لوک سبھا انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے سب سے بڑی خوش خبری اترپردیش سے ملی جہاں سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے کمال کر دیا لیکن اس سے متصل ریاست بہار اور جھارکھنڈ میں سیکولر محاذ کو ایک طرح سے مایوسی ہاتھ لگی۔
EPAPER
Updated: June 05, 2024, 1:45 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
لوک سبھا انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے سب سے بڑی خوش خبری اترپردیش سے ملی جہاں سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے کمال کر دیا لیکن اس سے متصل ریاست بہار اور جھارکھنڈ میں سیکولر محاذ کو ایک طرح سے مایوسی ہاتھ لگی۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو’انڈیا‘ اتحاد کیلئے سب سے بڑی خوش خبری اترپردیش سے ملی جہاں سماجوادی پارٹی اورکانگریس نے کمال کر دیا لیکن اس سے متصل ریاست بہار اور جھارکھنڈ میں سیکولر محاذ کو ایک طرح سے مایوسی ہاتھ لگی۔ حالانکہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے تینوں ہی ریاستوں میں سیکولر اتحاد کو زیادہ سیٹیں ملیں۔ مذکورہ تینوں ریاستوں میں گزشتہ الیکشن کے ۹؍ سیٹوں کے مقابلے اس مرتبہ ۵۵؍ سیٹیں ملیں۔ اس میں سے سب سے اہم کردار اترپردیش کا رہا، جہاں اس بار ۴۳؍ سیٹوں پر کامیابی ملتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جبکہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد کے پاس صرف ۶؍ سیٹیں تھیں۔
اترپردیش میں’۲؍لڑکوں‘ نے کمال کردیا
اترپردیش کے نتیجے نے جہاں ’انڈیا‘ کو پُرعزم کردیا، وہیں بی جے پی کو بیک فٹ پر بھی دھکیل دیا۔ بی جے پی اگر اقتدار سے بے دخل ہوتی ہے، تو اس کی سب سے بڑی وجہ اترپردیش ہی ہوگی۔ اب تک کے انتخابی رجحان کے مطابق سماجوادی پارٹی ۳۷؍ سیٹوں پر آگے چل رہی ہے جبکہ کانگریس کے امیدواروں کو ۶؍ سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو ۵؍ اور کانگریس کو ایک سیٹ پر کامیابی ملی تھی۔ اس لحاظ سے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ووٹوں کی شرح میں بھی زبردست اضافہ ہے۔گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں سماجوادی اور کانگریس پارٹی کو بالترتیب ۱۸ء۱۱؍ اور۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ اسی ترتیب میں ۳۳ء۴۶؍ اور۹ء۶۴؍ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ انڈیا اتحاد کیلئے اس خوشگوار نتیجے کا سہرا ’۲؍ لڑکوں‘ یعنی اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کے سر باندھا جارہا ہے لیکن انصافی ہوگی اگر پرینکا گاندھی کی کاوشوں کو نظرانداز کیا جائے۔ انڈیا اتحاد کے حق میں پرینکا گاندھی نے ایک لہر پیدا کردی تھی۔
سماجوادی پارٹی کی نمایاں کامیابی کے تین پہلو ہیں۔ اوّل: کانگریس سے اتحاد، دوّم: ذات پات کا مساوات دیکھ کر ٹکٹوں کی تقسیم اور سوم یہ کہ کامیاب انتخابی حکمت عملی جس میں آئین کا تحفظ اور پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو کلیدی جگہ دی گئی۔ کانگریس سے اتحاد کا اعلان ہوتے ہی ایک طرح سے ’انڈیا‘ کے حق میں لہر بن گئی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کا خدشہ ٹل گیا تھا۔بی ایس پی نے حالانکہ دل کھول کر مسلم امیدوار میدان میں اُتارے لیکن یہ بات بی ایس پی بھی جانتی ہے اور دوسری تمام پارٹیاں بھی کہ مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ مسلم رائے دہندگان کی کامیاب حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے پوری ریاست میں جہاں سماجوادی -کانگریس اتحاد کو ووٹ دیا وہیں ۴۳؍ فیصدمسلم آبادی والے ’نگینہ لوک سبھا‘ حلقے میں مسلمانوں کی اکثریت نے چندرشیکھر آزاد یعنی راون کو ووٹ دیا۔ چندر شیکھر آزاد کو ۵؍ لاکھ ۱۲؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے جبکہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو محض ایک لاکھ ۲۳؍ہزار ووٹوں ہی پراکتفا کرنا پڑا۔
