میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے، اس کے پاس ۶۵؍ میں سے۶۱؍ سیٹیں پہلے ہی سے ہیں ۔ اسمبلی کے نتائج سے پریشان، کیا کانگریس ان میں بی جے پی کی کچھ اور سیٹیں اپنے پالے میں نہیں کرسکے گی؟
 یہ پوچھا جانا چاہئے کہ اگر بی جے پی کو۲۰۲۴ء کی فکر نہیں ہے تو پھر اتنی بڑی تعداد میں اراکین پارلیمان کو اسمبلی الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ سے استعفیٰ کیوں دلایا گیا؟ اس مسئلہ پر خاموشی کیوں ہے کہ مرکزی وزیر اور اراکین پارلیمان اسمبلی انتخابات ہار گئے۔ پورے ملک نے دیکھا کہ۳؍ دسمبر کو نتائج آنے کے ۷؍ دن بعد۱۰؍ دسمبر کو چھتیس گڑھ کیلئے پہلے وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان کیا گیا۔ اس تاخیر میں آخر کوئی وجہ تو رہی ہوگی؟
پہلی نظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کے ریاستی قد آور لیڈروں نے اعلیٰ کمان کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ ۱۱؍ دسمبر کو مدھیہ پردیش کے نئے وزیر اعلیٰ کے نام کے ڈرامائی اعلان سے پہلے اور بعد میں بھی بھوپال میں شیوراج سنگھ اور دوسرے دن جے پور میں وسندھرا راجے سندھیا نے جس طرح کا برتاؤ کیا، اس کی جھلک آنے والے دنوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی سچائی نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی جیت کا سہرا جس ایک شخص کو دیا جاتا ہے، اسے نہ صرف انتخابی مہم کے دوران  پوری طرح سے نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کے جانشین کے انتخاب کے دوران بھی ان سے دوری رکھی گئی اور رازداری برتی گئی۔ شیوراج دہلی سے کم از کم ایک کال کا انتظار ضرور کرتے رہے ہوں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ستم ظریفی یہ کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے اپنی ہی کابینہ کے ایک رکن کا نام تجویز کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں کے سپرد کر دی گئی۔ اب ’لاڈلی بہنیں‘ شیوراج سنگھ سے لپٹ  لپٹ کر ماتم کر رہی ہیں اورکہہ رہی ہیں کہ’’ہم نے آپ کو چنا ہے۔‘‘ اب نہیں کون جواب دے گا؟ موہن یادو توقطعی نہیں دے پائیں گے۔ پارٹی شاید یہ مان رہی ہے کہ ریاستوں میں شیوراج سنگھ اور وسندھرا راجے جیسے لیڈروں کا کام ختم ہو چکا ہے،اسلئے اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ پارٹی وزیر اعظم کے جادو کے زور پر ہی لوک سبھا میں اکثریت کی تعداد پار کرنا چاہتی ہے۔
تمام ناقدین جو ’انڈئا‘ اتحاد میں اختلافات کی دراڑیں تلاش کر رہے ہیں، وہ اس سچائی کی تہہ میں بھی جاسکتے ہیں کہ کیا اب وزیر اعظم کا جادو کمزور پڑنے لگا ہے؟ کیا رائے دہندگان نے ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے؟ اس کا اشارہ باڑمیر کے ’بیتو‘ میں وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ملنے والے نتائج سے مل سکتا ہے۔ یہاں پر مودی نے ووٹروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمل کا بٹن ایسے دبائیں جیسے وہ (کانگریس کو) پھانسی دے رہے ہوں۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ بی جے پی امیدوار تیسرے نمبر پر رہا اور’بیتو‘ میں کانگریس جیت گئی۔ ایسا دوسرے کئی انتخابی حلقوں میں بھی ہوا جہاں وزیراعظم کی اپیل مسترد کردی گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK