گاندھی جی کی وفات کو ۷۷؍ سال ہوگئے مگر سات دہائیوں سے زیادہ کے عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گیا ہوگا جب ہندوستان ہی نہیں بلکہ دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اُنہیں یاد نہ کیا گیا ہو۔
EPAPER
Updated: January 30, 2025, 1:42 PM IST | Mumbai
گاندھی جی کی وفات کو ۷۷؍ سال ہوگئے مگر سات دہائیوں سے زیادہ کے عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گیا ہوگا جب ہندوستان ہی نہیں بلکہ دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اُنہیں یاد نہ کیا گیا ہو۔
گاندھی جی کی وفات کو ۷۷؍ سال ہوگئے مگر سات دہائیوں سے زیادہ کے عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گیا ہوگا جب ہندوستان ہی نہیں بلکہ دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اُنہیں یاد نہ کیا گیا ہو، اُن کی تحریروں سے استفادہ نہ کیا گیا ہو اور اُن کی تعلیمات کو روزمرہ کی زندگی میں بسانے کا عزم و اِرادہ نہ کیا گیا ہو۔ یہ بات قابل افسوس ضرور ہے کہ جس ملک میں گاندھی جی پیدا ہوئے اور جہاں آسودۂ خاک ہیں اُسی ملک میں اُن کی ناقدری کا ایسا ریلہ بہہ نکلا ہے کہ کل تک جو چھپ چھپ کر اُنہیں کوستے تھے، اب سرعام اول فول بکنے لگے ہیں مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ جتنا گاندھی مخالف ماحول بنانے کی کوشش کی گئی، مہاتما نے خود کو اُتنا زیادہ منوایا اپنی فکر اور نظریات کے ذریعہ، اپنی تعلیمات کے ذریعہ اور اپنے اسلوبِ حیات کے ذریعہ۔ اُن کی فکر و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش پہلے سے سوا ہوئی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ موہن داس کرم چند گاندھی نامی شخصیت اپنے دور میں جتنی طاقتور تھی اور جس کی طاقتور قیادت نے سامراج کے چھکے چھڑا دیئے، وہ اپنی موت کے بعد بھی اُتنی ہی یا اُس سے زیادہ طاقتور ہے۔
ایسے لوگ بھی، جن کا جھکاؤ مخالفینِ گاندھی کی طرف ہے، گاندھی جی کو پرنام اور اُن کے مجسمے پر ’’مالیارپن‘‘ کرنے کیلئے مجبو ر ہیں۔ اسے کہتے ہیں شخصیت کا جادو، یہ ہوتی ہے تعلیمات کی اثر پزیری اور اسے نام دیا جاتا ہے فکر و فلسفہ کی بلندی کا۔ گاندھی جی جسمانی طور پر منحنی مگر فکری اور نظریاتی اعتبار سے قوی الجثہ شخصیت تھے۔ فکر و فلسفہ کے نقطۂ نظر سے اُن میں بلا کی طاقت تھی۔ وہ اُصول پسندی، حق پسندی اور انصاف پسندی کی تبلیغ ہی نہیں کرتے تھے، اُسے خود بھی جزو ِ معمولات بناتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر انسان اُن آفاقی اُصولوں کا پیروکار ہو جن کا تعلق انسانیت اور انسانی اقدار سے ہے۔ یہی انسانی اقدار معاشرتی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی اقدار کا مجموعہ ہیں اور جنہیں دُنیا کا ہر معاشرہ تسلیم کرتا ہے۔
گاندھی جی نے قناعت پسندی، سادا زندگی اور ایثار و قربانی کی جو مثال پیش کی ہے اُس کے لئے کچھ کم صبرو ضبط درکار نہیں ہوتا، بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ سوچئے اگر اُن کا طرز عمل مختلف ہوتا، یا، یوں کہئے کہ آج کے لوگوں جیسا ہوتا تو دُنیا کی کون سی نعمت تھی جو اُنہیں میسر نہ آتی۔ انگریز تو اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے مگر اُن کا طرۂ امتیاز درویشانہ زندگی تھی جس کے ذریعہ اُنہوں نے دُنیا کی ہر نعمت کو گویا ٹھوکر مار دی، سماج کے نچلے سے نچلے طبقے کے لوگوں کی ہمت بندھائی، اُن کے ساتھ کھڑے رہے اور ملک کے ایک ایک شہری کے یکساں حقوق کی وکالت کرتے رہے۔ اپنی آپ بیتی میں ایک جگہ سول نافرمانی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا مفہوم یہ ہے کہ سول نافرمانی کس کو زیبا ہے؟ اُس شخص کو جو ملک کا ہر قانون مانتا ہو اور اُس کی پاسداری کرتا ہو۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ اُس وقت کی حکومت (سامراجی) کتنی طاقتور تھی؟ اُس کے اقتدار کا تو سورج بھی غروب نہیں ہوتا تھا مگر گاندھی جی اپنی اخلاقی طاقت کا ایسا آفتاب لے کر آئے کہ سامراج کی آنکھیں چندھیا گئیں اور اس کا جعلی وقار مٹی میں مل گیا حتیٰ کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔
آج بھی سامراجی ذہن رکھنے والوں کیلئے گاندھی کی اخلاقی طاقت جو اُن سے روشنی حاصل کرنے والوں میں رچی بسی ہوئی ہے، ایک چیلنج ہے اور ایسے لوگ پوری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہندوستان کو آج بھی گاندھی کا دیس کہتے ہیں۔