مسلمانوں کے زوال و پستی، ان کی اقتصادی اور معاشی زبوں حالی، اختلاف و انتشار اور کہیں کہیں ان کی مظلومیت اور افراتفری کی حالت پرمختلف انداز سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے اور ان کو مشورے دیئے جاتےرہے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 01, 2023, 11:56 AM IST | Shamsul Haq Nadvi | Mumbai
مسلمانوں کے زوال و پستی، ان کی اقتصادی اور معاشی زبوں حالی، اختلاف و انتشار اور کہیں کہیں ان کی مظلومیت اور افراتفری کی حالت پرمختلف انداز سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے اور ان کو مشورے دیئے جاتےرہے ہیں۔
مسلمانوں کے زوال و پستی، ان کی اقتصادی اور معاشی زبوں حالی، اختلاف و انتشار اور کہیں کہیں ان کی مظلومیت اور افراتفری کی حالت پر مختلف انداز سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے اور ان کو مشورے دیئے جاتےرہے ہیں۔ ان کے زوال کے اسباب و وجوہ بیان کئے جاتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمان اس لئے ذلیل و رسوا ہیں کہ ان کے اندر قیادت کا فقدان ہے اور کوئی کہتا ہے کہ قیادت کے لئے خودغرض و مفادپرست لوگ آگے بڑھتے ہیں ، وہ اپنی ہوشیاری و چرب زبانی نیز اشتعال انگیز تقریروں سے غلط سمتوں میں لے جاتے اور مسائل میں الجھاتے رہتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ لیڈر اپنی شاندار کوٹھیوں اور آرام دہ بنگلوں میں بیٹھ کر صرف زبانی قیادت کرتے ہیں ، کسی طرح کا خطرہ مول لینا، کچھ مشقت جھیلنا، اپنے مفاد کو ادنیٰ درجہ کا نقصان پہنچا کر عوام سے ملنا جلنا اور سنجیدگی سے ان کو کوئی فکر یا سوچ عطا کرنا، وغیرہ کی ان میں نہ صلاحیت ہے نہ جرأت۔ مسلمان ان کی بیان بازی سے نقصان اٹھا رہے ہیں اور اشتعال میں آکر غلط اقدام کرتے ہیں جو ان کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔
کچھ روشن خیال لوگ جو صرف خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور کوئی معمولی قربانی دینے کے لئے بھی تیار نہیں ، اپنی ایک دن کی آمدنی یا گھنٹہ بھر کا آرام تک مسلمانوں کیلئے قربان کرنے کو تیار نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب علماء اور دیندار لوگ ہیں جو ان کو ترقی کے میدان میں بڑھنے سے روکتے ہیں اور اس کو دنیاداری کہہ کر مسلمانوں کی قوت عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگوں کو موجودہ اصطلاح میں بنیادپرست کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کو زوال کی طرف لے جانے کے سب سے بڑے مجرم یہی لوگ قرار دیئے جاتے ہیں ۔ غرض کہ مسلمانوں کے زوال و انحطاط اور پستی کے جتنے قلم، اتنے اسباب، جتنی زبانیں اتنے آزار بیان کئے جاتے ہیں ۔
حالانکہ واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے دین سے دوری۔ مسلمان دین ہی کی طاقت سے ابھرے اور دنیا پہ چھا گئے تھے اور اسی دینی طاقت کے کم ہونے سے گرے اور گرتے چلے گئے۔ آج بھی وہ ترقی اسی وقت کرینگے جب ان کے ادنیٰ و اعلیٰ میں دینی روح اور اسپرٹ پیدا ہوگی۔ لیڈروں کا اور عوام کا دین الگ نہیں ہے، یا یہ کہ دین نے لیڈروں اور قائدوں کو محض تقریر و تحریر کے مرتبہ پر فائز نہیں کیا ہے۔
حدیث شریف میں مسلمان کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں ۔‘‘
یعنی غیبت، بہتان تراشی، ناکردہ خطاؤں کو ان کے سرمنڈھنا، اپنے قیاس و گمان کو حقیقت کا جامہ پہنا کر اس کا ڈنکا پیٹنا، زبان سے مارنا، ستانا، حق ہڑپ کرلینا، طرح طرح سے ایذا پہنچانا مسلمان کے شایانِ شان نہیں ۔ایک مسلمان دوسرے کو ذلیل و کمتر نہیں سمجھتا اور کسی بھی معاملہ میں مدد و تعاون کی ضرورت ہو تو تاحد امکان اس کی مدد میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔
اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ اگر ایک بھائی خوشحال ہے اور دوسرا غریب ، تو مالدار اس غریب بھائی سے اپنے برادرانہ تعلق کے اظہار میں شرم محسو س کرتا ہے۔ اگر دو مسلمان ایک حیثیت کے ہیں تو بربنائے حسد ہر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے اور اگر وہ کسی مشکل میں پڑ گیا تو یہ نہ صرف اس کی مدد سے ہاتھ اٹھالیتا ہے بلکہ اس کا خواہشمند ہوتا ہے کہ یہ مصیبت اور بڑھے۔ غیروں کی دس جوتیاں بھی برداشت کرلے گا لیکن اپنے بھائی کے ساتھ صبر و حلم اس کے لئے مشکل ہوگا۔
جانتے تو بہت لوگ ہوں گے کہ اکرام مسلم اور حقوق مسلم اسلام کا ایک مستقل باب ہے، لیکن اس پر غوروفکر کرنے والے کم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی یہ دیکھنے کو تیار نہیں کہ مسلمانوں کی زندگی میں یہ کتنا پایا جارہا ہے؟ ہمارے امراء اور بڑے بڑے تاجروں کے عقیقوں ، شادیوں اور ولیموں میں فضول خرچیوں ، نمائش اور ریاکاریوں کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مستحقین و غرباء کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، شاندار ہوٹلوں میں ولیمہ ہوتاہے، پلیٹ کے حساب سے کھانا ہوتا ہے، جو کھایا کھایا اور جو بچا وہ کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ آپ معلوم کریں تو ایسے پرتکلف ولیمے کا اہتمام کرنے والے شخص کو کسی بیوہ، یتیم اور فقر و فاقہ کے مارے ہوئے کو پانچ سو تو دور کی بات ہے، سوپچاس دینے کی بھی توفیق نہیں ہوتی ۔
مسلمان کی اصل شان توحید رب اور شرک و بدعت سے برأت و بے زاری ہے، لیکن دیکھئے وہ کہاں کہاں سر جھکا رہا ہے۔ قبروں اور مزاروں سے بھی آگے نکل کر وہ عہدہ و منصب کے چکر میں دین اور مسلمانوں کے مسائل کو یکسر نظرانداز کرکے سیاسی مزاروں پر نہ صرف یہ کہ سر جھکا رہا ہے بلکہ مسلم مسائل سے بھی چشم پوشی کررہا ہے۔ کیا اس کی نحوست کا بھگتان مسلمانوں کو بھگتنا نہیں پڑے گا؟
مسلمانوں کو صرف ذکر و عبادت اور اخلاقیات ہی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے بلکہ جب خالق کائنات نے اس عالم کو عالم الاسباب بنایا ہے تو ان اسباب کو اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے، توکل کی تعلیم ان اسباب کو اختیار کرنے کے بعد دی گئی ہے اور اہل حق علماء اس کی دعوت دیتے ہیں ۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں ، صرف ایک دومثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
رزق کے سلسلہ میں فرمایا گیا:
’’پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (جمعہ:۱۰)
ارکانِ اسلام میں ایک رکن زکوٰۃ بھی ہے ۔ کیا زکوٰۃ بغیر مال کے دی جائے گی؟ جب زکوٰۃ فرض ہے تو کیا مال کمانا منع ہوگا؟ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کاروبار اور تجارت میں شرعی احکام کی رعایت کی جائے اور کمانے کی نیت اچھی ہو، قوموں اور قبیلوں کی ہنگامہ خیز دنیا میں شر و فساد کو دبانے کیلئے قوت و طاقت کی بھی ضرورت ہے۔ اس کا بھی اسلام میں حکم ہے ۔ پھر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ علماء اس سے روکتے ہیں ؟
