• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دین اورعلم کا دائمی رشتہ

Updated: December 15, 2023, 2:45 PM IST | Maulana Abul Hasan Ali Hasani Nadwi | Mumbai

روئے زمین پر قیامت تک مسلمان کہیں بھی آباد ہوں ، جہاں مسلمانوں کے چار گھر بھی آباد ہوں، بلکہ جہاں چار مسلمان بھی پائے جاتے ہیں وہاں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’’اقراء‘‘ کا سامان کریں۔

Knowledge of the rules and problems of life is obtained from religious schools. Photo: INN
زندگی کے احکام و مسائل کا علم دینی مدارس سے حاصل ہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

قرآن پاک میں فرمایا گیا: ’’اوریہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے ۔‘‘ (توبہ:۱۲۲)
اسلام اور علم کا رابطہ
 حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام علم کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ علم بھی اسلام کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے لیکن کسی اور مجلس میں شرح و بسط کے ساتھ کہنے کی بات ہے، وہ علم علم ہی نہیں جو وحی کی سرپرستی اور وحی کی رہنمائی بلکہ وحی اور علوم نبوت کی انگلی پکڑ کر نہ چلے اور جس پر وحی کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو اور جووہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں کی سرپرستی میں ، اتالیقی میں ، نگرانی میں ، رہنمائی میں نہ ہو وہ علم علم نہیں :
علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است
 اس وقت ہمارا آپ کا موضوع ہے کہ اسلام بغیر علم کے نہیں رہ سکتا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے آپ مچھلی کو پانی سے نکال دیجئے تو اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور وہ مر جاتی ہے۔ اسی طریقہ سے اسلام کے لئے علم ضروری ہے ۔ خدا کی صحیح معرفت ہو، اس کی ذات و صفات کی صحیح معرفت ہو ، اس کا بندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے ، بندوں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہونا چاہئے، زندگی کا مقصد کیا ہے، آغاز کیا ہے؟ انجام کیا ہے؟ ابتداء کیا ہے؟ انتہا کیا ہے؟ انسان کہاں سے آیا اور اس کو کہاں جانا ہے اور پھر کیا ہونا ہے؟ ان سب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے اسلام علم کو چاہتا ہے اور وہ علم کو ضروری قرار دیتا ہے۔
 پہلی وحی میں علم و قلم کا تذکرہ
 پہلی وحی جو جناب رسولؐ اللہ پر غار حرا میں نازل ہوئی اور سیکڑوں برس کے بعد آسمان و زمین کا پہلی مرتبہ جو رشتہ قائم ہوتا ہے زمین کے لئے کچھ لینے کے لئے اور آسمان کے کچھ دینے کے لئے، برسوں کے بعد دو بچھڑے ہوئے ملتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کو کیا کیا فغاں و فریاد، شکایتیں اور حکایتیں سناتے ہیں ، لیکن اس وقت جو یہ دو پچھڑے ہوئے ملے تو آسمان سے اس نبی کو جس کو زمین والوں کا رشتہ اللہ سے جوڑنا تھا، سب سے پہلا پیغام ’’اقراء‘‘ کی شکل میں ملا۔ اس سے آپ علم و قلم کی اہمیت و عظمت سمجھئے جن کو اس پہلی وحی اور پیغام آسمانی میں عزت کا مقام دیا گیا۔
 شیخ سعدی ؒ نے آپؐ کی شانِ اقدس میں کہا تھا:
کتب خانۂ چند ملت بشست
لیکن آپ نے کتب خانے اتنے دھوئے نہیں جتنے کتب خانے بنادیئے، وہی کتب خانے دھوئے جن کو دھونا چاہئے تھا ، لیکن دھوکر کے پھر کیا دیا؟ نور دیا ، یقین دیا، اللہ کی صحیح معرفت عطا فرمائی، انسان کو انسان بنادیا اور جاہل انسان بلکہ حیوان صفت انسان کو دنیا کا معلم بنا دیا۔ بقول اکبرؔ
