نتیش کمار کے تئیں مسلم طبقے میں ایک نرم گوشہ ضرور ہے کہ ان کے وقت میں ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات پر نکیل کسی ہے۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 9:54 AM IST | Doctor Mushtaq Ahmed | Mumbai
نتیش کمار کے تئیں مسلم طبقے میں ایک نرم گوشہ ضرور ہے کہ ان کے وقت میں ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات پر نکیل کسی ہے۔
حال کے دنوں میں بہار کے سیاسی گلیاروں میں یہ چہ میگوئیاں بڑے زورشور سے ہو رہی تھیں کہ نتیش کمار شاید پھر اپنا پالا بدل سکتے ہیں اور قومی سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چل رہی تھی کہ ممکن ہے نتیش کمار امروز فردا میں انڈیا اتحاد میں شامل ہوں گے لیکن گزشتہ دنوں نتیش کمار نے قومی جمہوری اتحاد کا مشترکہ اجلاس طلب کر تمام تر قیاس آرائیوں کا خلاصہ کردیا ہے۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے وضاحت کی کہ ماضی میں جب کبھی وہ بی جے پی سے الگ ہوئے یا پھر راشٹریہ جنتا دل سے الگ ہوئے تو وہ ان کا انفرادی فیصلہ نہیں تھا بلکہ پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کے فیصلے کی وجہ سے کبھی بی جے پی سے الگ ہونا پڑا اور کبھی راشٹریہ جنتا دل سے۔قومی سطح پر نتیش کمار کے اس رویے کی سیاسی حلقے میں نکتہ چینی بھی ہوئی لیکن اب جب کہ انہوں نے یہ خلاصہ کردیا ہے کہ کب اور کیوں انہوں نے اپنے پالے بدلے تو ان کی پارٹی کے دیگر لیڈروں کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ ان کی پارٹی کے اندر ہی ایسے لوگ ہیں جو وقتاً فوقتاً اس طرح کے حالات پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے نتیش کمار کو اپنا اتحادی بدلنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک نتیش کمار دو باربی جے پی اور راشٹریہ جنتا دل سے الگ ہوئے ہیںلیکن قیادت ان کے ہی ہاتھوں میں رہی ہے۔حالیہ مشترکہ میٹنگ میں انہو ں نے اشاروں اشاروں میں ہی یہ بھی کہہ دیا کہ بہار میں ہم سب کے لئے ہیںاور کسی خاص جماعت کو لے کر چلنے والے نہیں ہیں ۔یہ اشارہ صاف طورپر بی جے پی کے لئے تھا کہ حال ہی میں ان کے ممبر پارلیمنٹ اور کابینہ وزیر گری راج سنگھ ریاست میں ہندوسوابھیمان یاترا نکال کر ایک خاص طبقے کے خلاف زہرا فشانی کررہے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں گری راج سنگھ بھی موجود تھے اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ قومی جمہوی اتحاد کے دیگر لیڈران بھی شامل تھے لیکن نتیش کمار کے اس بیان پر کسی نے اجلاس کے اندر اور نہ باہرکوئی تبصرہ کیا۔غرض کہ قومی جمہوری اتحاد اس حقیقت سے خوب آگاہ ہے کہ ریاست بہار میں نتیش کمار کی قیادت کی بدولت ہی ان کا وجود قائم ہے اور وہ دو دہائیوں سے حکومت میں شامل رہ کر اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو بھی مستحکم کر رہے ہیں اور اپنے نظریوں کو فر وغ دے رہے ہیں۔بالخصوص پارلیمانی انتخاب کے بعد قومی جمہوری اتحاد کو یقین ہوگیا ہے کہ بہار میں بغیر نتیش کمار کے ان کے حق میں فضا سازگار نہیں رہ سکتی اس لئے قومی جمہوری اتحاد کے تمام اتحادیوں نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب نتیش کمار کی قیادت میں ہی لڑا جائے گا۔
بہر کیف!اس مشترکہ اجلاس میں نتیش کمار نے ایک اور پیغام اپنے اتحادیوں کو دیا کہ وہ اقلیت طبقے کے درمیان جا کر اس حقیقت کا انکشاف کریں کہ راشٹریہ جنتا دل کی حکومت میں اقلیت طبقے کو کیا ملا اور قومی جمہوری اتحاد یعنی نتیش کمار کی قیادت والی حکومت نے ان کی فلاح وبہبود کے لئے کتنے کام کئے ہیں ۔دراصل حال کے دنوں میں پرشانت کشور نے اپنے پارٹی جن سوراج کے بیشتر اجلاسوں میں یہ بیان دیا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں وہ پچاس سے زیادہ مسلم امیدوار کھڑا کریں گے ۔اس اعلان سے ایک طرف راشٹریہ جنتا دل کے اندر فکر مندی دیکھی جا رہی ہے کہ اگر واقعی جن سوراج نے اتنی بڑی تعداد میں مسلم امیدوار کھڑے کئے تو ان کی سیاسی طاقت کمزور ہو سکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں جہاں کہیں مسلم امیدوار تھے وہاں یادو برادری کا ووٹ انہیں نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے اقلیت طبقے میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں تک نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل متحدہ کا سوال ہے تو ان کی پارٹی کو بھی مسلمانوں کا ووٹ ملتا رہا ہے اس لئے ان کے لئے بھی یہ خطرہ ہے کہ اگر جن سوراج نے مسلم اکثریت والے حلقوں میں مسلم امیدوار دئے تو اس کا خسارہ جنتا دل متحدہ کو بھی ہو سکتا ہے ۔نتیش کمار کے تئیں مسلم طبقے میں ایک نرم گوشہ ضرور ہے کہ ان کے وقت میں ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات پر نکیل کسی ہے اور سرکاری اسکیموں سے فائدہ بھی ملا ہے۔ بالخصوص پوری ریاست میں قبرستانوں کی گھیرا بندی اور اقلیت طلباء وطالبات کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کی مفت کوچنگ کا اہتمام قابلِ ذکر ہے مگر نتیش کمار کو امید ہے کہ اگر ان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ این ڈی اے کے دوسرے لیڈران بھی اقلیت طبقے کے درمیان یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ ان کی حکومت اس طبقے کے لئے کیا کر رہی ہے تو اس کا فائدہ اتحاد کو مل سکتا ہے لیکن ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کے ذریعہ جس طرح مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے کیا اس پر واقعی روک لگے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔نتیش کمار نے نوجوان طبقوں کے درمیان خصوصی مہم چلانے کی بھی بات کہی ۔ ظاہر ہے نتیش کمار اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ریاست میں اس وقت چالیس فیصد ایسے ووٹر ہیں جو ان کے دورِ قیادت میں جوان ہوئے ہیں ۔ غرض کہ ایسے تمام نوجوان جو ۱۹۹۵ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں وہ سب نتیش کمار کی حکومت میں ہی تعلیمی اداروں تک پہنچے ہیں اور مختلف سرکاری اسکیموں سے مستفیض ہوئے ہیں ۔
مختصر یہ کہ قومی جمہوری اتحاد کی مشترکہ میٹنگ کے ذریعہ نتیش کمار نے ایک ساتھ جنتا دل متحدہ کے لیڈروں کو بھی اشارہ دیا ہے کہ انہیں آئندہ اسمبلی انتخاب کیلئے کس طرح کی حکمت عملی اپنانی ہے تو دوسری طرف اپنے اتحادبی جے پی کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر واقعی آئندہ اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہونا ہے تو ہندوتو ا کے ایجنڈے کو پسِ پردہ رکھنا ہوگا۔واضح رہے کہ نتیش کمار نے اسی میٹنگ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ۲۲۵؍سیٹوں کا نشانہ لے کر چل رہے ہیں ۔اس اجلاس سے یہ بھی صاف ہوگیا کہ بہار میں اسمبلی انتخاب اپنے وقت یعنی آئندہ سال نومبر میںہی ہوگا ۔حال کے دنوں میں یہ بھی افواہ تھی کہ بہار اسمبلی انتخاب قبل از وقت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشترکہ اجلاس کے بعد اپوزیشن انڈیا اتحاد کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی کہ آئندہ اسمبلی انتخاب ان کیلئے بھی غیر معمولی سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