پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اسے مصوری کابڑا شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے فوجی دستے کے ساتھ جنگل کی سیر کو جایا کرتا اور اسے جہاں کوئی منظر پسند آجاتا وہاں ڈیرا ڈال دیا کرتا تھا۔
EPAPER
Updated: May 06, 2023, 10:27 AM IST | Saleem Khan | Mumbai
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اسے مصوری کابڑا شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے فوجی دستے کے ساتھ جنگل کی سیر کو جایا کرتا اور اسے جہاں کوئی منظر پسند آجاتا وہاں ڈیرا ڈال دیا کرتا تھا۔
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اسے مصوری کابڑا شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے فوجی دستے کے ساتھ جنگل کی سیر کو جایا کرتا اور اسے جہاں کوئی منظر پسند آجاتا وہاں ڈیرا ڈال دیا کرتا تھا۔ سپاہی اس کی خدمت میں لگے رہتے اور وہ بڑی محنت اور لگن سے اپنا پسندیدہ منظر کینوس پر اتار لیا کرتا۔ اس کا بنایا ہوا منظر دیکھ کر جب امراء اور درباری اس کی تعریف کرتے، اسے دلی مسرت حاصل ہوتی۔ بہتے جھرنے، اڑتے پرندے، لہلہاتے کھیت، پانی پیتے ہوئے جانور، افق کی گود میں اترتاہوا سورج۔ اس نے ایسے کئی قدرتی منظر بنائے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا دربار دلکش مناظر اور رنگا رنگ بیل بوٹوں سے سجا ہوا تھا۔ اس کے محل میں ایک تصویر خانہ بھی تھا۔ جہاں کسی میوزیم کی طرح اس کے آبا و اجداد کی تصاویر اور کئی پرانی شاہکار تصویریں آویزاں تھیں۔
بادشاہ کو صرف ایک بیٹی تھی، شہزادی گلنار۔ بڑی ہوشیار۔ ماں کی دلاری، باپ کی پیاری۔ اس کی عمرتھی بارہ سال۔ گورارنگ، نیلی آنکھیں۔ سفید موتیوں جیسے خوشنما دانت، ریشمی سنہرے بال۔ جب وہ سجتی سنور تی، پریوں کی رانی لگتی۔ آئینہ دیکھ کروہ ہمیشہ خدا کا شکر ادا کیاکرتی، لیکن کبھی کبھی اس کے چہرے پر کچھ دیر کیلئے اداسی چھا جاتی تھی۔
بادشاہ جب کوئی تصویر بناتا شہزادی اس کے قریب جا بیٹھتی اور اپنی پسند کی تصویریں بنایا کرتی۔ بادشاہ کبھی اس کی رہنمائی، کبھی حوصلہ افزائی کرتا اور کبھی خوش ہوکر اسے سینے سے لگا لیتا۔ اس طرح مصوری کے شوق نے باپ بیٹی کی محبت میں دھنک رنگ بھر دیئے تھے۔ ایک روز شہزادی آئینے کے سامنے بیٹھ کر خود اپنی تصویر بنانے لگی۔ وہ بہت دیر تک کوشش کرتی رہی مگر جب صحیح تصویر نہیں بن سکی تو شہزادی مایوس ہوکربادشاہ کے پاس پہنچی اوراداس لہجے میں بولی، ’’ابّو جان دیکھئے ہم سے ہماری تصویر نہیں بن رہی ہے۔‘‘
’’بتائیے اپنی تصویر، واہ واہ، آپ نے تو بڑی اچھی تصویربنائی ہے۔‘‘
’’نہیں ابو جان آپ جھوٹی تعریف کر رہے ہیں، کیا ہم ایسے دکھائی دیتے ہیں!‘‘