جب مسلمان من حیث القوم ان خطوط پر چلنے لگیں گے جو اسلام نے ان کو بتائے ہیں تو ان کے لیڈر اور قائد بھی انہی میں کے ایک فرد ہوں گے اور صحیح جذبۂ خدمت اور قومی و ملی ضرورت کا احساس کرکے قیادت کے میدان میں آئیں گے اور مخلصانہ قیادت کریں گے۔ ایثار و قربانی کے ساتھ قوم کو سنبھالا دینے کی فکر کریں گے، دن میں کوششیں اور کاوشیں کرینگے، رات کو اپنے رب سے مانگیں گے، روئیں گے اور گڑگڑائیں گے، تب مسلمان کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، ان کی ذلت و پستی کی بساط پلٹے گی اور شرف و عزت کی مسند سجے گی۔
اگر رات کو رونا اور گڑگڑانا، خدا سے مانگنا، ہاتھ پھیلانا، مُلائیت اور بنیاد پرستی ہے، تو یہ وہی اسلام ہے جس کو نبی آخرالزماں ؐ لے کر آئے لیکن اگر کوئی اس کے علاوہ ہے تو مفاد پرستوں کا سیاسی اسلام ہے اور سیاسی اسلام عزت نہیں ذلت دیتا ہے ۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر مضامین و تقریروں کے انبار تو لگائے جاتے ہیں مگر خود اپنے عمل کا جائزہ ، اپنے ایمان و اسلام کی فکر کوئی نہیں کرتا، گویا خود اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ۔ جب ہر مسلمان اور اس کا ہر خطیب و صاحب قلم ، ہر لیڈر و قائد اسلامی احکامات کا مکلف دوسروں ہی کو سمجھے تو اسلام کہاں سے آئے گا؟ اور جب اسلام نہیں آتا تو پھر مسلمان نام کی قوم اور دوسری قوموں میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے اور پھر شکوہ کس بات کا؟ قرآن کریم نے بہت صاف اور واضح الفاظ میں فرمایا ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا۔‘‘(النساء:۱۳۶)
کیا ایمان سے مراد صرف زبانی اقرار ہے اور عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ؟ پڑھئے، آگے قرآن مجید کیا کہتا ہے:
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۰۸)
اب ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی کا کتنا حصہ اسلام کے مطابق ہے اور کتنا شیطان کے پیچھے چلنے میں لگ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کا وعدہ تو اس پر ہے کہ مسلمان خدا کے دین پر عمل کریں گے تب ہی وہ خدا کی مدد کے مستحق ہوں گے اور ان کو ثابت قدمی حاصل ہوگی ، اور جب خدا کی مدد ہوگی تو پھر ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرمایا:
’’اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں بے سہارا چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔‘‘ (آل عمران:۱۶۰)
اس پوری بحث کے پیش نظر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مسلمانوں کو صرف مسجد یا خانقاہ میں پڑے رہنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرینگے تاکہ وہاں اسلامی اخلاق و کردار، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت و احساس ذمہ داری، امانت و دیانت، انسانوں سے محبت، خدا کی مخلوق پر رحمت و رافت کا مظاہرہ ہو، لوگ دیکھیں اور سبق لیں کہ مسلمان ڈاکٹر ایسا ہوتا ہے، مسلمان سپاہی ایسا ہوتا ہے، مسلمان انجینئر ایسا ہوتا ہے، مسلمان تاجر ایسا ہوتا ہے، مسلمان مزدور ایسا ہوتا ہے، مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر صلاحیت کے آدمی کو جو ذمہ داری دی جاتی ہے وہ اس کا پورا حق ادا کرتا ہے۔
جب مسلمانوں کی زندگی یہ ہوگی تو وہ سر پر بٹھائے جائیں گے ، بلکہ ظلم و جور کی ماری دنیا انہی سے کہے گی کہ لو ، اب تمہی سارا کاروبار ِ دُنیا کو سنبھالو کہ مخلوق ِ خدا کو چین نصیب ہو اور خدا کی دھرتی پر ظلم و ناانصافیوں کا دروازہ بند ہو!