جو اندیشے تھے وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہے ہیں، جس طرح سے کچھ نہ کچھ مخفی رکھنے کی کوششیں ہورہی ہیں وہ اُن الزامات پر مہر لگارہی ہیں جن کے ثبوت بھی سپریم کورٹ کی جمعہ کی ہدایت کے بعد جلد ہی عام ہوجانے کی امید ہے۔ یہ اگر گودی میڈیا کادور نہ ہوتا تو صورتحال کچھ اور ہوتی،اب سوال یہ ہے ملک کے ووٹر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟
الیکٹورل بونڈ میں ہونے والی بے ضابطگی اور مبینہ بدعنوانی کے خلاف ملک گیرسطح پراحتجاج ہورہے ہیں۔ تصویر : آئی این این
الیکٹورل بونڈ کو غیر قانونی قراردینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ جتنا تاریخی ہے اتنا ہی تاریخی اس کی تفصیل فراہم کرنے میں آناکانی پر اسٹیٹ بینک آف نڈیا کی سرزنش اور اسے معلومات دینے پرپابند کرنے کافیصلہ ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی دھمکی نہ دی ہوتی اور ذرا سی نرمی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو ہوسکتاہے کہ الیکٹورل بونڈ کی وہ تفصیلات جو آج عوام کے سامنے ہیں، ابھی صیغہ ٔ راز میں ہی رہتیں۔ یہ تفصیلات چشم کشا ہی نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے حوالے سے گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں اسے سپریم کورٹ کا سب سے بڑا فیصلہ قراردیا جائے تو غلط نہ ہوگا جس کی مثال دہائیوں دی جاتی رہے گی۔ حالانکہ ساری حقیقت منظر عام پر نہ آنے دینے کیلئے بے تاب اسٹیٹ بینک آف انڈیا اپنی حرکت سے باز نہیں آیا اوراس نے بونڈ پر موجود وہ خفیہ نمبر چھپا ہی لیاجو مخصوص روشنی میں نظر آتا ہے اور جس کے ذریعہ یہ پتہ لگایا جاسکتاہے کہ کس بونڈ کو کس پارٹی نے کیش کرایا ہے۔ یعنی کس کمپنی نے کون سا بونڈ خرید کرکس پارٹی کو چندہ دیا۔
جمعہ کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اس تعلق سے بھی ایس بی آئی سے جواب طلب کرلیا ہے اور امید ہے کہ یہ نمبر بھی اسے فراہم کرنا پڑے گا جس کے بعد اس معلومات کے ساتھ ہی کہ کس الیکٹول بونڈ کو کس کمپنی نے خریدا ہے، یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ اسے کیش کس پارٹی نے کرایا ہے۔ اسی طرح مارچ ۲۰۱۸ء میں ایس بی آئی نے حق معلومات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ( تب تک) وہ ۱۶؍ ہزار ۵۱۸؍ کروڑ کے ۲۸؍ ہزار ۳۰؍ الیکٹورل بونڈ فروخت کرچکا ہے مگر سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس نے۱۲؍ ہزار ۵۱۶؍ کروڑ کے ۱۸؍ ہزار ۸۷۱؍ الیکٹورل بونڈ کی تفصیل ہی فراہم کی ہے یعنی ۴؍ ہزار کروڑ کی مالیت کے ۹؍ ہزار ۱۵۹؍ بونڈس کی تفصیلات چھپا لی گئیں یا یہ کہیں کہ ابھی سامنے نہیں آئیں۔
ان تفصیلات کی عدم موجودگی کے باوجود الیکٹورل بانڈکی جو تفصیل سامنے آئی ہے ان ہی کے تجزیہ نے ساری کہانی کو بڑی حدتک واضح کردیا ہے۔ جو اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں، یہ بات صاف ہونے لگی ہے کہ ایس بی آئی کے توسط سے حکومت کیوں ان تفصیلات کوعام نہ ہونے دینے کیلئے بے قرارتھی۔ اپوزیشن اگر یہ الزام عائد کررہاہے کہ یہ چندہ ای ڈی کے چھاپوں کو استعمال کر کے ہفتہ وصولی کی طرح حاصل کیاگیا ہےیا چندہ لے کر کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے دیئے گئے ہیں تو یہ بے بنیاد نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا کی ۴۰۰؍ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ بھی، بے قراری بھی، آخر ماجرا کیا ہے؟