جو نہ تھے خود راہ پر غیروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
تعلیم و تعلم کی ضرورت اور اس کا مقام
دنیا کی کوئی قوم علم سے مستغنی ہوسکتی ہے ، کہہ سکتی ہے کہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ، ہم پر کوئی فرض واجب نہیں ، ضروری نہیں ہے کہ ہم پڑھیں اور پڑھائیں ، بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں ، لیکن روئے زمین پر قیامت تک مسلمان کہیں بھی آباد ہوں ، وہ چاہے مقامات مقدسہ ہوں ، چاہے جزیرۃ العرب ہو، چاہے یورپ و امریکہ ہو، چاہے ہندوستان کی سرزمین ہو، شہر ہو ، قصبہ ہو ، دیہات ہو جہاں مسلمانوں کے چار گھر بھی آباد ہوں ، بلکہ جہاں چار مسلمان بھی پائے جاتے ہیں وہاں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’’اقراء‘‘ کا سامان کریں ۔ وہ اس کی تعمیل کریں کہ پڑھو، یہ کام شفاخانوں کے قیام سے زیادہ ضروری ہے اور آپ کی دکانوں سے زیادہ ضروری ہے، یہ کارخانوں سے زیادہ ضروری ہے، اس میں کسی چیز کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مامور نہیں فرمایا۔ 
یہ نہیں فرمایا کہ تجارت کرو، کماؤ کہ یہ بہت بڑی طاقت ہے، دین حق کو غالب کرنے کے لئے خوب پیسہ پیدا کرو، خوب دولت جمع کرو، اپنی امت کو سبق سکھاؤ، یہ کہیں نہیں فرمایا۔ فرمایا تو یہ فرمایا: ’’اقراء‘‘ (پڑھو)۔ اب بتائیے کہ علم کا کیا مقام ہوا؟
  اچھا پھر وہ علم جو منجانب اللہ حاصل ہوتا ہے، ایک علم لدنّی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کسی کسی کا سینہ کھول دیتا ہے اور اسے علوم کا گنجینہ بنادیتا ہے۔ ان کی زبان سے حکمت ابلتی ہے ، یہ سر آنکھوں پر، ہم ان کو اپنے سے ہزار درجہ افضل مانتے ہیں ، ان کا سایہ پڑ جائے تو ہم سمجھیں کہ ہم آدمی بن جائیں گے ، لیکن ’’اقراء‘‘ اپنی جگہ پر رہے گا۔ان حضرات کو بھی ضرورت ہے کہ وہ مسئلہ پوچھیں عالموں سے ، بڑے بڑے صاحب ِ ادراک، صاحب ِ کشف بھی نماز کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔
  یہ ’’اقراء‘‘ کا سلسلہ ایسا ہے کہ نبی ٔ اُمّی ؐ سے شروع ہوکر آخری امّی تک (یعنی جو نقطاً بے پڑھا ہے) جاری رہے گا ۔ کتنے ہی دنیا میں انقلابات آئیں ، سلطنتیں بدلیں ، تہذیبیں بدل جائیں اور انقلاب عظیم برپا ہوجائے، زبان بدل جائے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
حفاظت ِ قرآن کا مفہوم
اللہ تعالیٰ نے کسی کتاب اور کسی زبان کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لی۔ قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے تو حفاظت کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ بس کتاب رہے ، نہ کوئی اس کو سمجھے نہ سمجھائے۔ اس کے لئے سمجھنے سمجھانے والے بھی ہونے چاہئیں اور وہ کتاب الفاظ میں ہے تو زبان بھی ہونی چاہئے۔ الفاظ بغیر زبان کے نہیں رہتے ۔ اس لئے عربی زبان بھی رہے گی ۔ کتنی زبانیں مٹ گئیں ، لیکن شریعت ِ الٰہی کی زبان ِ عربی اپنی جگہ پر ہے اور اس کا علم اپنی جگہ پر ہے ، تو ہر جگہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے یہاں مقدور بھر دینی تعلیم کا انتظام کریں ، ہر جگہ مسائل بتانے والے نہ صرف یہ کہ موجود ہوں بلکہ ان کا سلسلہ جاری رہے ، یہ بھی مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے۔ مدارس کا سلسلہ ضروری ہے ، یہ کوئی شوقیہ یا تفریحی کام نہیں ہے ، یہ خالص دینی ضرورت ہے۔ میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ مساجد کے بعد نمبر ۲؍ کی چیز یہی ہے اور سچ پوچھئے تو مساجد کی پشت پناہ بھی یہی مدارس ہیں ۔ اگر مدارس نہ ہوئے تو آپ کو امام کہاں سے ملیں گے ؟ اور اگر ایسے امام مل گئے جو بس نماز پڑھا دیں تو جمعہ پڑھانے کے لئے اس سے زیادہ کچھ شرائط ہیں ، اس کے کچھ اور احکام ہیں ۔ پھر اس کے بعد مسائل کے لئے آپ کہاں جائیں گے؟ مسجدوں ہی میں تو جائیں گے امام صاحب سے پوچھنے، امام صاحب کو کوئی علم نہیں ہے بس تھوڑی سی سورتیں یادکرلیں اور نماز پڑھانا آگیا، تو یہ مدارس درحقیقت مساجد کے بھی محافظ ہیں اور مساجد کو بھی غذاپہنچاتے ہیں۔
فضلائے مدارس کا فرض 
 ابتداء میں آیت پیش کی گئی ہے کہ ’’اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے …‘‘ یہ تو نہیں ہوسکتا، یعنی ایک غیرممکن سی چیز ہے ، غیرطبعی چیز ہے کہ سب مسلمان سب کام چھوڑ چھاڑ کر دین سیکھنے نکل جائیں ، نہ دکان پر کوئی بیٹھنے والا ہو، نہ کوئی خرید و فروخت کرنے والا، نہ کوئی ضرورت پوری کرنے والا، معلوم ہوا سارا شہر چلا گیا مدرسہ کا طالب علم بن کر، یہ ہونے والی بات نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ایسی بات نہیں کہتا نہ اس کا مکلف قرار دیتا ہے نہ اس کا مطالبہ کرتا ہے، فرماتا ہے کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام مومنین گھر چھوڑکر باہر چلے جائیں ، پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہر جماعت میں کچھ لوگ اس کے لئے تیار ہوجائیں کہ وہ دین سیکھیں ، دین کے احکام و مسائل کا علم حاصل کریں ، جا کر اپنی اپنی بستیوں میں ہدایت کا کام کریں ، وعظ و ارشاد کا کام کریں اور ان کو خطرات اور مہلکات سے بچائیں ، شرک کے مہلکات سے، کفر کے مہلکات سے ، ان عقائد اور رسوم سے اور ان اعمال سے کہ جن سے آدمی بالکل اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ مسلمانوں کا کوئی بہت بڑا شہر ہو، تجارتی مرکز بھی ہو ، کھاتے پیتے مسلمان رہتے ہوں مگر ایک مدرسہ بھی وہاں نہ ہو دین کے موٹے موٹے احکام سمجھانے کے لئے اور قرآن مجید پڑھانے کے لئے تو پورا شہر گنہگار ہوگا۔ بس یہی فرض کفایہ کے معنی ہوتے ہیں ، پورا شہر خطرہ میں ہے اور خدا کے یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ تمہیں توفیق نہیں ہوئی کہ اتنے بڑے شہر میں مدرسہ قائم کرو۔ یہ بات ایسی نہیں جیسے تہجد پڑھنا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تہجد تو فرض نہیں ہے اللہ توفیق دے کوئی پڑھے تو اچھی بات ہے ، ایسے ہی ان لوگوں نے مدرسہ قائم کردیا ہے گویا تہجد پڑھا یا کوئی خیرات کردی ۔ یہ بنیادی کام ہے ، یہ آپ کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے کہ آپ اپنے بقدر ضرورت کم سے کم دینی تعلیم کا انتظام کریں ، آپ کے شہر میں ایسے لوگ ہوں جو وقت پر مسئلہ بتا سکیں اور مسلمانوں کو کوئی خطرہ پیش آجائے، حلال و حرام، کفر و ایمان کا کوئی مسئلہ آجائے تو اس میں وہ رہنمائی کرسکیں ، بتاسکیں کہ یہاں سے یہاں تک تو اسلام ہے، اس کے بعد کفر ہے اور اگر تم سمجھنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں بتاتے ہیں : ’’صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا۔‘‘  (البقرہ:۲۵۶)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK