ماضی پر افسوس کرتے رہنا انسانی دل کا ایسا ناسور بن جاتا ہے جس سے ماضی اداس، حال تاریک اور مستقبل غیر یقینی بنے بغیر نہیں رہتا۔
EPAPER
Updated: December 22, 2023, 12:51 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
ماضی پر افسوس کرتے رہنا انسانی دل کا ایسا ناسور بن جاتا ہے جس سے ماضی اداس، حال تاریک اور مستقبل غیر یقینی بنے بغیر نہیں رہتا۔
عام طور پر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جب کسی گھر کاکوئی فرد زیادہ بیمار ہوجاتا ہے تو گھر والے اس کے علاج کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرتے ہیں ۔ اب اس مریض کو، اللہ کے حکم سے یا توشفا ہوتی ہے یا وہ وفات پا جاتا ہے۔ شفا ہوجانے کی صورت میں تو خیر کوئی زیادہ مسئلہ ہوتا نہیں ہے، البتہ اگر اس مریض کی وفات ہوجاتی ہے تو پھر گھر کا ہرفرد علاج کے دنوں اور مہینوں کو یاد کرکرکے افسوس کرتا رہتا ہے کہ اس وقت ہم نے ایسا کرنے کے بدلے ایسا کیا ہوتا تو آج شاید ہمارا عزیز حیات ہوتا۔ انسان کی یہ عادت صرف کسی کی بیماری وغیرہ کی صورت میں سامنے نہیں آتی بلکہ وہ اپنی زندگی کے بیشتر مرحلے جن میں وہ ناکام ہوا ہے یا ان میں اس کو کسی قسم کا نقصان اٹھاناپڑا ہے، ان کو وقت گزرنے کے بعد کسی زخم کی طرح کرید کرید کر اپنی زندگی اجیرن کرتا رہتا ہے۔
سرکار دوعالم، نبی کریم ﷺ نے انسان کی اس سوچ کا دروازہ ہی بندکردیا ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر تمہیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لئے کہ کاش شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔‘‘
دراصل انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ دنیا اور یہاں کا نظام اور یہاں ہونے والی ہربات اللہ عزوجل کے فیصلے کی مرہون منت ہے۔ یہاں ایک پتہ بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ سمجھداری اور عافیت اسی میں ہے کہ اس کے ہرفیصلے پر راضی رہا جائے، نہ کہ جو کچھ ہوچکا ہے اس میں کچھ منطق لگائی جائے اور خواہ مخواہ اپنا چین و سکون کھویاجائے۔ اللہ عزوجل کے فیصلوں پر اس طرح راضی ہونے کا سب سے بڑ ا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ سب کچھ اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جو اچھا نہیں ہوتا، اللہ پر توکل کے ذریعہ انسان اس کو بھی اچھا بنا لیتا ہے۔
ماہرین نفسیات بار بار کہہ رہے ہیں کہ آج اکثر انسانوں کے ڈپریشن میں جانے کی ایک بڑی وجہ ان کا ماضی پر کف افسوس ملتے رہنا ہے۔ اس لئے کہ ماضی پر افسوس ایک ایسا عمل ہے جو ناسور بن کر دل میں سماجاتا ہے جس سے ماضی اداس، حال تاریک اور مستقبل غیر یقینی ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اب میرے لئے اس دنیا میں کچھ بچا ہی نہیں ہے۔
آج ساری دنیا ماضی کے پیچھے پڑی ہے۔ شاعروں اور نثر نگاروں نے پرانی یادوں پر ہزاروں صفحات لکھے ہیں ۔ لوگوں کا مزاج بھی ایسا ہے کہ وہ ہر ذریعہ سے کل کیا ہوا کی معلومات لینا چاہتے ہیں ۔لیکن اسلام انسان کو کل کیا ہوا کے بدلے آنے والے کل میں (بروزقیامت) کیا ہوگا؟ اس بات کی زیادہ فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ ویسے بھی جو ہوچکا اس کو ردکرنا، اس کو لوٹانا اور اس کو دوبارہ اپنے حال پر لانا ناممکن ہوتاہے، اس لئے اب اس پر افسوس کرکے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جبکہ آنے والا کل جو ہے وہ نہایت ہولناک ہے۔ اس کی تیاری کے لئے ہی انسان دنیا میں آیا ہے۔ اب اگر کوئی انسان اپنے ماضی پر ہی افسوس کرتارہے گا تو یقیناً مستقبل اور آخرت کی تیاری کا ہدف اس کی نظروں سے اوجھل ہونا عین فطری بات ہے۔ یوں بھی اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کے نقصان سے دوچار ہونے کے بعد ایک مسلمان کیلئے افسوس کرنے کی گنجائش نہیں رہتی جب وہ اپنے غفور و رحیم رب کا یہ پیغام قرآن مجید میں پڑھتا ہے: ”اور ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک اور مال و اولاد کے نقصان سے اور صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے۔ وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تووہ کہتے ہیں بیشک ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔ “ (سورة البقرة)