کئی کمپنیاں ایسی ہیں جن کے الیکٹورل بونڈ خریدنے پر شبہ ہوتا ہے کہ جب وہ خود خسارے میں چل رہی ہیں یا پھر بہت ہی معمولی منافع کمارہی ہیں تو کروڑہا کروڑ روپے کے الیکٹورل بونڈ خریدنے کیلئے ان کے پاس پیسے کہاں سے آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں الیکٹورل بونڈ کے توسط سے کالے دھن کو سفید کرنے کا اور منی لانڈرنگ کا الزام بھی صحیح نظر آنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی جو ۲۲۔ ۲۰۲۱ء میں ۲۱ء۷۲؍ کروڑ کا کل منافع کماتی ہے، اُسی سال ۳۶۰؍ کروڑ روپے کے الیکٹورل بونڈ خریدتی ہے۔ خفیہ چندے کے اس کھیل میں ای ڈی کے رول کو بھی دیکھیں۔ الیکٹورل بونڈ خریدنے میں سرفہرست ملک کی کوئی بڑی کمپنی نہیں بلکہ فیوچرگیمنگ اینڈ ہوٹل سروسیز نامی لاٹری کے ٹکٹ فروخت کرنے والی کمپنی ہے جس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ای ڈی نے ۲۳؍ جولائی ۲۰۱۹ء کو اس کی ۱۲۰؍ کروڑ کی املاک ضبط کرلی تھیں۔ اس نے ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء سے ۹؍ جنوری ۲۰۲۴ء کے درمیان ایک ہزار ۳۶۸؍ کروڑ روپے کےا لیکٹورل بونڈ خریدے۔ اسوسی ایشن فار ڈیمورکریٹک ریفارمس نے جولائی ۲۰۲۲ء میں الیکٹورل ٹرسٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں دی گئی تفصیلات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ فیوچرگیمنگ نے مذکورہ ٹرسٹ کو ۱۰۰؍ کروڑ روپے دیئے اور ٹرسٹ نے اسی دن ۱۰۰؍ کروڑ روپے بی جےپی کو عطیہ کر دیئے۔ اسی طرح ۹۸۰؍ کروڑ روپے کے الیکٹورل بوند خریدکر سیاسی عطیہ دہندگان میں سر فہرست رہنےوالی میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر وہ کمپنی ہے جس کے تعلق سےکمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے ۳۸؍ ہزار کروڑ کی بے ضابطگی کی رپورٹ دی تھی۔ یہ اتفاق بھی دیکھئے کہ یہ کمپنی ۱۱؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو ۱۰۰؍ کروڑ کے الیکٹورل بونڈ خریدتی ہے اور دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک مہینے کے اندر اندر اسے مہاراشٹر کی بی جےپی حکومت ۱۴؍ ہزار ۴۰۰؍ کروڑ کا ٹھیکہ دے دیتی ہے۔ اسی طرح ہیٹیرو فارما پر ۹؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو انکم ٹیکس کا چھاپہ پڑتا ہےاور ۵۵۰؍ کروڑ کی غیر محسوب دولت کا انکشاف ہوتا ہے نیز ۱۴۲؍ کروڑ روپےنقد ضبط ہوتے ہیں اور آئندہ ۲؍ برسوں میں وہی کمپنی ۶۰؍ کروڑ روپےکے الیکٹورل بونڈ خرید لیتی ہے۔
جمعہ کو وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے ای ڈی کے چھاپوں اور الیکٹورل بونڈ کی خریداری کے درمیان کسی بھی طرح کے تعلق کی تردید کی ہے تاہم جس طرح سے ایس بی آئی نے اس معاملے میں معلومات فراہم کرنے میں آناکانی کی وہ نرملا سیتارمن کی صفائی سے میل نہیں کھاتا۔ ایسی کمپنیوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے یا تو ای ڈی اور انکم ٹیکس کی کارروائی کے بعد الیکٹورل بونڈ خریدے ہیں یا پھر الیکٹورل بونڈ خریدنے کے بعد انہیں ہزاروں کروڑ کے سرکاری ٹھیکے مل گئے۔ ایس بی آئی کی جانب سے الیکٹورل بونڈ پر موجود مخصوص نمبر فراہم کئے جانے کے بعد یہ بات حتمی طور پر معلوم ہوجائے گی کہ مذکورہ کمپنیوں نے ای ڈی اور انکم ٹیکس کے چھاپوں کے بعد کس پارٹی کو چندہ دیا مگر یہ ملک کی جمہوریت کیلئے فال بد ضرور ہے۔ اس حقیقت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ الیکٹورل بونڈ سے دیئے گئے عطیہ کا ۵۴؍ فیصد حصہ (یعنی ۶؍ ہزار کروڑ روپے) اکیلے بی جےپی کو ملا جبکہ کانگریس کے حصے میں صرف ایک ہزار ۴۰۰؍ کروڑ روپے آئے۔ ترنمول کانگریس کو چھوڑ دیں تو اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کو تو الیکٹورل بونڈ سے بقدر اشک بلبل ہی چندہ ملا ہے۔ اس طرح ایک طرف جہاں بی جےپی اقتدار میں ہونے کے فائدہ کے ساتھ ہی ساتھ بے پناہ وسائل کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہے وہیں اپوزیشن پارٹیاں الیکشن لڑنے کیلئے وسائل سے محروم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی بونڈ کی یہ تفصیلات اگر کسی اور دور میں سامنے آئی ہوتیں تو ہنگامہ مچ گیا ہوتا اور وزیراعظم کا کرسی پر رہنا مشکل ہوگیا ہوتا مگر یہ گودی میڈیا کا دور ہے جس میں حکومت سے سوال پوچھنے کی روایت ختم ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے تاخیر ہی سے سہی اپنی ذمہ داری نبھادی ہے، اب گیند ملک کے عوام کے پالے میں ہے، صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے مستقبل کافیصلہ انہیں ہی کرنا ہے۔