• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مروڈ جنجیرہ کی عید گاہ کی اپنی تاریخ ہے

Updated: April 11, 2024, 1:40 PM IST | Shakeel Ahmed Ali Kadu | Murud-Janjira

شہر کی شمالی پہاڑ ی پر دتا ّمندر سے ایک کلو میٹر دور بلندی پر واقع عیدگاہ نواب سیدی محمد خان نے ۱۹۳۸ ء میں تعمیر کروائی تھی۔

Eidgah, (Marood, Janjira) which was built by Nawab Sidi Muhammad Khan in 1938. The people of Murud performing the Eid prayer. Photo: INN
عید گاہ، (مروڈ، جنجیرہ) جسے نواب سیدی محمد خان نے ۱۹۳۸ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اہلیان مروڈ نماز ِعید ادا کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

مسلم بادشاہوں اور نوابوں کے ادوار ہی سے ملک کے بڑے شہروں اور بڑے قصبات میں بستی سے دور عیدین کی نماز ادا کرنے کے لئے عید گاہیں تعمیر کی گئیں جہاں بستی کے مسلمان عیدین کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں سب سے قدیم اور پہلی عیدگاہ دہلی میں تغلق بادشاہوں کے دور میں تعمیر کی گئی اور پھر اُس کے بعد ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں عیدگاہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ تھانہ ضلع کے شہر کلیان میں دُرگاڈی قلعہ پر واقع عید گاہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ چھتر پتی شیواجی مہاراج نے اُن کے مسلم فوجیوں اور قرب و جوار کے مسلمانوں کو عید کی نماز ادا کرنے کیلئے یہ عید گاہ تعمیر کی تھی، مگر کچھ تاریخ داں کا اس بابت اختلاف ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ عیدگاہ عادِل شاہ نے بنائی ہے۔ گرچہ یہ عید گاہ عادِل شاہی دور کی بنی ہوئی ہے تب بھی آگے چل کر مراٹھا راجائوں نے اُسے برقرار رکھا۔ آج بھی یہ عید گاہ اور دُرگادیوی کا مندر اس قلعہ پر ایک دوسرے کے کافی قریب قائم ہیں۔ 
 ایسی ہی ملتی جلتی مثال مروڈ جنجیرہ میں بھی ہے۔ مروڈ شہر کی شمالی پہاڑ ی پر دتا ّمندر سے ایک کلو میٹر دور اونچائی پر نواب سیدی محمد خان نے ۱۹۳۸ ء میں ایک خوبصورت عید گاہ تعمیر کرائی تھی۔ اس عیدگاہ کے اِردگرد ہرے بھرے درخت، پھولوں کی جھاڑیاں اور چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں ہیں۔ یہاں سے مروڈ شہر کا نظارہ، جس میں ناریل اور سُپاری کے درختوں سے گھرا ہو ا شہر اور وسیع سمندر مع جنجیرہ قلعہ قابلِ دید ہوتا ہے بالخصوص غروب آفتا ب کا منظر جسے آپ کسی قیمت پر فراموش نہیں کرسکتے۔ دورِ حاضر میں کوئی شہر ایسا نہیں جس کا رقبہ پہلے کے مقابلے میں کافی وسیع نہ ہوا ہو۔ اس طرح شہر ہی نہیں پھیلے، وہ گھنے بھی ہوتے چلے گئے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے عیدین کی نماز کا مسئلہ پیدا ہوا چنانچہ مساجد میں کہیں دو جماعتیں تو کہیں تین جماعتیں ہونے لگی ہیں۔ ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ پرانے وقت کے لوگوں نے عید گاہیں تعمیر کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اُسے اب بھی جاری رہنا چاہئے مگر نئی عید گاہیں شاذونادر ہی تعمیر ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے اس کی وجہ جگہ کی قلت ہے۔ سال میں دو عیدین کی نمازوں کیلئے مسلمان اتنی بڑی جگہ حاصل کرنے کی کوشش اور جدوجہد کریں بھی تو اس سے کون سا بڑا مقصد حاصل ہوجائیگا، اس سے بہتر ہے کہ مساجد کی توسیع ہو اور مصلیان کو سڑکوں پر نماز پڑھنے کی ضرورت نہ پیش آئے جیسا کہ ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عید گاہوں میں نماز ادا کرنے کا اپنا لطف تھا، اس سے اسلامی وقار کا مظاہرہ ہوتا تھا، پورا گاؤں ایک ہی جگہ نماز ادا کرتا اور لوگ اسی ایک جگہ پر سب سے مل لیتے اور عید کی مبارکباد دیا کرتے تھے۔ جہاں جہاں عید گاہیں موجود ہیں وہاں وہاں یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ ایسے ہی شہروں میں سے ایک ہے مروڈجنجیرہ جو تاریخی شہر ہے۔ اس عید گاہ میں ایک ہزار مصلیان نماز ادا کرسکتے ہیں۔ شہر سے دور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں تک پہنچنا آسان ہے۔ دو پہیہ یا چہار پہیہ گاڑیوں پر سوار ہوکر لوگ پندہ سترہ منٹ میں عید گاہ پہنچ جاتے ہیں۔ 
 یہ جان کر خوشگوار مسرت ہوگی کہ یہ جگہ پہاڑی پر واقع ہے۔ نواب صاحب شہر کے لوگوں کے ساتھ خود بھی عیدین کی نماز عید گاہ میں ادا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے محل سے ایک راستہ نکالا (جس پر ایک پولیس اسٹیشن ہے) جس سے نواب صاحب عید گاہ جاتے تھے۔ چونکہ عید کی نماز سے واپسی پر راستہ بدلنے کی ہدایت ہے اس لئے نواب صاحب اُس راستے سے لوَٹتے تھے جہاں پانی کی ٹانکی ہے۔ چونکہ یہاں ایک جھرنا ہے اس لئے پانی کی ٹانکی بنوائی گئی تھی جس کیلئے اُس دور میں جرمنی سے انجینئر بلوایا گیا تھا۔ ٹانکی کی جانب سے آنے والا یہ راستہ شہر کے دستوری ناکہ سے آکر ملتا ہے۔ ہرچند کہ اب مساجد میں نمازِ عید کی ادائیگی کا چلن عام ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں مگر مروڈجنجیرہ کے مسلمانوں میں عید گاہ جاکر نماز ادا کرنے کا جوش اور ذوق و شوق آج بھی برقرار ہے جبکہ مروڈ جنجیرہ میں چھ مساجد ہیں۔ یہاں جب نمازِ عید ادا کی جاتی ہے تو دیکھنے جیسا منظر ہوتا ہے۔ عید گاہ کا انتظام و انصرام جماعت المسلمین عید گاہ ٹرسٹ قصبہ مروڈسنبھالتی ہے جس کے صدر راشد عمر فہیم اور سکریٹری محمد صالح اُکئے ہیں۔ 
(مضمون نگار انجمن اسلام جنجیرہ ایگریکلچرل اسکول کے سابق پرنسپل ہیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK