مذہب اور سیاست نے تشدد کو ایک ناپسندیدہ انسانی فعل قرار دیا ہے لیکن ان دنوں عالمی سطح پر تشدد کی سماجی مقبولیت میں عموماً انہی دو شعبوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 2:55 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
مذہب اور سیاست نے تشدد کو ایک ناپسندیدہ انسانی فعل قرار دیا ہے لیکن ان دنوں عالمی سطح پر تشدد کی سماجی مقبولیت میں عموماً انہی دو شعبوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
سماج میں تشدد کی پذیرائی کا بڑھتا رجحان نہ صرف امن کے تصور کو پیچیدہ بنا رہا ہے بلکہ اس کے سبب قیام امن کی وہ کوششیں بھی کمزور پڑتی جا رہی ہیں جن کا مقصد سماج میں ایسی فضا ہموار کرنا ہے جو نوع انسانی کیلئے خوشحالی اور ترقی کے امکان کو قوی بنا سکیں ۔اس وقت یہ مسئلہ عالمی انسانی برادری کو مختلف صورتوں میں متاثر کر رہا ہے۔ اس کے سبب ہر عمر اور جنس کے افراد اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بعض ایسے غیر متوقع مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں جو اُن کی پوری زندگی کا شیرازہ بکھیر دیتے ہیں ۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماہرین سماجیات مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر اس رجحان پر قابو پانے کے موثر اقدامات نہ کئے گئے تو یہ مہذب دنیا عدم تحفظ سے دوچار ہو سکتی ہے۔عالمی انسانی سماج کے متعلق ماہرین کے اس قیاس نے اگر حقیقت کی شکل اختیار کر لی تو امن اور خوشحالی انسان کیلئے خواب بن جائیں گے۔اس ضمن میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف تو تشددکو سماج میں ایک عام انسانی رویہ کے طور پر قبول کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے تو وہیں دوسری طرف عالمی سطح پر قیام امن کے سلسلے میں بھی مسلسل اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس متضاد صورت کے درمیان معلق انسانی معاشرہ اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں بلا تاخیر اسے اپنے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس امر میں جتنا تاخیر ہوگی صورتحال اسی قدر پیچیدہ ہوتی جائے گی۔
سماج میں تشدد کی پذیرائی کو ہر اُس سطح پر دیکھا جا سکتا ہے جو کسی فرد یا سماج کے مزاج کو طے کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اس ضمن میں ایک دلچسپ سچائی یہ بھی ہے کہ مذہب اور سیاست نے واضح طور پر تشدد کو ایک ناپسندیدہ انسانی فعل قرار دیا ہے لیکن فی الوقت عالمی سطح پر تشدد کی سماجی مقبولیت میں عموماً انہی دو شعبوں کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔عالمی سطح پر دائیں بازو کے سیاسی افکار اور سخت گیر مذہبی رویہ کے سبب تشدد کے اظہار کو عام انسانی رویے کی حیثیت ہوتی جارہی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اب فکر و عمل کی سطح پر مختلف افراد کے درمیان باہمی رابطہ میں ہمدردی اور غم گساری کا رجحان روز بہ روز کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے خائف رہنے لگے ہیں اور اکثر اس خوف زدگی کا سبب سماج میں تشدد کی پذیرائی کا وہ بڑھتا رجحان ہی ہے جس نے انسانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے رابطہ کو کمزور بنا دیا ہے۔ اس رجحان کا سماجی سطح پر دوسرا جو اثر بہت نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے وہ یہ کہ معاشی ترقی اور مادی خوشحالی کی راہ میں ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جن کے سبب سماج کا بڑا طبقہ روزمرہ کی زندگی میں محرومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک اپنے داخلی معاملات نیز عالمی سطح پر باہمی روابط کو مثبت اور مستحکم بنانے کیلئے امن اور آشتی کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب اس دعوے کو عمل کی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو بیشتر کی حیثیت محض زبانی ہی ہوتی ہے۔ عوام کے مسائل کا تصفیہ کرنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عنوان سے بعض اوقات ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جو تشدد کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر اس رویے کا مقصد ایک تو اپنے اقتدار کو پائیدار بنانا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اپنے ہم مزاج افراد کو سماج میں فضیلت کے اس درجہ تک پہنچانا ہوتا ہے کہ دیگر کی حیثیت ان کے نزدیک دوم درجے کے شہری کی ہو جائے۔ ان مقاصد کی تکمیل کیلئے حکمراں طبقہ جو راستہ اختیار کرتا ہے وہ بہ ظاہر عوامی مقبولیت کا راستہ ہوتا ہے لیکن دراصل اس راستے سے قانون و آئین کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ان کا حتمی مقصد ہوتا ہے ۔ حکومتی سطح پر کی جانے والی ایسی کوششوں سے بھی سماج میں تشدد کے رجحان کو بڑھاوا ملتا ہے ۔ ان کوششوں کی زد پر آنے والا طبقہ اپنے وجود کی بقا اور اپنے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اکثر تشدد کی پرپیچ راہوں پر چل پڑتا ہے۔ جمہوری طرز حیات پر یقین رکھنے والے بیشتر ممالک میں داخلی سطح پر سماجی انتشار کے پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب حکمراں طبقے کا یہ غیر مساوی اور غیر انسانی رویہ بھی ہے جونہ صرف انصاف کی فراہمی کے تصور کو پیچیدہ بناتا ہے بلکہ اس کے سبب تشدد کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
