• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ماحولیات کی خرابی کیلئے امیر طبقہ ذمہ دار لیکن قہر غریبوں پر

Updated: November 12, 2023, 1:39 PM IST | Advocate Virag Gupta | Mumbai

انتخابی ریاستوں میں عوام کی تقدیر بدلنے کا وعدہ کرنے والے لیڈران خود راجدھانی دہلی میں عوام کی جان کی حفاظت نہیں کرپا رہے ہیں۔

Congress protest against Narendra Modi and Arvind Kejriwal government against rising pollution in Delhi. Photo: INN
دہلی میں بڑھتی آلودگی کے خلاف کانگریس کا نریندر مودی اور اروند کیجریوال حکومت کے خلاف احتجاج۔ تصویر : آئی این این

انتخابی ریاستوں میں عوام کی تقدیر بدلنے کا وعدہ کرنے والے لیڈران خود راجدھانی دہلی میں عوام کی جان کی حفاظت نہیں کرپا رہے ہیں۔ دیوالی کا ’شبھ لابھ‘ کا سالانہ تہوار کروڑوں گھروں میں روشنی کے ساتھ خوشحالی لاتا ہے لیکن آلودگی سے نمٹنے کے نام پر اٹھائے جانے والے فوری اقدامات یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں ، ڈرائیوروں ، پینٹروں ، کاریگروں اور چھوٹے تاجروں کے دیوالیہ ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔
وشو گرو ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک میں آلودگی کی وبا اس کی بین الاقوامی شبیہ، سرمایہ کاری اور سیاحت کو متاثر کر رہی ہے۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں سپریم کورٹ نےعوام کے جینے کے حق کو یقینی بنانے کیلئے کئی احکامات پاس کئے، جن پر ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے عمل درآمد نہیں کیا۔ حکومتوں کو لیڈروں اور افسران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے عدالتوں کی مداخلت سے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا ’سیفٹی والو‘ مل رہا ہے۔ اس قانونی جنگ کے چار پہلوؤں کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔
اول: ہندوستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے امیر ممالک کو ذمہ دارسمجھا ہے اور ان سے اقتصادی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی خطوط پر، امیر طبقے کا طرز زندگی اور حکومت کی مارکیٹ پر مبنی پالیسیاں ہندوستان میں آلودگی کیلئے ذمہ دار ہیں لیکن یہ غریبوں پر تباہی مچا رہی ہے۔ ہندوستان کی۶۷ء۴؍ فیصد آبادی آلودہ علاقوں میں رہتی ہے۔۲۰۱۹ء میں ،۱۷؍ لاکھ ہندوستانیوں کی موت آلودہ ہواؤں کی وجہ سے ہوئی تھی۔ طویل مدتی حل کے طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کو مضبوط بنانے کیلئے نئی بسوں اور الیکٹرک فیڈر بسوں کی اسکیم پر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، ریاستی حکومت نے ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔یہی وجہ ہے کہ دھن تیرس کے دن ایک لاکھ کاریں اور ۷؍ لاکھ دو پہیہ گاڑیاں فروخت ہونے کا تخمینہ ہے۔ مزید ستم یہ کہ آلودگی میں اضافہ کرنے والی ایئر کنڈیشن گاڑیوں کی فروخت پر مرکزی حکومت سبسیڈی بھی دے رہی ہے۔ دوسری طرف کسانوں کو پانچ کلو سرکاری راشن پر ٹرخایا جارہا ہے اور کچھ بولتے ہیں توان پر مقدمات کا بوجھ ڈا ل دیا جاتا ہے۔
دوم: پرالی جلانے والے کسانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور پھر سیاسی دباؤ میں مقدمات واپس لینے کا رجحان پنجاب اور ہریانہ میں بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ سال سخت ججوں نے اس سال یو ٹرن لیا ہے اور کہا ہے کہ کسانوں کو سزا دینے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے لیکن آلودگی سے متعلق بڑی کمپنیوں کے معاملات میں حکومت اور پولیس کی خاموشی خطرناک ہے۔ کولڈ ڈرنک کمپنیاں بے خوفی سے پانی میں زہر ملا رہی ہیں ۔ بھاری منافع کمانے کے باوجود بوتل بند پانی کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں ٹیکس ادا نہیں کرتیں اور پلاسٹک کی بوتلوں کو ٹھکانے بھی نہیں لگاتیں ۔ کمپیوٹر، موبائل اور گیجٹ بنانے والی امیر کمپنیاں ای ویسٹ کے قوانین پر عمل نہیں کر رہی ہیں ۔
سوم: کولروں اور گاڑیوں میں پی یو سی نہ ہونے پر پانی جمع ہونے سے ایم سی ڈی اور پولیس کروڑوں روپوں کا جرمانہ وصول کرتے ہیں لیکن کچروں کے کئی پہاڑ بنانے کے ذمہ دار سرکاری اداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ جمنا ندی کے کنارے چھٹ پوجا پر سیاست کرنے والے لیڈروں کو دریا میں زہریلی جھاگ کی وجوہات کے سائنسی مطالعہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
چہارم: سپریم کورٹ کے مطابق دارالحکومت میں آلودگی کا معاملہ پڑوسی ریاستوں سے جڑا ہوا ہے۔ ملک گیر بحران سے جڑے معاملے کو سیاسی موڑ دیتے ہوئے مرکزی وزیر ماحولیات نے کہا ہے کہ پنجاب میں پرالی کی وجہ سے دہلی گیس چیمبر بن گیا ہے۔ دوسری جانب آلودگی سے نمٹنے میں ریاستی حکومت کے علامتی اقدامات اور چالوں کی وجہ سے ہندوستان پوری دنیا میں شرمندہ ہو رہا ہے۔ ٹریفک جام کو ختم کرنے کیلئے پولیس اہلکار سڑکوں پر نکل آئے ہیں جبکہ ریاستی حکومت کے وزراء حکومت کی پیچیدہ دفعات کو نافذ کرنے کیلئے سڑکوں پر اُتر آئے ہیں۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK