أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ کی روشنی میں اپنا جائزہ لیجئے کہ ہم کس حد تک رب العالمین سے محبت کے دعویدار ہیں
EPAPER
Updated: July 21, 2023, 1:46 PM IST | Muhammad Hasan-uz-Zaman | Mumbai
أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ کی روشنی میں اپنا جائزہ لیجئے کہ ہم کس حد تک رب العالمین سے محبت کے دعویدار ہیں
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان ہو یا حیوان سب میں یکساں طور پر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ماں کا اپنے بچوں سے پیار کرنا یا استاد کا اپنے شاگردوں سے شفقت سے پیش آنا یا کسی تخلیق کار کی اپنی تخلیق کو چاہنا بھی محبت ہی ہے۔ انسان جسے اللہ نے پیدا کیا ہے لہٰذا اللہ کو بھی اس سے محبت ہے اور بے پناہ محبت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس کچھ قیدی آئے جن میں ایک عورت بھی تھی ۔ اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا، اس نے فوراً اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے سوال کیا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کے بدن میں طاقت رہے گی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔ اس لئے انسان پر واجب ہے کہ وہ بھی اپنے مالک سے محبت کرے۔
اشدّ حبّا للہ یہ دراصل ایک فلسفہ ہی نہیں ہے بلکہ فطرت انسانی کا تقاضا بھی ہے کہ ہر باشعور انسان کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل، نصب العین یا نمونہ ٹھہراتا ہے اور پھر اس سے بھر پور محبت کرتا ہے، اسی کے لئے جیتا اور مرتا ہے، قربانیاں دیتا اور ایثار کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی قوم کے لئے تو کوئی وطن کے لئے اور کوئی خود اپنی ذات کے لئے قربانی دیتا ہے۔ انہی لوگوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سورہ البقرۃ آیت ۱۶۵؍میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔‘‘
ہم آئے دن ان لوگوں کو اپنی نظروں سے دیکھتے بھی ہیں اور ان کے واقعات بھی سنتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بند مومن سارے کام اللہ کے لئے کرتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اسی کے لئے جیتا ہے اسی کے لئے مرتا ہے۔ سورۃ الانعام آیت ۱۶۲؍ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
(اے نبی) کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی (میرے تمام مراسم عبودیت) میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اس کے برعکس عام انسانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے معبود تراشتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لئے قربانیاں دیتے ہیں حالانکہ اسلام ان تمام باطل اعمال کی نکیر کرتا ہے اور جو لوگ صاحب ایمان ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت انسانی محبتوں کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کیلئے ایک مقصد متعین کر کے انہیں زیادہ پائیدار بناتی ہے۔ یہ گویا ایک امتحان بھی ہے کہ کوئی شے اگر اللہ سے بڑھ کر محبوب ہوگئی تو گویا وہ ہمارے لئے معبود بن گئی۔ ہم نے اللہ کو چھوڑ کر اس کو اپنا معبود بنالیا چاہے وہ دولت ہو شہرت ہو یا کچھ اور ہو۔
نوفل بن مسعودؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت انس بن مالکؓکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی ﷺ سے خود سنی ہو۔ انہوں نے کہا :میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس آدمی میں ہوں جہنم کی آگ اس پر حرام ہے: اللہ پر ایمان، اللہ سے محبت اور آگ میں گر کر جل جانا کفر کی طرف لوٹ جانے سے زیادہ محبوب ہو۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ۔ وہ ہلاک ہو اور جہنم میں اوندھے منہ گرے۔ اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے۔
ایمان اور مال و دولت کی محبت یہ دونوں کسی مومن کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، اسی طرح جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اور یہ کیسی سخت وعید ہے جو اللہ کے رسولؐ نے ان مسلمانوں کو سنائی ہے جو اللہ سے محبت کرنے کے بجائے دنیوی مال ومتاع سے محبت کر بیٹھتے ہیں جو کہ فانی ہیں۔ انسانوں کی آپسی محبت کے معاملہ میں ارشاد نبویؐ ملاحظہ فرمائیں: ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے اللہ کے لئے محبت کی، اللہ کے لئے دشمنی کی، اللہ کے لئے دیا اور اللہ ہی کیلئے منع کیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
یعنی اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گیا اور وہ بھی جب تمام اعمال رضائے الہی کی خاطر ہوں۔ اسی طرح اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کے لئے خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا: اللہ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے؟ میرے جلال کی قسم! آج کے دن میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا کہ میرے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔
دنیا میں انسان کو زندگی گزارنا ہے اور سماجی زندگی میں کئی لوگوں سے مختلف قسم کے معاملات رکھنے پڑتے ہیں، کئی رشتے خود بنتے ہیں تو کئی بنانے پڑتے ہیں ۔ ان تمام احوال میں اگر حقیقی معنوں میں ڈوب کر محبت کرنے کی مستحق کوئی ذات ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس سے کی جانے والی محبت تمام محبتوں میں افضل اور اعلی ہے اور دونوں جہانوں میں کامیابی کی ضامن بھی ہے اسی لئے ہر بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے دل میں محبت کا سب سے اعلیٰ مقام صرف اللہ رب العزت کو دے اور اس کے بعد ہی تمام محبتیں ہوں۔