تفسیر ابن کثیر میں انا للہ وانا الیہ راجعون کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’ اہل ایمان اس قول کے ذریعہ تسلی حاصل کرتے ہیں اس مصیبت میں جو انہیں پہنچی ہے۔ اور وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ (انسان) اللہ کی ملکیت ہیں اور اللہ اپنی ملکیت میں جیسا چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت کے د اجر والوں کا ایک معمولی سا عمل بھی ضائع نہ ہوگا۔ ‘‘
یعنی اللہ عزوجل کی جانب سے اہل ایمان کو پہلے ہی یہ عندیہ دیا جاچکا ہے کہ دنیا کی زندگی میں تکالیف کا سامنا ہوگا، اب انہیں ثابت قدم رہنا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی زبان پر شکوہ شکایت کے الفاظ آنے دیں ، انہیں ہر نقصان کی صورت میں خود کواس حقیقت کے ساتھ تسلی دینی ہوگی کہ ہمارا دنیا میں کوئی بھی جانی، مالی یا دیگر نقصان ہوا تو کیا ہوا؟ ویسےبھی ہم سب کو اللہ ہی کی جانب لوٹ کر جانا ہے۔
قرآن مجید کے احکامات کی ایک جیتی جاگتی مثال ہمارے نبی کریم حضرت محمدؐ کی حیات مبارکہ تھی۔ آپؐ کی زندگی کے بیشمار واقعات ہیں جو انسان کو اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ بات واضح کردیتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں اصلی خوشی اور اطمینان یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔ اس سلسلے میں دل کے تاروں کو چھیڑ دینے والی ایک روایت ہے جو بخاری شریف میں وارد ہوئی ہے۔ جس میں آپؐ کے ۱۶؍ ماہ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں اور اس عالم میں بھی آپؐ کی زبان مبارک سے پیغمبرانہ شان والے یہ جملے ادا ہوتے ہیں : ’’آنکھیں آنسو بہارہی ہیں ، دل افسردہ ہے، (لیکن) ہم زبان سے وہی بات کہیں گے جو رب کو راضی کرنے والی ہے، اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پرغمگین ہیں ۔ ‘‘ ان جملوں میں گہرے رنج، دکھ اور غم کا اظہار ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی توثیق ہے کہ غم کا پہاڑ چاہے کتنا ہی بڑا ہو، لیکن زبان سے وہی بات نکلے گی جو رب کو راضی کرنے والی ہے۔ اس واقعہ اور کلمات میں ہر مومن کیلئے ایک واضح تعلیم ہے کہ کس طرح اس کو رب کریم کے ہر فیصلے پر خوش رہنا ہے۔
اسلام نے اس کے علاوہ ایک بڑی ہی پیاری ترکیب اور بھی بتائی ہے کہ جس کے ذریعہ انسان کے دل سے حالات کا ہر بوجھ اترسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان خود پر آنے والی مصیبتوں کی اصل وجہ کو پہچان لے، ان کا اعتراف کرے اور ان کا سدباب کرے۔ انسان پر آنے والے انہی مصائب کاتذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے سورۃ النساء (آیت ۷۹) میں ارشاد فرمایا: ’’تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، توتمہارے اپنے سبب ہوتی ہے۔‘‘
تفسیر طبری میں لکھا ہے کہ ’تمہارے اپنے سبب‘ کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے وہ گناہ جو تم نے انجام دئیے ہیں ، اور خود پر لاد لئے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ زندگی میں آپڑنے والی ان مشکلوں کے حل کے لئے اپنے اعمال کی جانب توجہ دینا اور یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بعض اوقات یہ آزمائشیں ہمارے درجات بلند کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں ۔ ان سب خیالات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مومنین زندگی میں مشکل حالات پر اس طرح راضی ہوجائیں کہ ان کے حل کیلئے کوئی کوشش ہی نہ کریں ۔ ہرگز نہیں ، اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ایک طرف ہر حال میں اللہ سے راضی ہوں لیکن ساتھ ہی اگر زندگی میں مشکلوں کا سامنا ہو تو ان کے سدباب کی کوشش بھی کریں اور ان کے نتائج چاہے جو بھی آئیں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہیں ۔ یہی وہ رضا، خوشی اور اطمینان ہے جس میں رنگ کر انسانی دل اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں ساری دنیا کے مسائل اس کے سامنے ہیچ ہوجاتے ہیں اور سوائے ابدی سکون اور اطمینان کے اس انسانی دل کی کسی اور سے شناسائی نہیں ہوتی ہے۔