بی جے پی بھلے ہی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری ہو، این ڈی اے کو اکثریت مل گئی ہو اور نریندر مودی لگاتار تیسری بار وزیراعظم بن رہے ہوں لیکن لوک سبھا کے انتخابی نتائج بتار ہے ہیں کہ اس بار عوام نے مودی سرکار کے خلاف ہی ووٹ دیا ہے۔ زیر نظر کالموں میں انہیں نکات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بن رہے ہیں لیکن اس مرتبہ انہیں تنہا اکثریت نہیں ملی ہے، اس بار وہ اتحادی جماعتوں کے رحم و کرم پرہوں گے۔ تصویر : آئی این این
بی جے پی کی اکثریت سے محرومی
جس وقت ۱۸؍ویں لوک سبھا کیلئے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوا تھا، اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں حکمراں محاذ سے کوئی مقابلہ کرسکیں گی۔ یہی وہ زعم تھا جس کی وجہ سے بی جے پی نے اپنے لئے ۴۰۰؍ پار اور ’اپوزیشن سے پاک‘ لوک سبھا کا نعرہ دیا تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، حکمراں محاذ کمزور اور اپوزیشن طاقتیں مضبوط ہوتی گئیں۔ اس میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہم کردار عوام نے نبھایا۔ دوران انتخابات ملک کے کئی حصوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اس بار الیکشن، سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ عوام لڑ رہے ہیں۔
اور اب جو نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ ’چار سو پار‘ یعنی دو تہائی اکثریت تو بہت دور کی بات، بی جے پی کو سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں ۳۰۳؍ سیٹیں جیتنے والی زعفرانی پارٹی اس بار ۲۴۰؍ پر ہی سمٹ گئی۔ اسی طرح بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں بھی اعشاریہ ۸؍ فیصد کی کمی آئی۔
یوگیندر یادو کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ۳۰۳؍ سیٹوں تک بی جے پی کا نہ پہنچ پانا، مودی حکومت کی ناکامی ہے۔ ۲۷۲؍ کے جادوئی اعداد کو حاصل نہ کرپانا، بی جے پی کی شکست ہے اور ۲۴۰؍ پر آکر رُک جانا، مودی کی ذاتی ہار ہے کیونکہ یہ الیکشن پوری طرح سے ’مودی کے چہرے ‘ اور ’مودی کی گارنٹی‘ پر لڑا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: انتخابات کے نتائج کچھ بھی آئیں، مسلمانوں کو بہت خوش ہونا ہے، نہ ہی بہت افسردہ
دو تہائی ایم پی لوک سبھا نہیں پہنچ سکے
اگر کسی حکومت کے کم و بیش دوتہائی اراکین پارلیمان دوسری بار لوک سبھا نہیں پہنچ سکیں تو اسے آپ کیا نام دیں گے؟ کیا اس نتیجے کو حکومت کے خلاف عوامی برہمی تصور نہیں کیا جائے گا؟ خیال رہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے ۳۰۳؍ اراکین کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس مرتبہ اُن ۳۰۳؍ میں سے صرف ۱۱۱؍ اراکین پارلیمان ہی کامیاب ہوکر لوک سبھا پہنچ سکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کو انتخابات سے قبل ہی اس بات کااندازہ ہوگیا تھا کہ اس مرتبہ مودی حکومت کے خلاف عوام میں سخت برہمی پائی جارہی ہے، نتیجتاً اس نے۱۳۲؍ اراکین پارلیمان کے ٹکٹ پہلے ہی کاٹ دیئے تھے۔ ان میں سے ۵۳؍ اراکین پارلیمان ایسے تھے جنہوں نے۲۰۱۹ء کے الیکشن میں ۳؍ لاکھ اور ۸؍ اراکین ایسے تھے جو ۵؍ لاکھ سے زائد ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان حلقوں میں نئے امیدوار اُتارے گئے تھے، اس کے باوجود ان میں سے صرف ۹۵؍ ہی جیت سکے۔ تین حلقے ایسے تھے جہاں رکن پارلیمان کی موت کی وجہ سے یا تو سیٹ خالی تھی یا پھر ضمنی الیکشن میں بی جے پی ہار گئی تھی۔ باقی ۱۶۸؍ حلقے ایسے تھے جہاں بی جے پی نے اپنے لوک سبھا کےاراکین کو میدان میں اُتارنے کا جوکھم لیا تھا لیکن ان میں سے صرف ۱۱۱؍ ہی کامیاب ہو سکے۔ کیا یہ حکومت مخالف رجحان کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے؟
مودی کے وزیروں کی شکست
یہ مودی حکومت کے خلاف عوام کا عدم اعتماد نہیں تو اور کیا ہے کہ تقریباً ایک تہائی وزیر یعنی مودی کے ۲۰؍ کابینی ساتھی لوک سبھا کاالیکشن ہار گئے۔ ان میں سے کئی وزیروں کو مودی کا قریبی بھی سمجھاجاتا رہا ہے، جن میں اسمرتی ایرانی، راجیو چندر شیکھر، اجے کمار مشرا، ارجن منڈا، سنجیو بالیان اور سادھوی نرنجن جیوتی کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان وزیروں کی مودی سے قربت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کئی وزیروں کوان کے عہدوں سے ہٹانے کیلئے باقاعدہ تحریکیں چلیں لیکن وہ اپنی جگہ قائم رہے۔ اجے مشرا ٹینی کے بیٹے پر کسانوں کے ایک گروپ پر گاڑی چڑھادینے جیسا سنگین الزام تھا، اس کے باوجود انہیں کابینہ سے بے دخل نہیں کیا جاسکا، اسی طرح ارجن منڈا کے خلاف کسانوں کی ناراضگی بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو موقع ملا تو انہوں نے انہیں کابینہ ہی سے نہیں بلکہ لوک سبھا سے بھی بے دخل کردیا۔
اب اسے مودی حکومت کے خلاف عوام کاعدم اعتماد نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ مودی حکومت میں کام کرنے والے بی جے پی کے اراکین پارلیمان ہی کو نہیں بلکہ مودی کے وزیروں کو بھی لوک سبھا پہنچنے سے روک دیا گیا۔ ۲۴۰؍ سیٹوں پر بی جے پی کو سمیٹ دینا اور ایک دو نہیں بلکہ ۲۰؍ سے زائد وزیروں کو شکست کا مزہ چکھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام مودی حکومت سے ناراض ہیں۔
مودی کی ’شرمناک‘ جیت
مودی بنارس لوک حلقے سے الیکشن جیت گئے اور اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی منتخب کرلئے گئے جس کی وجہ سے ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ ایک بار پھر ہموار ہو گیا.... لیکن کیا اس کامیابی کو ’شرمناک‘ جیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا؟ ۲۰۱۴ء میں مودی ۳؍ لاکھ ۷۱؍ ہزار اور ۲۰۱۹ء میں ۴؍ لاکھ ۷۹؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس بار ان کی جیت کا فرق محض ایک لاکھ ۵۲؍ ہزار رہا۔ حالانکہ جیت کا فرق بڑھانے کیلئے بی جے پی اور بذات خود مودی نے کافی محنت کی تھی۔ انہوں نے ایک سے زائد روڈ شو زاور ریلیاں کی تھیں اور درجنوں اراکین پارلیمان اور وزیروں کو بنارس ہی میں تعینات کر رکھا تھا۔ ریاستی وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی ایک سے زائدریلیاں کی تھیں اور ان کے کئی کابینی ساتھی وہیں دن رات ڈیوٹی انجام دے رہے تھے لیکن یہ سب مل کر بھی ان کی جیت کا فرق بڑھا نہیں سکے، حالانکہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس بار ہار جیت کا فرق ۱۰؍ لاکھ سے زائد ووٹوں کا ہوگا۔
اسے مودی کی ہار کے طورپر اسلئے بھی دیکھا جانا چاہئے کہ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود راہل گاندھی نے رائے بریلی لوک سبھا حلقے میں ۳؍ لاکھ ۹۰؍ ہزار اور وائناڈ لوک سبھا حلقے میں ۳؍ لاکھ۶۴؍ ہزار ووٹوں کے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ دراصل راہل گاندھی کی جیت ہی کو مودی کی معنوی شکست قرار دیا جاسکتا ہے۔