ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو امریکہ کے بجائے روس اور چین کے قریب لے جا رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں سعودی عرب نے چین کے ساتھ ثقافتی، معاشی اور عسکری رشتے مزید مستحکم کئے ہیں۔
EPAPER
Updated: November 02, 2022, 2:18 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو امریکہ کے بجائے روس اور چین کے قریب لے جا رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں سعودی عرب نے چین کے ساتھ ثقافتی، معاشی اور عسکری رشتے مزید مستحکم کئے ہیں۔
امریکہ کا صدر بے پناہ طاقت کے ساتھ ساتھ بے پناہ اختیارات کا مالک بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہر وقت ساتویں آسمان پر رہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اس کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا ہے۔ جو بائیڈن کو بھی یہ یقین تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے فرمانرواؤں کو جب تاکید کردی ہے کہ وہ تیل کی پیداوار فی الحال نہ گھٹائیں تو ظاہر ہے وہ یہ قدم نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن جب اکتوبر کے پہلے ہفتے میں تیل برآمد کرنے والے بائیس ممالک کی سعودی عرب کی سربراہی والی تنظیم اوپیک پلس نے صدر بائیڈن کی اپیل کو ٹھکراتے ہوئے تیل کی یومیہ پیداوار دو ملین بیرل کم کردی توامریکہ کے غم و غصہ کا ٹھکانہ نہ رہا۔ صدر جو بائیڈن سعودی حکم عدولی سے اس قدر چراغپا ہوگئے کہ انہوں نے ریاض کو ’’نتائج‘‘ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دے ڈالی اور امریکی کانگریس کے اراکین سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر روک لگانے اور وہاں تعینات امریکی فوجی اہلکاروں کو واپس بلانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اوپیک کے ذریعہ تیل کی پیداوار کم کرنے کی وجہ سے امریکہ میں پیٹرول کی قیمتیں فوراً ۸۰؍ ڈالر سے اچھل کر ۹۰؍ ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئیں۔ تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں امریکی شہریوں کے مصائب میں اضافہ کرنے لگیں۔ امریکہ میں نومبر میں اہم وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور بائیڈن کو خدشہ ہے کہ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہوئے اضافے سے حکمراں ڈیموکریٹ پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر بائیڈن نے ریاض سے پہلے تو تیل کی پیداوار بڑھانے کی درخواست کی تھی اور جب انہیں مثبت جواب نہیں ملا تو انہوں نے سعودی حکمرانوں کو کہا کہ تیل کی پیداوار کم کرنےکے فیصلے کوکم از کم ایک دو ماہ کے لئے ملتوی کردیں لیکن ان کی یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی۔ سعودی عرب سے بائیڈن حکومت کی ناراضگی کی ایک اور اہم وجہ بھی ہے۔ واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کا براہ راست فائدہ روس کو ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کا الزام یہ ہے کہ سعودی عرب کے ذریعہ تیل کی پیداوار کم کرنادر اصل روس کی حمایت میں کیا گیا اقدام ہے جو یوکرین جنگ میں پوتن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
دوسری جانب سعودی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ اپنے معاشی مفادات کو امریکہ کے سیاسی مقاصد پر ترجیح دے کر کوئی گناہ نہیں کررہی ہے۔سعودی حکومت کو خدشہ ہے کہ عالمی معیشت کی زبوں حالی بہت جلد عالمی کسادبازاری میں تبدیل ہوجائے گی جس سے تیل کی ڈیمانڈ کم ہوجائے گی اور قیمتیں کریش کرجائیں گی ۔ ۲۰۰۸ء کی کساد بازاری کے دور میں سعودی عرب کو اس طرح کے بحران کا سامنا کرنا پڑچکا ہے اس لئے اس نے احتیاطی تدبیر کے طور پر خود پیداوار کم کرکے مستقبل میں دام گرنے کے خطرے سے محفوظ رہنے کی خاطر یہ حکمت عملی اپنائی ہے۔ سعودی عرب روس سے قربت بڑھا ضرور رہا ہے لیکن اس پر یوکرین جنگ میں روس کے ہاتھ مضبوط کرنے کا الزام درست نہیں ہے۔ سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں یوکرین میں روسی جارحیت کی مذمت میں پیش کی گئی قراردادکی حمایت کی ہے اور یوکرین کے عوام کے لئے ۴۰۰؍ ملین ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے۔لیکن واشنگٹن کا غیظ و غضب کم کرنے کے لئے یہ سعودی اقدام کافی نہیں سمجھے جارہے ہیں کیونکہ ابھی بھی بائیڈن حکومت ریاض کو سبق سکھانے پر مصر نظر آرہی ہے۔ دو ممالک کے لیڈروں کے ذاتی رشتے ان ممالک کے باہمی تعلقات میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ماضی میں امریکی صدور اور سعودی بادشاہوں کے رشتے عمومی طور پر اچھے رہے ہیں۔لیکن بائیڈن اور سعودی ولی عہد کے ذاتی رشتوں میں شروع سے ہی بے حد تلخی دیکھی گئی۔ بائیڈن نے صدارتی انتخابی مہم کے دوران یمن کی جنگ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور معروف صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کے لئے سعودی عرب پر سخت تنقیدیں کی تھیں۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ صدر منتخب ہوجانے کے بعد وہ سعودی عرب کو سفارتی طور پر اقوام عالم میں تنہا کردیں گے۔ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی انہوں نے امریکی انٹلی جنس کی ایک رپورٹ شائع کروادی جس میں ترکی میں سعودی سفارت خانے میں صحافی کے قتل کیلئےولی عہد کو براہ راست طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ایک سال تک انہوں نے سعودی فرمانرواؤں سے بات چیت نہیں کی۔ پچھلے جولائی میں اپنی غرض کے ہاتھوں مجبور ہوکر بائیڈن نے ریاض کا دورہ کیا تاہم میزبان اور مہمان کے رشتوں میں سردمہری صاف جھلک رہی تھی۔باہمی مذاکرات کے دوران بائیڈن نے سفارتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں کے سامنے متنازع موضوعات چھیڑ کر ماحول بگاڑ دیا۔ کہا جاتا ہے امریکی صدر کے جارحانہ رویے کی وجہ سے سعودی ولی عہد ان سے اس قدر بدظن ہوگئے کہ انہوں نے بائیڈن سے فون پر بات تک کرنے سے انکار کردیا۔ سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی ۸۰؍سال پرانی ہے۔ اس طویل عرصے میں رونما ہونے والے بے شمار واقعات کا اس دوستی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ۱۹۷۳ء میں اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کرنے کی وجہ سے اوپیک نے امریکہ کو تیل کی فروخت پر پابندی لگادی تھی۔ اس لئے امریکہ میں سعودی عرب کے خلاف بے حد ناراضگی تھی لیکن آخر کار سفارت کاری اور مکالموں کے ذریعہ تنازع حل کرلیا گیا۔ ایک نہیں دو دو خلیجی جنگوں میں امریکہ اور نیٹو افواج نے مشرق وسطیٰ کو تباہ کرکے رکھ دیا لیکن واشنگٹن اور ریاض کی دوستی برقرار رہی۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے جیسے دونوں فریق اپنے باہمی تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔امریکہ سعودی عرب پر بے وفائی کا الزام عائد کرکے اپنے التفات کم کررہا ہے۔در اصل محمد بن سلمان کے ہاتھوں سعودی عرب میں تیزی سے معاشرتی، سیاسی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ساتھ ہی ولی عہد ملک کی خارجہ پالیسی کو بھی ایک نئی جہت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دہائیوں تک امریکہ کا قریبی رفیق اور پارٹنر بنے رہنے کے بعد محمد بن سلمان اپنے ملک کو اس کے حلقۂ اثر سے آزاد کرارہے ہیں۔ مشہور امریکی اخباروال اسٹریٹ جنرل نے اپریل میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو امریکہ کے بجائے روس اور چین کے قریب لے جا رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں سعودی عرب نے چین کے ساتھ ثقافتی، معاشی اور عسکری رشتے مزید مستحکم کئے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی ملک دائمی دوست یا دائمی دشمن نہیں ہوتا ہے۔ دائمی صرف ایک چیز ہوتی ہے: مفاد۔