فرانسیسی رپورٹر نے مسلمانوں کی مالی صورتحال کا اشاریہ عام کیا ہے۔ اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے مضمون نگار نے چند دیگر باتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
EPAPER
Updated: March 28, 2025, 9:22 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai
فرانسیسی رپورٹر نے مسلمانوں کی مالی صورتحال کا اشاریہ عام کیا ہے۔ اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے مضمون نگار نے چند دیگر باتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں بھی کئی دن گزر چکے ہیں۔ یہ آخری ہفتہ ہے۔ محنت کش، ملازمت پیشہ، تاجر سبھی اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ مدارس و جامعات کے سفراء کی بھاگ دوڑ اور واپس ہونے کی تیاریاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں مگر میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ مسلمانوں کے جذبۂ خیر میں تو کوئی کمی نہیں ہوئی ہے البتہ ان کے اصحاب ثروت کی مالی حیثیت متاثر ہے۔ مزید تصدیق ایک فرانسیسی رپورٹر کی مہیا کی ہوئی تفصیلات سے ہوتی ہیں کہ:
دہلی کے ۵۰؍ سلبھ بیت الخلاء میں تقریباً ۱۳۲۵؍ صفائی مزدور ہیں اور تقریباً سبھی مسلمان ہیں۔
دہلی اور ممبئی میں تقریباً ۵۰؍ فیصد رکشا چلانے والے مسلمان ہیں۔
مسلمانوں کی فی کس آمدنی سے سب کم ہے۔
بعض علاقوں میں گھروں میں کھانا پکانے اور دیگر گھریلو کام کرنے والے ۷۰؍ فیصد ملازمین مسلمان ہیں۔
مسلمان کسان اپنی زمین بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
طالبعلموں میں سب سے زیادہ ڈراپ آؤٹ مسلمانوں میں ہے۔
وقت پر ملازمت نہ ملنے کے سبب ہر سال مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد شادی کرنے سے محروم رہ جاتی ہے۔
یہ معلومات یا اعداد و شمار ایک مرکزی وزیر نے بھی اپنے ٹویٹر پر جاری کئے ہیں۔ ممکن ہے ان تفصیلات کو قبول کرنے میں ہم اختلاف پر مجبور ہوں یا یہ اضافہ کریں کہ مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جو دولتمند اقوام سے غریبوں میں بانٹنے کے نام پر زکوٰۃ کی رقم جمع کرتے ہیں یا کسی حیلے سے ان کی کمائی پر اپنا تسلط قائم کر لیتے ہیں مگر یہ تو حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں خیر و برکت پر جتنا زور دیا جاتا ہے اقتصادی معاشرتی (Socio Economic) مسائل کے حل پر نہیں دیا جاتا اسی لئے غربت، بے روزگاری اور غلط کاری بڑھتی جا رہی ہے۔ مجھے ان لوگوں سے کوئی غرض نہیں جو مستحق نہ ہوتے ہوئے زکوٰۃ کی رقم قبول یا طلب کرتے ہیں یا نادار طلبہ و مساکین کے نام پر زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے ہڑپ کر جاتے ہیں، غرض ان لوگوں سے ہے جو حلال و پاک کمائی سے پوری پوری زکوٰۃ نکالتے اور مستحق لوگوں کو ادا کرتے ہیں۔ ان میں یہ شعور پیدا کئے جانے کی ضرورت ہے کہ زکوٰۃ حلال کی کمائی میں ہے حرام کی کمائی میں کوئی زکوٰۃ نہیں اور حلال کی کمائی میں بھی غریبوں کا حق ہمیں ان کے گھروں تک پہنچانا ہے۔ کسی کو خوش لباس یا کشادہ مکان کا نشین سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑنا یا جہاں سے ضرورت نہ پوری ہو اس کو بے ایمان کہہ دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ زکوٰۃ حلال و طیب کمائی میں ہی ہے اور زکوٰۃ کے مستحقین ہیں فقراء، مساکین۔ زکوٰۃ کی وصولی پر متعین اسلامی حکومت یا جماعت کے کارندے، ایسے غلام جو اپنی آزادی کے لئے امداد کے طالب ہوں، ایسے قرض دار جن کو زکوٰۃ دینے سے قرض ادا ہوجائے، ایسے مجاہدین جو حق کے لئے لڑنے والے لشکر سے بچھڑ گئے ہوں، ایسے مسافر جو دوران سفر اپنی ضرورت پوری نہ کرسکیں۔ آسانی کے لئے ایک عام شخص اپنے ملک یا پڑوس کے علماء سے بھی رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سماج میں اعتبار نہیں حاصل ہونا چاہئے جو علماء کو کوستے رہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ دو چار کے بارے میں کسی کا تجربہ اچھا نہ ہو مگر اس ناخوشگوار تجربہ کے سبب تمام علماء کے طبقے کو کوسنا صحیح نہیں ہے۔
علماء کو کوس کر اپنا ایمان تازہ کرنے کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ ایسا کرنے والے خود ایک مسئلہ ہیں، یہ کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتے، دوسری طرف وہ لوگ بھی بہت بڑا مسئلہ ہیں جو اپنی سماجی مالی خاندانی حیثیت کے سبب اس کوشش میں رہتے ہیں کہ علماء ان کے زیر اثر رہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا اقتصادی مسئلہ ان کی ملی شناخت کے ساتھ اس وقت حل ہوگا جب SOCIO ECON یعنی سماجی اقتصادی مسائل پر علاقوں اور محلوں کی سطح پر توجہ دی جائے گی۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ توجہ ایسے لوگوں کے عروج کا باعث نہ بنے جو ہمیشہ دوسروں کی دولت یا غریبوں سے جمع کی ہوئی رقم پر نظر رکھتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ایماندار، باصلاحیت اور مخیر ہیں مگر وہ ان لوگوں کی بدنیتی کا شکار ہوجاتے ہیں جو مالی خرد برد کے لئے ہی ملت کی اقتصادی خوشحالی کی کوششوں میں شامل ہو کر اپنی جگہ بناتے ہیں اس لئے ایسے تمام منصوبوں کا حکومت کی سرپرستی میں اس کی ضمانت کے ساتھ پورا ہونا ضروری ہے تاکہ عام لوگوں سے جمع کی ہوئی رقم کے کسی کے ہڑپ کر لئے جانے کا خدشہ نہ رہے۔ ’حکومت کی سرپرستی‘ کے مسئلہ میں بعض لوگ اختلاف کرسکتے ہیں۔ اختلاف کا ان کا حق برحق مگر جب رقم کے ڈوبنے پر پولیس اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو پہلے ہی حکومت کی سرپرستی یا اس کی قابل عمل تجویز پر عمل کرنے سے گریز کی کیا وجہ ہے؟
اقتصادی مسئلہ کا حل آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اگر اس کو حل نہیں کیا گیا تو آنے والے دن اور زیادہ پریشان کن ہوں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ مظلوم کے خلاف الزام تراشی اور ظالم آجر کے ہر ظلم کی پردہ پوشی کا رجحان کینسر کی طرح پھیلتا جا رہا ہے اسی سبب مجھ جیسے لوگ زندگی بھر ایمانداری سے کام کرنے کا صلہ بے روزگاری اور بدنامی کی صورت میں حاصل ہونے کے باوجود اپنے اس اعتماد پر جیے جا رہے ہیں کہ ایمانداری، محنت، صاف گوئی کا حکم جس نے دیا ہے وہ علیم، خبیر، بصیر ہے وہی اچھے دنوں کی سبیل پیدا کرے گا۔ یہی اعتماد ہماری متاع ہے اور اس متاع کے ساتھ ہم بڑی سے بڑی مصیبت کو دور کرنے میں کامیاب یا ان کے دور ہونے کی دعا کرنے میں کامیاب ہیں۔ رمضان کا آخری عشرہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ مسلمانوں کی بدحالی دور کئے جانے کی ضرورت ہے۔