بہار میں تیجسوی کی محنت رائیگاں گئی
گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بہار میں سیکولر فرنٹ کو صرف ایک سیٹ ملی تھی ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اِس مرتبہ اُس کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تک کے انتخابی رجحان کے مطابق آر جے ڈی کے امیدوار ۴؍ اور کانگریس کے امیدوار ۳؍ سیٹوں پر آگے چل رہے ہیں لیکن یہ نتیجہ توقع کے برخلاف ہے۔ اگریہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ’انڈیا‘ اتحاد کو سب سے زیادہ مایوس بہارہی نے کیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟اس کی ۲؍ وجوہات بالکل سامنے کی ہیں۔ اوّل : تیجسوی یادو کی حد درجہ خود اعتمادی۔ دوّم: اتحاد کو اہمیت نہ دینا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیجسوی یادو نے خوب محنت کی۔ کمر کی شدید تکلیف کے باوجود تنہا ڈھائی سو سے زائد ریلیا ں کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن گزشتہ انتخابات کے نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں ایک ایک ووٹ پر محنت کرنے کی ضرورت تھی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مسلمانوں نے آر جے ڈی کو آنکھ بند کرکے ووٹ دیا لیکن آر جے ڈی نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سیوان حلقے سے حنا شہاب الدین کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اگر وہ آرجے ڈی کی امیدوار ہوتیں تو اس کے کھاتے میں ایک سیٹ کا اضافہ یقینی طورپر ہوجاتا۔ اسی طرح آر جے ڈی نے ’اتحاد‘ کو بھی اہمیت نہیں دی۔ پپو یادو اور کنہیا کمار کے معاملے میں آر جے ڈی کا رویہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ اہل بہار نے اس کا جھٹکا آر جے ڈی کو دینے کی کوشش کی لیکن افسوس کہ اس کا نقصان براہ راست ’انڈیا‘ اتحاد کو ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
جھارکھنڈ کا نتیجہ بھی غیر متوقع رہا
انتخابی جنگ کااعلان ہونے سے قبل ہی مودی حکومت نے جھارکھنڈ میں ایک بڑا کھیل کردیا تھا۔ وہاں کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین جو اپنی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے سربراہ بھی ہیں، کو بدعنوانی کے الزام میں جیل بھی دیا تھا۔ پارٹی میںاس بڑے اُلٹ پھیر کو جے ایم ایم برداشت نہیں کرپائی۔اس کی وجہ سے پارٹی میں انتشار کی نوبت بھی آئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ایسا لگ رہا تھا کہ ریاستی حکومت گر جائے گی لیکن شیبو سورین اوراہلیہ کلپنا سورین نے چمپئی سورین کو وز یر اعلیٰ بنا کر پارٹی کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود پارٹی میں بغاوت ہوئی۔ ہیمت سورین کی بھابھی جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی میں چلی گئیں۔
حالانکہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے اس مرتبہ جھارکھنڈ میں بھی ’انڈیا‘ اتحاد کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن بہار ہی کی طرح وہاں کا نتیجہ بھی توقع کے خلاف ہی رہا۔ ۲۰۱۹ء میں کانگریس اور جے ایم ایم کو ایک ایک سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس مرتبہ کانگریس کو ۲؍ اور جے ایم ایم کو ۳؍ سیٹیں ملی ہیں۔ جھارکھنڈ میں اس نتیجے کی ۲؍ اہم وجوہات ہیں۔ اوّل یہ ہے کہ ہیمنت سورین کے نہ ہونے سے پارٹی کی انتخابی مہم کمزور رہی۔ دوّم یہ کہ کانگریس کے ۲؍ لیڈروں کے گھروں سے بھاری نقدی کی برآمدگی اور بدعنوانی کے الزام میں وزیراعلیٰ سورین کے جیل جانے کی وجہ سے بی جے پی کی اُس مہم کو تقویت مل گئی جس میں وہ ’انڈیا‘ اتحاد کو بدعنوانوں کا گروہ بتارہی تھی۔