’’بیٹی، مصوری ایک فن ہے۔ مشق کے بعد رفتہ رفتہ مہارت پیدا ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ سب ٹھیک ہے، لیکن ہمیں ہماری تصویر چاہئے۔ ہوبہو ہماری طرح۔‘‘ شہزادی نے روٹھتے ہوئے کہا۔ ملکہ ان کی باتیں سن رہی تھیںاس نے شہزادی کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’بیٹی، کھانے کا وقت ہوچکا ہے، کھانا کھا لیجئے پھر آپ کے ابو آپ کی تصویر بنا دیں گے۔‘‘
’’بنائیں گے ابو جان؟‘‘
’’جی، ضرور بنائیں گے ہم اپنی پیاری بیٹی کی تصویر، لیکن آج نہیں، کل۔ آج ہمیں کچھ ضروری کام انجام دینے ہیں۔‘‘
’’وعدہ؟‘‘
’’ہاں بھئی، پکّا وعدہ۔‘‘
اگلے دن باد شاہ نے شہزادی کوسامنے بٹھا کر بڑی لگن اور توجہ سے تصویر بنائی۔ عمدہ کاغذقلم اور اعلیٰ قسم کے رنگ استعمال کئے اور بڑی محنت سے تصویر کو سجایاسنوارا، لیکن شہزادی کو تصویر پسند نہیں آئی۔ اس نے منہ بناکر کہا، ’’ابو جان، آ پ نے بالوں کا انداز (اسٹائل) صحیح نہیں بنایا اور میری آنکھیں نیلی ہیں آپ نے تو....‘‘
’’ہاں، ہاں، جو بات ہماری شہزادی میں ہے، وہ اس تصویر میں نہیں ہے۔‘‘ ملکہ نے شہزادای کی حمایت کی۔ بادشاہ فکرمند ہوگیا، وہ فوراً سنبھل کر بولا، ’’ٹھیک ہے شہزادی صاحبہ، ہم ایک بار اور کوشش کریں گے۔‘‘ ’’کچھ بھی کیجئے، لیکن ہمیںہماری تصویر چاہئے۔ بالکل ہمارے جیسی۔‘‘ شہزادی نے بضد ہو کر کہا۔
بادشاہ سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کِیا جائے۔ اس نے حسب ِ دستور اپنے وزیر ِ خاص سے مشورہ کیا۔ وزیربڑا ذہین اور قابل آدمی تھا۔ اس نے کہا، ’’ظلِ الٰہی ایسی تصویر تو کوئی ماہر فن کار ہی بناسکتا ہے اور اس کے لئے ہمیں مصوروں کو جمع کرنا ہوگا۔‘‘ ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں، اس طرح شہزادی کی تصویر بن جائے گی اور کچھ ہمارے ذوق کی آبیاری بھی ہوجائے گی۔ آپ ریاست میں اعلان کروا دیجئے اور مقابلہ کی تیاری کیجئے!‘‘
باد شاہ کے حکم کے مطابق وزیر نے اعلان کروایا کہ ’’شاہی دربار میں کل صبح دس بجے مصوری کا مقابلہ رکھا گیاہے۔ ماہر مصور مقابلے میں شریک ہوں اور اپنے فن کا مظاہرہ کریں۔ جو مصور شہزادی گلنار کی تصویر سب سے اچھی اور صحیح بنائے گا، اسے شاہی خطاب اور انعام و اکرام سے نوازا جائیگا۔ ‘‘
اگلے دن، مقابلے میں شرکت کیلئے مشہور و معروف دس مصور حاضر ہوئے۔ وزیر موصوف نے ان کا خیرمقدم کیا اور انہیں ضروری ہدایات دیں، پھر ان کے سامنے ایک آرام دہ چوکی پر شہزادی کو بٹھا دیاگیا۔ شہزادی اپنے مخصوص شاہانہ انداز میں کسی مرمریں مورت کی طرح مصوروں کے مقابل بیٹھی رہی۔ وہ خاموش تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی ناک، کا ن، آ نکھیں، ہونٹ مصوروں سے گفتگو کر رہے ہوں۔ مصوروں نے شہزادی کی تصویر بنانے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی، اپنی تمام فنی صلاحیتیں صرف کیںاور بڑی نفاست سے رنگ بھر کر اسے آراستہ کیا۔
مقررہ وقت پر فنکاروں سے تصویریں جمع کر لی گئی تھیں۔ دیوانِ عام میں مصوروں کی مہمان نوازی ہو رہی تھی اور دیوانِ خاص میں باد شاہ، ملکہ اور شہزادی تصویروں کا معائنہ کر رہے تھے۔ بادشاہ نے شہزادی سے کہا، ’’آپ اپنی پسند کی تصویر منتخب کرلیجئے تاکہ اس ماہر فنکار کو انعام و اکرام سے نوازا جا سکے۔‘‘
’’جی ابو۔‘‘ شہزادی نے تصویروں کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ہر تصویر ایک سے بڑھ کر ایک تھی، کسی میں کوئی نمایاں فرق نہیں تھا۔ شہزادی فیصلہ نہیں کرپا رہی تھی کہ کون سی تصویر سب سے اچھی اور صحیح ہے۔ کچھ دیرتک بادشاہ اور ملکہ اس کی الجھن دیکھ کرلطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر ملکہ نے اس کے قریب جھک کر ڈرامائی انداز میں کہا، ’’اگر آپ چاہیں تو ہم اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ ’’جی امّی جان، ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔‘‘
’’اچھاتو دیکھئے۔ ملکہ نے ایک میز پر پانچ تصویروں کے نیچے پانچ تصویریں ترتیب سے رکھ دیںاورکہا، ’’اب ان تصویروں کو نظر بھر کر دیکھئے۔ شہزادی نے جب سا ری تصویروں کا ایک ساتھ بغور مشاہدہ کیا تو ایک تصویر پر اس کی نظر رک گئی۔ جب وہ تصویر اٹھا کر ایک ٹک دیکھنے لگی تو ملکہ نے پوچھا، ’’کیا بات ہے شہزادی؟‘‘
’’امی جان دیکھئے، ان تصویروں میں صرف ایک ہی تصویر ایسی ہے جس میں میرے چہرے کا مَسّا دکھایاگیا ہے۔‘‘
’’جی ہاں، شہزادی کی آنکھ اور کان کے درمیان سیتا پھل کے بیج برابر ایک مَسّا تھا۔‘‘
بادشاہ نے بھی بے تابی سے تصویروں کا جائزہ لیا۔ واقعی ایک ہی تصویرتھی جس میں.... بادشاہ نے حیرت سے ملکہ اور شہزادی کی طرف دیکھتے ہوئے افسوس بھرے لہجے میں کہا، ’’شاید مصوروں کواس بات کا خوف ہو کہ مَسّا بتانے پر ہم ناراض ہوجائیں اور انہیں انعام کے بجائے کوئی سزا مل جائے۔‘‘
’’جی ابوجان، یہی وجہ ہوگی۔‘‘
’’بس یہ ایک سچا فنکار ہے جس نے ہوبہو تمہاری تصویر بنائی ہے۔‘‘
’’آپ نے بالکل بجا فرمایا۔‘‘ ملکہ نے بادشاہ کی پُر زور تائید کی۔
’’ہاںابو جان، یہی تصویر ہماری حقیقی تصویر ہے کہ یہ مَسّا ہماری خاص پہچان ہے۔ خدا کا شکر ہے۔ یہ نہ ہوتا توشاید ہمیںاپنی خوبصورتی پر ناز ہوتا۔ یہی تصویر ہمیں پسند ہے۔‘‘ کہتے ہوئے شہزادی نے اپنی منتخب تصویر بادشاہ کے سپرد کر دی۔
فیصلے کیلئے دربار لگا۔ بادشاہ کے حکم پر وزیر نے کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا، ’’حاضرین، سبھی مصوروں نے قابل تعریف تصویریں بنائی ہیں، ہم ان کے فن کی قدر کرتے ہیں لیکن ضیا حسین کی بنائی ہوئی خوبصورت تصویر میں شہزادی کے چہرے کا مَسّا بھی ہے۔ کسی دوسرے فنکار نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے بادشاہ سلامت نے انہیں انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔ لہٰذا ضیاحسین صاحب سے گزارش ہے کہ وہ جہاں پناہ کے حضور تشریف لائیں۔‘‘ مصوروں کی جماعت سے ایک بوڑھا مصور فرطِ مسرت سے لکڑی کے سہارے بادشاہ کے حضور پہنچا۔ بادشاہ نے بغلگیر ہو کر اس کا استقبال کیااور اسے ’’سچا فنکار‘‘ کے خطاب سے نوازا، پھرشہزادی کے ہاتھوں اسے انعام و اکرام عطاکئے گئے۔