عہد حاضر کے انسانی سماج کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں اس مسئلے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ ماہرین سماجیات تشدد کی سماجی مقبولیت پر مسلسل فکر مندی ظاہر کر رہے ہیں ۔ اس مسئلے سے ممکنہ طور پر محفوظ رہنے کی کوئی موثر کوشش بھی نہیں کی جا رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ بعض کو اس سے اختلاف ہو کہ اس ضمن میں کوئی موثر اور نتیجہ خیز کوشش نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ عالمی سطح پر نہ صرف حکومتیں بلکہ نجی اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ متواتر اس مسئلے پر غور و فکر کیا جارہا ہے۔بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نیز ملکی سطح پر قیام امن کو پائیدار بنانے والی یہ کوششیں صرف غور و فکر تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ عملی سطح پر بھی بعض ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہو سکے کہ دنیا کی مقتدر شخصیات اس مسئلے کے تئیں بیحد سنجیدہ ہیں ۔ اگر ان کوششوں کا جائزہ سماجی حقائق کے تناظر میں لیا جائے تو یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ قیام امن کی یہ کوششیں اس طور سے بار آور نہیں ہو رہی ہیں کہ جس سے تشدد کے رجحان پر قابو پا یا جا سکے۔
جب کسی انسانی رویے کو سماجی رجحان کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات کئی نسلوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد شعور کی راہ پر قدم رکھنے والی نسل کے افکار و افعال کا تجزیہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے۔اس وقت اس نسل کی رگوں میں جوانی کا خون تو جوش مار رہا ہے لیکن اس جوش کو کسی مثبت اور تعمیری مقصد کیلئے استعمال کرنے کا سلیقہ اس نسل میں بہت کم دکھائی دے رہا ہے ۔ چونکہ یہ نسل بیشتر صرف اپنی خواہشات اور اپنے مفاد کو بہر صورت ترجیح دینے کی عادی ہوتی جارہی ہے لہٰذا ان کے رویہ میں وہ اعتدال بھی باقی نہیں رہا جو شخصیت کو صالح انسانی اوصاف سے مزین کرتا ہے ۔اس کے علاوہ جدید تکنیکی وسائل نے نہ صرف اس نسل بلکہ ماقبل نسل کی زندگی کو ان معمولات کا عادی بنادیا ہے جن کے سبب صبر و تحمل کی بجائے عجلت پسندی اور جارحیت انسانی مزاج کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔ مسلسل اس کیفیت سے دوچار رہنے والوں کا تشدد پسند ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
فی الوقت عالمی سطح پر تشدد کی پذیرائی کا رجحان عمومی سماجی رجحان کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ اس رجحان نے نہ صرف انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی کو نئے مسائل سے دوچا ر کیا ہے بلکہ اس کا عکس ان مقتدر شخصیات کے رویہ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو سیاست، مذہب اور دیگر سماجی و فلاحی امور کی سمت و رفتار کا تعین کرتی ہیں ۔اس کے سبب نہ صرف سماجی اور ملکی مسائل پیچیدہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر معاشی معاملات بھی نئے مسائل کی زد میں آ رہے ہیں ۔ اس صورتحال سے دوچار انسانی معاشرہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر پیش رفت کرتا تو ہے لیکن کسی فیصلہ کن مرحلے پر پہنچنے سے قبل ہی اس کی کوشش بیشتر ناکامی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اس وقت بیشتر ملکوں کی سماجی کیفیت اسی نوعیت کی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تشدد کی پذیرائی کا رجحان بھی ان سماجوں میں روز افزوں ہے۔ یہ متضاد صورتحال ان عناصر کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار بناتی ہے جو تخریبی مزاج اور منفی رویہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیاست، مذہب اور دیگر سماجی تحفظات و تعصبات کی پناہ گاہ میں رہنے والے افراد بھی جب تشدد کی پذیرائی کرنے لگ جائیں تو حالات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
تشدد کی پذیرائی کا بڑھتا رجحان اس عہد کا ایک اہم سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس مسئلے کے تدارک کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہر سطح پر خود غرضی اور خود پسندی کے رویہ کو ترک کرنے کی کوشش کی جائے۔ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا کسی مخصوصی سیاسی فکر کے حوالے سے نوع انسانی کے درمیان تفریق نہ کی جائے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سماج ، فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کے درمیان فرق کرنے کا شعور حاصل کرے کیونکہ اکثر ہوتا یہ ہے کہ ان صورتوں کو ایک ہی صف میں رکھنے سے انسانی مزاج تشدد کا خوگر ہو جاتا ہے اور پھر امن و آشتی اور خوشحالی و ترقی کی راہیں مسدود ہوتی جاتی ہیں۔