• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قرآن مجید کا تصورِ معیشت و ریاست خالصتاً فلاحی ہے

Updated: November 15, 2024, 4:23 PM IST | Professor Abdul Qadeer Saleem | Mumbai

اسی لئے زر کے جمع کئے جانے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر وعید سناتا ہے۔ اسلام کا معاشی نظریہ مال کی محبت سے منع کرتا ہے۔

The Holy Qur`an does not make spending on the backward sections of the society a mere act of worship and a `deed of reward`, but declares it a duty. Photo: INN
قرآنِ مجید معاشرے کے پس ماندہ طبقوں پر خرچ کرنے کو محض ایک نفل عبادت اور ’ثواب کا کام‘ نہیں بنا دیتا، بلکہ اِسے ایک فرض قرار دیتا ہے۔ تصویر : آئی این این

دولت کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ، انسان کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ نزولِ قرآن کا پس منظر ملاحظہ کیجیے، تو معلوم ہوگا کہ اس طرف توجہ شاذو نادر ہی کی گئی تھی۔ جہاں تک افلاطون کا تعلق ہے، اپنی ’جمہوریہ‘ میں وہ صرف ’حکمران فلاسفہ‘ ہی کے درمیان اشتمالیت اور نفی ٔ ملکیت کی تلقین کرتا ہے۔ بجا طور پر اس کا خیال ہے کہ مال و اسباب کی ہوس ہی سیاسی فساد اور مظالم کا باعث بنتی ہے، مگر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر دولت مند اور با وسائل طبقے ہی ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہوجائیں، تو انہیں حکومت پر قبضہ کرلینے سے روکنے والی چیز کیا ہوگی؟ جہاں تک قدیم ایران کے مُزدک کا تعلق ہے، اس کی تعلیمات کے منتشر اجزا ہی ہم تک پہنچے ہیں اور اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل سے مزاج اور انتشار ہی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ 
قرآنِ مجید نے جو اسلامی نظامِ معاش تجویز کیا ہے، اس سے قبل دُنیا کے تمام معاشروں میں اقتصادی نظام سخت غیرمتوازن نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو پیدائش ِ دولت اور دولت جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، دولت کمانے کے سلسلے میں جائز و ناجائز کی کوئی تفریق نہیں تھی، اِسی طرح اُسے خرچ کرنے پر بھی پابندیاں نہیں تھیں۔ 
دوسری طرف ملوکِ جابر اور سردار، جہاں اور جس طرح چاہتے اپنی رعایا کی دولت پر قبضہ کرلیتے۔ پیداوارِ دولت کا بنیادی ذریعہ (یعنی زمین) انہی کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا۔ بعض معاشروں میں تو ستم بالائے ستم یہ تھا کہ معاشرے کو ایسے موروثی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ بعض افراد اور اُن کی اولاد کا مستقبل کبھی معاشی طور پر خوش آئند ہو ہی نہیں سکتا تھا، جیسے قدیم ہندو معاشرے کے شودر۔ اس کے برخلاف دوسرے طبقات کو غیرمعمولی معاشی فوائد سے متمتع ہونے کا حقدار بنا دیا گیا تھا۔ 
قرآنِ مجید نے ان تمام مفاسد کے انسداد کی تدبیر کے لئے دنیا کو ایک نیا معاشی نظام دیا۔ اگر آپ دولت کی پیدائش کے عوامل پر نظر ڈالیں تو ان میں دو عوامل نمایاں نظر آئیں گے: (۱) وسائل ِ پیداوار اور (۲) محنت۔ آج معاشیات میں دو مزید عوامل، سرمایہ اور انتظام گنائے جاتے ہیں مگر یہ بھی درحقیقت اوّل الذکر دو عوامل ہی کے تحت آسکتے ہیں۔ جہاں تک پیداوار کے وسائل کا تعلق ہے (کلاسیکی معاشیات میں جن پر ’زمین‘ کے عنوان کے تحت گفتگو کی جاتی ہے، اور اس میں زمین کے علاوہ سمندر اور آبی وسائل، جنگلات، معدنیات اور ہر طرح کے عطیاتِ قدرت شامل ہیں ) قرآنِ مجید واضح اعلان کرتا ہے:
’’ آسمان اور زمین اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔ ‘‘
(آل عمران:۱۸۰، الحدید: ۱۰)
’’یاد رکھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ ‘‘ (یونس :۵۵) 
چوں کہ وسائل ِ پیداوار اپنی آخری تحلیل میں زمین ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اس لئے قرآن مجید اُن کے لئے ’ارض‘ استعمال کرتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی محنت سے جو بھی دولت حاصل کرتا ہے، وہ ’زمین‘ ہی سے آتی ہے اور اگر کائنات کے دیگر گوشوں (آفتاب) سے بھی آئے تو ’سموات‘ کی اصطلاح اس کا بھی احاطہ کرلیتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:منافقت ایک سنگین فتنہ ہے

جب دولت کا مصدر (Source) فی الواقع اللہ ہی کی ملکیت ہے، تو اس پر انسان کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ دراصل جب انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ یانائب کہا گیا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ زمین پر اس کا اختیار مالکانہ نہیں، بلکہ ایک امانت دار کا ہے۔ زمین پر اللہ کی نیابت کوئی انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی تصور ہے، یعنی بحیثیت کُل۔ پوری انسانیت خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ جدید لادینی تصورِ سیاست میں چونکہ اللہ کے تصور کو خارج از بحث رکھا جاتا ہے اس لئے اس میں اللہ کی جگہ ’ریاست‘ لے لیتی ہے۔ یوں زمین اور سارے وسائلِ پیداوار دراصل ریاست ہی کی ملکیت قرار پاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ریاست جن افراد یا اداروں کی ملکیت میں انہیں دے دیتی ہے، وہ اس پر مالکانہ تصرف کے مختار قرار پاتے ہیں۔ اگر صورتِ حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ ’زمین‘ سے حاصل ہونے والی پیداوار پر انسان کا حق نہایت محدود معنوں ہی میں ملکیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ دراصل ایک امانت ہے، اور امانت پر امین کا کلی اختیار نہیں ہوتا۔ اُس کے لئے لازم ہوتا ہے کہ امانت کے اصل مالکِ کی منشا کے مطابق ہی اُسے استعمال کرے۔ 
اس نکتے کو قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے:
’’ذرا اُس کھیتی کو تو دیکھو جس کی تم کاشت کرتے ہو، کیا تم نے اُس (کے بیج) کو اُگایا، یا اُگانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے بھوسے جیسا بنا دیتے، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاتے (اور کہتے) دراصل ہمیں دھوکا ہوا (کہ ہم اُسے اپنی محنت کا ثمرہ سمجھ رہے تھے)۔ فی الواقع ہم نامراد ہیں۔ پھر ذرا اُس پانی کو تو دیکھو جسے تم پیتے ہو۔ کیا تم اُسے بادل سے اُتارتے ہو، یا برسانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے کھاری ہی بنا لیتے۔ تو تم اس کا شکریہ ادا کیوں نہیں کرتے؟ ذرا اُس آگ کو تو دیکھو جسے تم روشن کرتے ہو۔ کیا تم نے اُس کا شجر اُگایا ہے، یا اُگانے والے ہم ہیں۔ ‘‘ (الواقعۃ :۶۳؍تا۷۲) 
اقبال نے قرآنِ مجید کے اس فلسفۂ ملکیت کو اپنی نظم الارض للہ میں یوں بیان کیا ہے:
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
دِہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں 
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں 
(بالِ جبریل)
پیدائش ِ دولت کا دوسرا اہم عامل ’محنت‘ کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام انسان اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی میں یکساں نہیں ہوتے، لیکن اگر کوئی بہتر صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ودیعت ہے، اور محض اس بنا پر وہ کسی قدر زائد کا حق دار نہیں۔ ہاں، محنت کی کمی بیشی کی بنا پر معیشت میں فرق ہوسکتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق ایک اور ایک ہزار یا لاکھوں کروڑوں کا نہیں ہوسکتا، جیساکہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام اور ’ بے روک معیشت‘ میں ہم دیکھتے ہیں۔ اسلام نے قرآنی تعلیمات کی بنا پر اس فضیلت ِ ذہنی و جسمانی کی بناپر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کا استحصال کرنے اور اُسے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے آلۂ کار بنانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے بعض بندوں کو زائد رزق کے حصول کے مواقع دیتا ہے تو امین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ اُسے اپنے نسبتاً کم خوش قسمت انسانوں اور مالی طور پر کمزور لوگوں پر خرچ کریں :
’’ اللہ تعالیٰ نے روزی میں تم میں سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے، تو جنہیں زیادہ دیا گیا ہے، وہ اپنا رزق اُن لوگوں کو نہیں لوٹا دیتے جو اُن کے زیردست ہیں، تاکہ وہ باہم مساوی ہوجائیں تو کیا وہ اللہ کی اس (نعمت) کا انکار کر رہے ہیں ؟‘‘(النحل :۷۱)
یہاں ایک نکتہ قابلِ غور یہ ہے کہ بِرَادِّي رِزْقِهِمْ یعنی ’’اپنے رزق کو لوٹانے والے‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اور لوٹائی وہ چیز جاتی ہے جس کے ہم حقیقی مالک نہ ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث میں زکوٰۃ کی بابت ارشاد ہوتا ہے کہ یہ امیروں سے لے کر غریبوں کو لوٹائی جاتی ہے۔ گویا معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کی امداد کے لئے اہلِ ثروت جو دیں گے وہ بھیک یا خیرات نہیں ہوگی، بلکہ محتاجوں کا حق ہوگا۔ اسے بھیک یا خیرات سمجھنا سراسر نادانی اور جہل ہے۔ 
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزدیک ضرورت سے زائد تمام دولت معاشرے کے پسماندہ طبقے کا حق ہے۔ کلام پاک میں فرمایا گیا: 
’’ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ ہم (اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟ کہہ دیجئے، وہ جو ضرورت سے زائد ہے۔ ‘‘ (البقرہ : ۲۱۹)۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ سورئہ بقرہ کی ایک آیت ہے، اور زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپؐ کی دی ہوئی ہدایات میں سے آخری ہدایتوں میں سے ہے۔ 
قرآنِ مجید کا تصورِ معیشت و ریاست خالصتاً فلاحی یعنی ویلفیئر (Welfare)کا ہے۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ استحصال کو روکتا ہے، بلکہ زر کے جمع کئے جانے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر وعید بھی سناتا ہے:
’’وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُنہیں ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دو۔ وہ ایسا دن ہوگا، جب انہیں جہنم کی آگ میں پگھلایا جائے گا، پھر اُن سے ان کے پہلو اور کھالیں داغی جائیں گی۔ یہ ہے جو تم اپنے لئے جمع کرکے رکھتے تھے، تو اپنے اس جمع کرنے کا مزا چکھو۔ ‘‘ (سورہ التوبۃ: ۳۴۔ ۳۵)۔ اس طرح قرآنِ مجید معاشرے کے پس ماندہ طبقوں پر خرچ کرنے کو محض ایک نفل عبادت اور ’ثواب کا کام‘ نہیں بنا دیتا، بلکہ اِسے ایک فرض قرار دیتا ہے، جس کے سلسلے میں دنیا میں احکام ہیں اور آخرت میں محاسبہ۔ افسوس کہ فی زمانہ ہم نے دولت کو ذاتی ملکیت سمجھ لیا ہے اور اس میں سے حقداروں پریا تو خرچ نہیں کرتے یا بخیلی سے کرتے ہیں حتیٰ کہ ادائیگی ٔ زکوٰۃ جو فرض ہے میں بھی فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہ عاقبت نااندیشی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK